حارث قدیر
پیرس میں مقیم پاکستانی نژاد صحافی یونس خان کہتے ہیں کہ چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی نے جس طرح کی زبان میرے خلاف استعمال کی ہے، یہ یورپی یونین کے قوانین کی خلاف ورزی ہے، ان کے یورپی یونین میں داخلے پر پابندی عائد ہو سکتی ہے۔ یونس خان پاکستان کے نجی ٹی وی ’آج نیوز‘ کے ساتھ منسلک ہیں۔
گزشتہ دنوں یونس خان کو فرانسیسی حکام نے چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی کی ایک آڈیو فراہم کی ہے جس میں شہریار آفریدی نے یونس خان سے متعلق سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے فرانس میں مقیم ان کے اعزاز میں تقریب کے منتظمین کو یہ ہدایات کی ہیں کہ انہیں یونس خان کے خلاف سخت ایکشن لینا ہو گا۔ انہیں یہ بھی کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اگر منتظمین نے یونس خان کے خلاف کارروائی نہ کی تو وہ (شہریار آفریدی) انہیں نہیں چھوڑیں گے۔
شہریار آفریدی کی آڈیو کے بعد پیدا ہوئی صورتحال سے متعلق ’جدوجہد‘ نے یونس خان کا ایک مختصر انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
پیرس میں منعقدہ تقریب کس نوعیت کی تھی اور آپ نے کیا سوال کیا تھا؟
یونس خان: رواں سال 15 اکتوبر کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں کشمیر کمیونٹی کی طرف سے یہ تقریب کشمیر سے متعلق منعقد کی گئی تھی، چیئرمین کشمیر کمیٹی نے 2 گھنٹے سے زائد کی تقریر اس تقریب میں کی، تاہم انہوں نے اپنی تقریر میں مسئلہ جموں کشمیر کا تذکرہ بہت کم کیا اور اپنے دورہ امریکہ کی تفصیلات بتانے کے علاوہ حزب اختلاف کو تنقید کا نشانہ بنانے پر ہی زیادہ وقت صرف کیا۔ انکی تقریر کے اختتام پر میں نے ان سے سادہ سا سوال کیا کہ بحیثیت چیئرمین کشمیر کمیٹی آپ کا کام کشمیر کا مقدمہ دنیا تک پہنچانا ہے، فرانس میں کسی تھینک ٹینک سے یا کسی سیاستدان سے اگر ملاقات ہوئی ہو تو اس کی تفصیلات بتائیں۔ انکا کہنا تھا کہ میں یہاں علاج کیلئے آیا ہوں، مجھے مائیگرین کا مسئلہ ہے۔ ممبران پارلیمنٹ یا دیگر حکام سے ملاقات کیلئے ایک لمبا پراسیس ہوتا ہے، اس مرتبہ وہ تمام کام نہیں ہو سکا ہے۔ تاہم میں اگلی مرتبہ جب آؤں گا تو یہ سب کام بھی کئے جائیں گے۔ اس سوال کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، جس کے بعد مجھے ویڈیو ہٹانے کا بھی کہا گیا اور دھمکانے کی کوشش بھی ہوئی، لیکن میں نے ویڈیو نہیں ہٹائی۔
اس تقریب کو منعقد کرنے والے افراد تحریک انصاف سے تعلق رکھتے تھے یا مختلف جماعتوں سے تھے؟
یونس خان: تقریب کے آرگنائزر مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے، دراصل یہ وہ لوگ تھے جو کشمیر سے متعلق احتجاج آرگنائز کرتے رہتے ہیں، ان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سمیت دیگر جماعتوں کے لوگ بھی شامل تھے۔ تقریب میں پاکستانی کمیونٹی کے لوگ بھی موجود تھے۔ مجموعی طور پر یہ جماعتی وابستگیوں سے بالا تر کشمیر کے مسئلہ پر ایک تقریب منعقد کی گئی تھی، کسی پارٹی کی تقریب نہیں تھی۔
شہریار آفریدی کی آڈیو آپ تک کب پہنچی اور جن لوگوں سے وہ بات کر رہے تھے ان کی سیاسی وابستگی کس جماعت سے تھی؟
