فاروق طارق
ملٹی نیشنل کمپنیوں نے غیر ترقی یافتہ ممالک کی لوٹ کھسوٹ کا ایک نیا اور انوکھا طریقہ ڈھونڈھ نکالا ہے۔ پہلے ایسا معاہدہ کرو جو مقامی لوگوں کو فوری سمجھ نہ آئے۔ معاہدے پر دستخط کے لئے کرپٹ افسر شاہی اور سیاسی اشرافیہ کو رشوتیں دو اور اپنی پوری تیاری کرو۔ معاہدہ پرفریب ہونا چاہئے۔ لگتا کچھ اور ہو مگر اپنی روح میں کچھ اور۔ اگر معاہدہ کبھی سمجھ آ جائے اور منسوخ کر دیا جائے یا روک دیا جائے تو پھر اس کے خلاف ورلڈ بینک کے ’مصالحتی ٹربیونل‘ میں مقدمہ درج کر کے اس وقت تک خرچ ہونے والی رقم سے دسیوں گنا زیادہ ہرجانہ مانگ لو۔
بس یہ سب کچھ اب پاکستان کے ساتھ ہوا ہے۔
ریکوڈک معاہدہ کی تفصیلات، جس کے منسوخ کرنے پر پاکستان کو 5.8 ارب ڈالر کا جرمانہ کیا گیا ہے، بڑی حیران کن ہیں۔ہاں مگر یاد رہے کہ عالمی لوٹ کھسوٹ عمومی طور پرمقامی حکمران طبقے کے تعاون سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ کہانی فوجی گورنر، بیوروکریٹوں، قائم مقام حکمرانوں اور دیگر نظر نہ آنے والی قوتوں کے گٹھ جوڑ کی بھی ہے۔ ان قوتوں نے معاہدے پر جلدی جلدی دستخط کر دئیے۔ معاہدے پر دستخط کے بعد اس میں حیران کن ترامیم کے ساتھ سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فائدے پہنچانے کی ایک مزیدخوفناک پس نوشت بھی ہے۔
بلوچستان کے علاقے ریکوڈک، جو ضلع چاغی میں ہے، میں سونے اور تانبے کی تلاش کے لئے 29 جولائی 1993ء کو امریکہ کی ایک فرم بی ایچ منرلز اور بلوچستان ڈویلپمنٹ اٹھارٹی کے درمیان ایک معاہدے پرکوئٹہ کے گورنرہاؤس میں بڑی رازداری سے دستخط ہوئے۔ اس معاہدہ کے تحت پچاس کلومیٹر کے علاقے میں سونے اور تانبے کی تلاش میں کھدائی کا عمل شروع کیا جانا تھا۔ معاہدے میں لکھا گیا کہ یہ کمپنی اور بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی 75 اور 25 فیصد کی سرمایہ کاری کریں گے اور اسی تناسب سے ملنے والی دھاتوں کی رقم کو تقسیم کریں گے۔ اگرچہ اس وقت تک اس قسم کے جائنٹ وینچر کے لئے نہ تو کوئی صوبائی قانون تھا نہ ہی کسی غیر ملکی فرم کو کھدائی کرنے کی اجازت کا کوئی قاعدہ قانون موجود تھا۔
اس وقت کی بلوچستان حکومت میں شریک بہت کم افراد کو علم تھا کہ ان کی صوبائی حکومت کسی غیر ملکی کمپنی سے دھاتوں کی تلاش میں کھدائی کا کوئی معاہدہ کرنے جا رہی ہے۔
ریٹائرڈ برگیڈیر عبدالرحمان درانی نے 19 جولائی کو قائم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ اُسی روز محمد نصیر مینگل قائم مقام وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ صوبائی اسمبلی تحلیل کی جا چکی تھی اور سب کچھ قائم مقام لوگ ہی چلا رہے تھے۔ قائم مقاموں کے اس دور میں ہونے والے اس معاہدہ کے ختم ہونے پر جو جرمانہ ہوا ہے اس نے آج پاکستان کی معیشت کی کمر مزید توڑ کے رکھ دی ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب مرکز میں قائم مقام وزیر اعظم معین قریشی تھے جو موجودہ وزیر خزانہ اور سٹیٹ بینک کے گورنر کی طرح عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے درآمد شدہ تھے۔ وہ جولائی 1993ء سے اکتوبر 1993ء تک وزیر اعظم رہے۔ ورلڈ بینک کے سابق سینئر نائب صدر نے تقریباً وہی کام کیے جو آج عمران خان ان اداروں کے کہنے پر کر رہے ہیں۔ کرنسی کی قیمت کم کی گئی، ”ٹیکس کلچر“ کو فروغ دینے کی بات کی گئی وغیرہ وغیرہ۔ اور امریکی کمپنی سے یہ معاہدہ بھی عجلت میں معین قریشی کے دور میں کیا گیا۔
یہ معاہدہ 30 جنوری 1994ء سے عمل میں آنا تھا مگر امریکی کمپنی نے معاہدے سے دس روز قبل ایک خط لکھ کر بلوچستان حکومت سے مزید مراعات حاصل کر لیں۔ بالکل اسی طرح جیسے اتصلات نے 2006ء میں معاہدہ کرنے کے بعد شور مچا کے شوکت عزیز سے مزید مراعات حاصل کیں اور پاکستان کو شدید معاشی نقصان پہنچایا۔
