نقطہ نظر

گلگت بلتستان کے وسائل پر اجتماعی ملکیت تسلیم کی جائے، سوشلزم واحد حل ہے: بابا جان

حارث قدیر

بابا جان کہتے ہیں: گلگت بلتستان کے معدنی وسائل پر مقامی دیہاتوں کی اجتماعی ملکیت کو تسلیم کیا جانا چاہیے، معدنی وسائل سے حاصل آمدن دیہاتوں کی فلاح پر صرف ہونی چاہیے، صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ پر امن سیاسی کارکنوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مقدمات اور شیڈول فور کا اطلاق ترک کیا جانا چاہیے۔ پر امن سیاست کا راستہ روک کر انتہا پسندی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ تمام مسائل کا حل سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

بابا جان گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ کے ایک گاؤں ناصر آباد کے رہائشی ہیں، وہ بائیں بازو کی تنظیم عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے سربراہ ہیں۔ گلگت بلتستان اور بالخصوص ہنزہ کے عوامی مسائل کے حل کیلئے انکی ایک طویل جدوجہد ہے، کئی سال انہوں نے جیلوں میں گزارے، انہیں گزشتہ سال کے اواخر میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں سزائیں معطل کرنے کے بعد 13 ساتھیوں سمیت رہا کیا گیا تھا۔

گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے بابا جان کا ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

آپ نے ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی اور سیاست کی طرف کیسے راغب ہو گئے؟

بابا جان: میں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں ناصر آباد (جس کا پرانا نام ’ہینی گاؤں‘ تھا) سے ہی حاصل کی، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ گلگت سے کیا۔ بہنوں کی تعلیم اور گھر کی ذمہ داریاں ہونے کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ آگے جاری نہیں رکھ سکا۔ ہمارے گاؤں کی جدوجہد کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس گاؤں کے لوگوں نے حملہ آوروں کے خلاف طویل لڑائیاں لڑی ہیں، ہمارے خاندان کے لوگوں نے ان لڑائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں تھی، ہم چھوٹے ہوتے تھے تو اس وقت بجلی کیلئے تحریک چلی تھی۔ اس تحریک کا نعرہ ’آس پاس بجلی کیوں، بیچ میں چمنی کیوں‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ اس کے بعد پھر دیگر بنیادی حقوق کی بازیابی کیلئے جدوجہد کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور ہم آہستہ آہستہ سیاست میں آ گئے اور عوامی حقوق کی بازیابی کیلئے جدوجہد کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔

بائیں بازو کی نظریات سے شناسائی کب ہوئی اور اس سیاست میں کیسے آگئے؟

بابا جان: جیسا میں نے پہلے بتایا کہ اپنے گاؤں میں عوامی حقوق کی بازیابی کیلئے جدوجہد میں شروع سے ہی ہم لوگ شریک تھے۔ گاؤں میں معدنیات کی لوٹ مار کے خلاف مزاحمتی تحریک جاری ہے، پانی کی شدید قلت ہے، صحت اور تعلیم کیلئے سہولیات کا فقدان ہے۔ عوامی مسائل کے حل کیلئے جدوجہد میں پیش پیش رہنے کی وجہ سے ہمیں احسان علی ایڈووکیٹ نے بائیں بازو کے نظریات سے متعارف کروایا۔ 2002ء میں لیبر پارٹی کی کانگریس کے پی کے میں ہو رہی تھی، ہم نے احسان علی ایڈووکیٹ کے ہمراہ اس میں شرکت کی اور اس کے بعد بائیں بازو کے نظریات کی طرف ہمارا جھکاؤ بڑھتا گیا۔ پراگریسو یوتھ فرنٹ (پی وائی ایف) کے نام سے ہم نے نوجوانوں کی تنظیم بنا کر گلگت بلتستان میں کام کا آغاز کر دیا۔ بعد ازاں لیبر پارٹی کا دیگر بائیں بازو کی تنظیم کیساتھ ادغام ہوا اور ایک نئی پارٹی عوامی ورکرز پارٹی کی بنیادیں رکھی گئیں، میں اس وقت جیل میں تھا۔

تاہم عوامی ورکرز پارٹی کی پہلی کانگریس کے وقت میں ضمانت پر رہا تھا اور میں اس کانگریس میں شریک ہوا تھا۔ اس کے بعد عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کی بنیادیں رکھ کر کام شروع کیا گیا تھا جو آج تک جاری ہے۔

سیاسی جدوجہد کے دوران مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا کتنی بار کرنا پڑا اور اہم کامیابیاں کسے تصور کرتے ہیں؟