یونس خان: یہ آڈیو مذکورہ تقریب سے 2 یا 3 دن بعد ایک دعوت میں کی گئی گفتگو کی تھی۔ یہ دعوت پیپلز پارٹی فرانس کے صدر کی طرف سے دی گئی تھی۔ اس دعوت میں بھی کشمیر کمیونٹی کے منتظمین کے علاوہ پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں کے لوگ بھی شامل تھے۔ یہ دعوت ایک پاکستانی ہوٹل میں رکھی گئی تھی۔ شہریار آفریدی نے لوگوں کو تشدد پر اکسانے والی زبان استعمال کی اور مجھے رگڑا دینے پر زور دیتے رہے۔ ان کے الفاظ کافی سخت تھے اور یہاں کے قوانین کے بھی خلاف تھے۔ یورپ میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں۔ مذکورہ ریکارڈنگ مجھے سرکاری اہلکاروں کی طرف سے ہی فراہم کی گئی۔ اس حوالے سے یہاں قوانین موجود ہیں، سرکاری حکام پہلے آڈیویا ویڈیو کا ترجمہ کرواتے ہیں اور اس کے بعد ایک مجسٹریٹ کی اجازت سے متعلق شخص کو اس بابت اطلاع دی جاتی ہے۔ اس آڈیو میں چونکہ یہ بات ظاہر ہو رہی تھی کہ میری جان کو خطرہ لاحق ہے، اس لئے مجھے آگاہ کیا گیا۔ جس کے بعد پیر کے روز مجھے مقامی وزات داخلہ طلب کیا گیا تھا، جہاں میں نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا ہے۔
مذکورہ آڈیو میں دیگر لوگ بھی شہریار آفریدی کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور تقریب کے منتظمین پر آپ کے خلاف ایکشن لینے کا زور دے رہے تھے، کیا ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائیگی؟
یونس خان: سیاسی لیڈروں کی ہاں میں ہاں ملانا یہاں لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے بعد میں مجھ سے معذرت کر لی تھی۔ پولیس نے بھی جب مجھ سے پوچھا تو میں نے انہیں یہی کہا کہ ان سے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیڈرشپ کی ہاں میں ہاں ملانے کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے مجھے کوئی جان کا خطرہ ہے۔ تاہم شہریار آفریدی میرے لئے مسائل پیدا کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ سیاستدان کم گینگسٹر زیادہ ہیں۔ میں نے پولیس کو بھی اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے کہ مجھے شہریار آفریدی سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کروائی ہے اور ایک فارم دیا ہے کہ وہ پر کر کے دیں اگر وہ مطمئن ہو گئے تو یورپ میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر فرانس کی پولیس اور وزارت داخلہ اس معاملہ میں مطمئن ہو گئی تو شہریار آفریدی کے داخلہ پر پابندی عائد ہو سکتی ہے؟
یونس خان: جی اس بات کا پورا امکان ہے کہ صرف فرانس میں ہی نہیں پوری یورپی یونین میں ان کے داخلے پر پابندی عائد ہو سکتی ہے۔ انہوں نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ یونین کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ میں فرانسیسی حکام کو بھی آگاہ کر چکا ہوں کہ بطور سیاح انہوں نے قوانین کی پاسداری نہیں کی ہے۔ اس بنیاد پر ان کے خلاف اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
پاکستانی سفارتخانہ نے آپ سے کوئی رابطہ کیا ہے، یا حکومت کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے آیا ہے؟
یونس خان: جب میں نے شہریار آفریدی سے کئے گئے سوال اور ان کے جواب پر مبنی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی تو وہ بہت جلد وائرل ہو گئی تھی۔ اس وقت پاکستانی سفارتخانہ کی جانب سے رابطہ کیا گیا تھا اور درخواست کی گئی تھی کہ یہ ویڈیو قومی مفاد کے خلاف ہے، اس لئے اسے سوشل میڈیا سے ہٹا دیا جائے۔ تاہم میں نے ان کی درخواست مسترد کی تھی، کیونکہ اس سوال میں قومی مفاد کے خلاف کوئی بات نہیں تھی۔ اس کے بعد کسی نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ حکومت کی طرف سے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، صحافی دوستوں کی طرف سے شہریار آفریدی کی گفتگو کی مذمت بھی کی گئی ہے اور کچھ تنظیموں کی طرف سے مذمتی قراردادیں بھی پاس کی گئی ہیں۔