امریکی کمپنی کو ملنے والی ان مراعات کے تحت حکومت سے اس علاقہ میں سونے تانبے کے علاوہ دیگر دھاتوں پر بھی کمپنی کا حق تسلیم کیا گیا۔ سب سے اہم یہ شق کہ اس کمپنی نے معاوضے کا وہ حق حاصل کر لیا جو حکومت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر اسے ملے گا۔ اسی شق کی بنا پر اب حکومت کو اتنا بڑا جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ہندوستان ورلڈ بینک کے اس ’مصالحتی ٹربیونل‘ کا رکن ہی نہیں ہے جس نے پاکستان کو جرمانہ کیا ہے۔ ہندوستان کا خیال ہے کہ ورلڈ بینک کا یہ ادارہ ترقی پذیر ممالک کی طرف جانب دارانہ اور متعصبانہ رویہ رکھتا ہے۔ جو کہ اس جرمانے کی بعد درست معلوم ہوتا ہے۔
بہرحال کمپنی نے 1996ء میں دس دیگر مراعات پر مبنی لائسنس حاصل کر لیے اور اس کا دائرہ کار پچاس کلو میٹر سے بڑھا کر 1000 کلومیٹر کر دیا گیا۔ کمپنی نے ان علاقوں میں کھدائی کی بلا شرکت غیرے اجارہ داری حاصل کر لی۔
اس کے چار سال بعد ایک اور قائم مقام گورنر امیر الملک مینگل نے کمپنی کو مزید مراعات دے دیں۔ کمپنی کو دیگر کمپنیوں کے ساتھ مرجر کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ اس امریکی کمپنی نے پھر ایک آسٹریلین کمپنی کے ساتھ اشتراک کیا اور تیٹھن کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کی تشکیل کی۔ اس دوران چلی سے تعلق رکھنے والی اور کنیڈا کی ایک کمپنی نے اشتراک سے ایک نئی کمپنی ’ایتاکامہ‘ کی تشکیل کی۔ یہ کمپنی پھر 2006ء میں امریکی کمپنی کے 100 فیصد شیئر خرید کر اس سارے معاہدے کی مالک بن گئی۔ معاہدہ اس قدر غیر ملکی کمپنیوں کے حق میں تھا کہ ہر کوئی اس پر نظر رکھے ہوئے تھا۔
اس طرح 2006ء میں ہی تیٹھن کاپر کمپنی (ٹی سی سی) پاکستان کو رجسٹر کرا لیا گیا جو تمام آپریشنز کی ذمہ دار قرار پائی۔
حکومت نے اس سارے آپریشن اور معاہدے کے لئے جو قانون بنائے وہ اسی قانونی کمپنی نے تیار کیے جس نے بلوچستان ہائی کورٹ میں امریکی کمپنی کی وکالت کی تھی۔ گویا اپنی باگیں انہی کے ہاتھ دے دی گئیں جو یہاں لوٹ مار کرنے آئے تھے۔
ان ضوابط کے تحت ٹی سی سی کو جو مراعات ملیں وہ غیر معمولی تھیں۔ کھدائی کرنے والی کسی اور کمپنی کو اس قدر پسندیدہ حالات نہ ملے ہوں گے جو اس کمپنی کو ملے۔ 2009ء میں ٹی سی سی نے ایک کے علاوہ دیگر تمام لائسنس واپس کر دئے اور 13000 کلو میٹر کے علاقہ میں کھدائی کرنے کے منفرد اور بلا شرکت غیرے حقوق حاصل کر لیے۔ 14 سال کے سروے کرنے کے بعد اس کمپنی کو یہ بالکل واضح تھا کہ بلوچستان کے کن علاقوں میں سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ وہ دیگر علاقوں میں اپنے لائسنسوں کے ذریعے وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اب تک کمپنی کے پاس کھدائی کرنے کی اجازت تھی اور یہ بتانے کی کہ کس جگہ کونسی دھات موجود ہے۔
2007ء کے دوران کمپنی نے ریکوڈیک کے علاقے میں مائننگ کی اجازت حاصل کرنے کے لئے زبردست لابنگ شروع کر دی۔ اس وقت جو اس نے معاہدے کا ڈرافٹ تیار کیا اس میں یہ درج تھا کہ جو بھی دھاتی ذخیرہ یہاں سے ملے گا اس کے صرف دو فیصد حصہ پر بلوچستان حکومت کا حق ہو گا۔ 98 فیصد یہ کمپنی لے گی۔ یہ ایک انتہائی غیر منصفانہ ڈرافٹ تھا جس پر دستخط کرانے کے لئے کمپنی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔
2008ء کے دوران اس وقت کے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کے کان کھڑے ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے دسمبر 2009ء میں یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو منسوخ کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ کمپنی ورلڈ بینک کے ٹربیونل میں چلی گئی۔ بلوچستان حکومت نے اپنے طور پر کھدائی کے پراجیکٹس کچھ سال چلائے اور 2015ء میں ان کو مکمل طور پر بند کر دیا۔ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک نے بھی اپنے طور پر عدالت سے باہر ڈیل کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوئی۔
ریکوڈک کے مسئلے پر قانونی چارہ جوئی 2006ء میں شروع ہوئی جب مولوی عبدالحق بلوچ نے بلوچستان ہائی کورٹ کو یہ معاہدہ منسوخ کرنے کی درخواست دائر کی۔ 26 جون 2007ء کو ہائی کورٹ نے یہ پٹیشن خارج کر دی۔ پٹیشنر سپریم کورٹ چلا گیا۔ 2009ء اور 2011ء میں کچھ اور افراد نے بھی سپریم کورٹ میں اس معاہدہ کو ختم کرنے کی درخواستیں دائر کر دیں۔ 2011ء اور 2012ء کے دوران سپریم کورٹ میں ان درخواستوں پر سماعت ہوتی رہی۔
سات جنوری 2013ء کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی صدارت میں اس معاہدے کو غیر قانونی قرار دے دیا کیونکہ اس نے 1948ء کے منرل ڈویلپمنٹ ایکٹ، مائننگ کنسیشن رولز 1970ء اور 1872ء کے کنٹریکٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔ 150 صفحات کے اس فیصلے میں معاہدے کے بعد ہونے والی ترامیم کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔
بھاری جرمانے کے موجودہ فیصلہ کے بعد پاکستان میں ایک دوسرے کو اس غیر معمولی جرمانے کا ذمہ دار ٹھہرانے کا جو سلسلہ جاری ہے وہ کافی حد تک لا علمی پر مبنی ہے۔ ایک سامراجی کمپنی نے زیر زمین خزانے کو لوٹنے کے لئے جو کوششیں کیں وہ واضح کرتی ہیں کہ یہ معاہدہ جانب دارانہ تھا۔
اب 2019ء میں ورلڈ بینک کے ٹربیونل نے پاکستانی حکومت کے خلاف اس غیر منصفانہ معاہدے کو منسوخ کرنے پر جو 5.8 ارب ڈالر جرمانہ عائد کیا ہے وہ اس کے متعصبانہ رویوں، غیر ملکی سامراجی کمپنیوں کے مفادات کے ناجائز دفاع اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں ایسے غیر منصفانہ معاہدوں کے خلاف بچی کچھی مزاحمت کو سبق سکھانے کے مترادف ہے۔ یہ ایک سامراجی ادارے کے استحصالی ٹربیونل کا فیصلہ ہے۔
ٹی سی سی کا موقف ہے کہ اس نے پراجیکٹ پر 220 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں مگر اسے 5.8 ارب ڈالر اب ملنے ہیں یعنی ایک سامراجی ادارہ پاکستان کو سبق سکھا رہا ہے کہ تمہیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ ایک معاہدہ منسوخ کرو۔
اس مسئلے کا ایک ہی قابل عمل حل ہے کہ سب سے پہلے تو پاکستانی حکومت کے جو جو افراد مذکورہ بالا استحصالی معاہدے کروانے میں سامراجی کمپنیوں کیساتھ شریک رہے ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس کے بعد پاکستانی حکومت اس جرمانے کو ادا کرنے سے یکسر انکاری ہو جائے اور عالمی سطح پر اس جرمانے کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائے تا کہ یہ بالکل واضح ہو جائے کہ یہ ٹربیونل جانب دار ہے، سامراجی کمپنیوں کا ساتھ دیتا ہے، یہ تنازعات حل کرانے والا نہیں بلکہ غریب ممالک کو معاشی طور پر چوسنے والا ادارہ ہے۔ اس ادارے کی ایک پوری تاریخ ہے اس قسم کے فیصلے کرنے کی۔
مگر کیا کریں کہ اِن تلوں میں تیل نہیں اور یہ حکومت تو خاص طور پر انہی اداروں کے بل بوتے پر اقتدار میں آئی ہے۔ یہ کس طرح ایک سامراجی ادارے کے خلاف کھڑی ہو گی؟
ابھی آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر کے قرضے کے لئے اس حکومت نے عوام کی جو درگت بنائی ہے وہ سب کے سامنے ہے اور اب اتنی ہی رقم جرمانے میں ادا کرنے کے لئے یہ حکومت نہ جانے عوام کا کیا حشر کرے گی۔