بابا جان: سیاسی جدوجہد کے دوران مقدمات کا سامنا تو سیاسی جدوجہد کے آغاز سے ہی کرنا پڑا ہے، مشرف دور میں ڈرائی پورٹ پر اس وقت کے چیف ایگزیکٹومیر غضنفر خان اور ان کے لوگوں نے قبضہ کر لیا تھا جس کے خلاف مقامی لوگوں نے تحریک کا آغاز کیا، ہم بھی اس تحریک میں شریک تھے، دو سال تک چلنے والی تحریک کے دوران ہمارے خلاف مقدمات قائم کئے گئے لیکن وہ تحریک کامیاب ہوئی تھی، لوگوں نے ڈرائی پورٹ قبضہ سے آزاد کروا لی تھی۔ 2005ء میں جب گلگت میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے تووہ گلگت کی سیاست میں ایک بہت اہم موڑ تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کو تیار نہیں تھے، مختلف مسالک کے محلے دوسرے مسالک کے لوگوں کیلئے ’نو گو ایریاز‘ بن چکے تھے۔ ایسے حالات میں ہم نے امن کانفرنسوں کا آغاز کیا۔ ابتدا میں بہت کم لوگ کانفرنسوں میں شریک ہوئے۔ گلگت میں ہم نے کرنل نادر حسن کے ساتھ مل کر ایک کانفرنس رکھی، جس میں لوگوں کی اچھی تعداد ہمارے ساتھ جڑی۔ اس کے بعد امن کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، حکومتی سرپرستی میں بھی مختلف امن کانفرنسیں ہوئیں اور آہستہ آہستہ دوریوں اور فسادات کا سلسلہ ختم ہوا۔ گو کہ مکمل امن کروانے میں ہم کامیاب نہیں ہوئے لیکن جس کام کی بنیاد ہم نے رکھی تھی وہی راستہ آگے چل کر امن کا ضامن ہوا۔

عطا آباد جھیل بننے کا ایشو کیا تھا اور کس طرح کے مسائل تھے جن پر آپ نے آواز اٹھائی؟

بابا جان: پہاڑی تودے دریا میں گرنے کی وجہ سے عطا آباد جھیل بننے کا یہ واقعہ 4 جنوری 2010ء کو پیش آیا تھا۔ اس حادثے کے دوران 20 افراد ہلاک ہوئے تھے، کم از کم 6 ہزار افراد بے گھر اور 25 ہزارکے لگ بھگ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ لوگوں کے مکانات، آبائی زمینیں اورقبرستان تک پانی میں ڈوب گئے تھے۔ ہم نے اس حادثہ سے قبل بھی متعددبارنشاندہی کی اور احتجاج بھی کیا کہ لوگوں کو متبادل جگہوں پر آباد کیاجائے، کیونکہ اس جگہ پر پہاڑ سرکنے کا خطرہ موجود تھا، سامنے دراڑیں نظر آر ہی تھیں۔ مختلف جیالوجیکل سروے کرنے والی ٹیموں نے بھی سفارشات کی تھیں کہ لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیاجائے، لیکن اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ جب سانحہ ہوا تو لوگوں کو نکالنے اور پانی نکالنے کے اعلانات ہوئے لیکن عملدرآمد نہیں ہو سکا، لوگوں کو متبادل جگہ اور معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔ ایک بلڈوزر اور بلاسٹنگ کا سامان لایا گیا، میڈیا پربلاسٹنگ کے آغاز کی خبریں چلیں، لیکن وہ بلڈوزر اور عملہ اسی ٹرک پرمیڈیا کے جاتے ہی واپس چلا گیا۔ہماری آواز کوئی نہیں سن رہا تھا، لوگ بے یار و مددگار تھے، ایسے حالات میں پھر ہمارے سامنے پہلے یہ چیلنج تھا کہ ملکی میڈیا تک یہ بات پہنچائی جائے کہ اس دور دراز علاقے میں لوگوں کے ساتھ جو سانحہ پیش آیا ہے اس کے بعد ان کو کس طرح کی مشکلات ہیں، انکی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچانا سب سے پہلا مسئلہ تھا۔ ہم نے پھر پاکستان کے مختلف شہروں میں کانفرنسوں کا انعقاد کیا، انسانی حقوق کے کارکنوں، بائیں بازو کے کارکنوں اور بالخصوص عاصمہ جہانگیر اور فاروق طارق نے ہمارا بہت ساتھ دیا۔ ہم میڈیا کو وہاں پہنچانے میں کامیاب ہوئے، قومی سطح پر اس سانحے پر بات ہونا شروع ہوئی۔

