التمش تصدق
جنگیں، قحط، زلزلے، طوفان اور دیگر قدرتی آفات ہوں یا سماجی بربادیاں محنت کشوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی ہیں۔ پہلے سے سرمایہ دارنہ نظام کی غلامی، جبر اور استحصال کا شکار محنت کش طبقے کی زندگیاں مزید اجیرن ہو جاتی ہیں، ان کی مشکلات اور ذلتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ قدرتی آفات جیسے مشکل حالات میں جب نسل انسانی کے وجود کی بقا کو خطرات لاحق ہوں، ایسے وقت میں بھی سرمایہ داروں کے لیے اربوں انسانوں کی زندگیوں سے زیادہ اپنے منافعوں کی اہمیت ہے۔
عالمی معیشت اور تجارت پر سامراجی ممالک کی چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہے، جوان بربادیوں کے ذریعے بھی دولت کماتی ہیں۔ دولت کی ہوس میں اندھے یہ حکمران منافع کے حصول کے لیے کروڑوں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں جس کی حالیہ مثال کرونا وبا ہے۔ اس وباسے کروڑوں انسان متاثر ہوئے اور 49 لاکھ انسانوں کی زندگیوں کا خاتمہ ہوا۔ عالمی ادارہ صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے اگلے برس فروری تک مزید 5 لاکھ لوگوں کی موت ہو سکتی ہے۔ اسی دوران دوا ساز کمپنیوں کے منافعوں میں کھربوں ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔
کووڈ ویکسین کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی مہم چلانے والی تنظیم اتحاد پیپلز الائنس (پی وی اے) کے تجزیہ میں بتایا گیا ہے کہ انسداد کورونا کی ویکسین تیار کرنے والی صرف تین کمپنیاں فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈرنا اپنی ویکسین کو فروخت کر کے مجموعی طور پراس سال 34 ارب ڈالر کا منافع کمائیں گی، جوکہ فی سیکنڈ 1000 ڈالر، فی منٹ65 ہزار ڈالر اور یومیہ 93.5 ملین ڈالر بنتا ہے۔
عالمی سامراجی اجارہ داریوں کے مفادات کے مطابق بنائے گئے تجارتی قوانین کی جکڑ بندیوں کی وجہ سے پسماندہ ممالک کی اکثریت ویکسین سے محروم ہے۔ ابھی تک غریب ملکوں میں صرف دو فیصد لوگوں کو ہی ویکسین کی دونوں خوراکیں مل سکی ہیں۔ ان کمپنیوں کو اربوں ڈالر کی سرکاری فنڈنگ کی گئی اس کے باوجود انہوں نے ویکسین تیار کرنے کا فارمولا، تکنیک اور دیگر معلومات دیگر ممالک کو دینے سے انکار کر دیا ہے، جس سے ان ممالک میں لاکھوں جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ حکمران طبقے کی سرمائے کی ہوس اس مہلک وائرس کو ختم کرنے کے بجائے اس کوخود میں تبدیلیاں لانے اور انسانی مدافعتی نظام کے خلاف لڑنے کے لیے طاقت میں اضافے کا وقت مہیا کر کے اس کے پھیلاو اور مضبوطی کا باعث بن رہی ہے۔
کرونا وائرس کو محض ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کو ویکسین لگا کر شکست نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے عالمی تعاون، غریب ممالک تک ویکسین کی فراہمی کے لیے اس سے جڑی معلومات درکار ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے جنوبی افریقہ سے سامنے آنے والے وائرس کے نئے ویرئنٹ ”اومی کرون“ کے بارے میں خبردار کیا ہے کہ یہ وائرس کرونا کی دیگر اقسام کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔
نجی ملکیت کے تحفظ اور سامراجی اجارہ داریوں کے غلبے کے لیے بنائے گئے انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس اور پیٹنٹ جیسے انسان دشمن قوانین کی وجہ سے کرونا وبا قابو سے باہر ہو رہی ہے۔ کرونا وائرس خود حکمران طبقے کی ہوس کے نتیجے میں جنم لینے والی ماحولیاتی تبدیلی کی پیداوار ہے اور اس کا پھیلاؤ بھی اسی منافع کی ہوس کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ جب تک منافع کی لالچ اور خودغرضی پر مبنی نظام کو شکست نہیں دی جاتی تب تک اس کی پیدا کردہ بیماریوں اور دیگر غلاظتوں کو شکست بھی نہیں دی جا سکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کام دنیا میں انسانی صحت کے لیے سنجیدہ اقدمات کی بجائے ان قوتوں کو ہدایات جاری کرنا اور ان سے منتیں اور التجائیں کرنا ہے، جن کا موت کا کاروبار ہے۔عالمی سطح پر صحت کے حوالے سے حکمت عملی بنانے اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے عالمی منصونہ بند معیشت کی ضروت ہے، جس میں ادویات بنانے کا مقصد منافع نہ ہو بلکہ بیماریوں کا خاتمہ ہو۔ عالمی منصوبہ بندی اور تعاون دنیا بھر کے محنت کشوں کے اتحاد سے عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