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین یا کسی بھی نمائندے کا یورپی اراکین پارلیمان یا دیگر ذمہ داران سے ملاقات کرنا کتنا مشکل کام ہے، جو شہریار آفریدی ایسی کوئی ملاقات بھی نہیں کر سکے؟
یونس خان: یہاں کسی بھی سینیٹر یا رکن پارلیمان سے ملنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم معمول میں ہفتہ وار ان سے ملاقات کرتے رہتے ہیں۔ جو لوگ پاکستان سے سرکاری خرچے پر یہاں آتے ہیں ان کی اس طرح کے وفود و رہنماؤں سے ملاقات کی خواہش ہی نہیں ہوتی۔ یہ زیادہ تر سیر سپاٹے، شاپنگ وغیرہ کیلئے آتے ہیں۔ پاکستانی و کشمیر کمیونٹی سے ملاقاتیں کرتے، جلسوں اور تقریبات سے خطاب کرنے کا شوق پورا کر کے واپس جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی کشمیر کمیٹی نے کوئی بھی سفارتی نوعیت کا کام نہیں کیا۔ یہ صرف سیاسی رشوت اور فنڈز کے استعمال کیلئے عہدہ رکھا گیا ہے۔ اس وقت مسئلہ کشمیر بھی ایک تنازعہ یا مسئلہ کی بجائے ایک کاروبار بن چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک انتہائی حساس اور نازک مسئلہ ہے لیکن یہاں اس پر کاروبار ہو رہا ہے۔ اس تنازعہ کی حساسیت کو سمجھنا چاہیے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے۔
سالانہ کروڑوں روپے ان دوروں پر خرچ ہوتے ہیں، پاکستانی و کشمیری سیاستدان وہاں جاتے ہیں، ان دوروں سے کوئی فائدہ ہوتا نظر آرہا ہے؟
یونس خان: ان دوروں کا فائدہ ہو رہا ہوتا تو دنیا اس وقت ہماری آواز سنتی، ہماری بات مانتی، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ جموں کشمیر میں بے پناہ مظالم ہو رہے ہیں لیکن ہماری بات کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں، کیونکہ سفارتکاری ہی نہیں کی گئی۔ ہم یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں جاتے رہتے ہیں، وہاں بھارتی نمائندگان بھرپور تیاری کے ساتھ آئے ہوتے ہیں، تاہم جو لوگ پاکستان سے آتے ہیں ان کے پاس بنیادی نوعیت کی معلومات بھی نہیں ہوتی۔ جب تک سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی، پیشہ ور لوگوں کو یہ کام نہیں سونپے جاتے تب تک دنیا ہماری آواز کسی صورت نہیں سن سکتی ہے۔
آپ کو دھمکایا جا رہا ہے اور صحافیوں کے تحفظ کا بل بھی منظور کیا گیا ہے، حکومتی دعوؤں کو کیسے دیکھتے ہیں اور کیا مطالبہ کرنا چاہیں گے؟
یونس خان: صحافیوں کے حوالے سے قوانین پہلے بھی موجود تھے، موجودہ حکومت نے بھی قوانین بنائے ہیں، لیکن اصل مسئلہ ان قوانین پر عملدرآمد کا ہے۔ آج صحافیوں کو جن حالات کا سامنا ہے، ماضی میں آمریتوں میں بھی ایسے مسائل نہیں رہے ہیں۔ صحافی آج بہت زیادہ مسائل کا شکار ہیں، پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ میں نے ایک عام سا سوال کیا تھا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر تنقیدی سوال کیا جائے توکس نوعیت کا رد عمل آسکتا ہے۔ اس حکومت سے امید ہی نہیں ہے کہ یہ کوئی عملی اقدام کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت سے مطالبہ بھی کوئی نہیں ہے۔ تاہم ایک بات کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ بدنام ہو رہے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے یورپی یونین کی طرف سے سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے یہ ان الزامات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ جب تک اہل لوگ سامنے نہیں آئیں گے تو یہ مسائل چلتے رہیں گے۔ اس حکومت سے سوال یا مطالبہ کرنا بالکل بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