مقدمات اور گرفتاریوں تک نوبت کیوں پہنچی؟

بابا جان: متعدد مطالبات اور اتنی بڑی جدوجہد کے باوجود میڈیا تو پہنچ گیا تھا لیکن ہمارے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا۔ لوگوں نے عطا آباد سے آگے کے لوگوں کیلئے جھیل کھولنے کا کام خود ہی شروع کیا، لیکن حکومت نے دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا۔ ہم لوگوں کے ساتھ احتجاج میں کھڑے ہو گئے، احتجاج کرنے پر بغاوت کے مقدمات قائم کر دیئے گئے، پھر مذاکرات میں وعدے ہوئے اور ڈوبی ہوئی زمینوں، درختوں اور مکانات کا معاوضہ دینے کا اعلان ہوا۔ 6 لاکھ روپے فی کنبہ معاوضہ جات دیئے جا رہے تھے لیکن وہ بھی پسند و ناپسند کی بنیاد پر دیئے گئے، کئی افراد ایسے تھے جنہیں معاوضہ نہیں دیا گیا۔ معاوضہ کی عدم ادائیگی پر 35 گھرانوں کے لوگ احتجاج کر رہے تھے، ہمیں اس واقعہ کی اطلاع بھی نہیں تھی۔ احتجاج کی جگہ پر بھی ہم لوگ نہیں تھے بلکہ جہاں احتجاج ہو رہا تھا ہم اس جگہ سے 40 کلومیٹر دور ایک جلسہ کے اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ اسی جلسہ میں ہمیں اطلاع ملی کہ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایک ہلاکت ہو گئی ہے، کئی لوگ زخمی ہیں اور جھلاؤ گھیراؤ بھی ہوا ہے۔ ہمیں جب اطلاع ملی تو ہم وہاں سے موقع پر پہنچے لیکن مقدمات ہمارے خلاف قائم ہوئے اور ہمیں ان بے بنیاد مقدمات میں کئی سال تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔

آپ کی رہائی کیسے عمل میں آئی اور مقدمات مکمل ختم کئے گئے ہیں یا عارضی طور پر معطل ہوئے ہیں؟

بابا جان: ملک بھرمیں اور عالمی سطح پر احتجاج ہو رہا تھا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سمیت ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان تک کی رپورٹوں میں ہمارے خلاف مقدمات کو بے بنیاد قرار دیا جا رہا تھا۔ سب سے بڑھ کر ہنزہ کے لوگوں کا احتجاج اور یکجہتی تھی، جس نے حکومت کو مجبور کیا۔ مرد و خواتین نے طویل دھرنا دیا اور مثالی یکجہتی کا مظاہرہ کیا، جس کے بعد حکومت نے یہ سزائی عارضی طور پر معطل کی ہیں اور بعد میں ان مقدمات کو مکمل ختم کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی تھی۔ ہمیں نہیں لگتا کہ یہ مقدمات مکمل طور پر ختم ہونگے، لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ ان مقدمات میں اب دوبارہ ہمیں ٹرائل شاید نہ کیا جائے۔

گلگت بلتستان کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں، صوبہ بنانے، داخلی خودمختاری یاجموں کشمیر کا حصہ قرار دینے سمیت مختلف مطالبات ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں؟

بابا جان: گلگت بلتستان، پاکستانی زیر انتظام اور بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر 3 اکائیاں ہیں جن کا سوال ایک بھی ہے اور مختلف بھی ہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک فیصلہ دیا تھا، جسے مقامی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر کے منسوخ کروا دیا تھا۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کے گلے شکوے پاکستان کی وفاقی حکومت سے بھی ہیں اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکمران اشرافیہ سے بھی ہیں۔ یہ درست ہے کہ بڑی آبادی گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ داخلی خود مختاری کی بات بھی ہو رہی ہے۔ پر امن سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے ہی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا پارٹی پروگرام بھی یہی ہے کہ مسئلہ جموں کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو داخلی خودمختاری دی جائے اور اس کے بعد ایک ریفرنڈم کے ذریعے عوامی مرضی و منشا سے اس خطے کے مستقبل کا فیصلہ ہونا چاہیے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے مختلف آئینی پیکیج دیئے گئے ہیں، ان سے کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟

بابا جان: آئینی پیکیج اصل میں پرانی چیزوں کو ہی نئے کپڑے پہنانے جیسا اقدام ہی ہے۔ اگر میں غلط ہوں تو مجھے بتایا جائے کہ کتنے نئے تعلیمی ادارے قائم ہوئے، ترقیاتی کام کتنے ہوئے، علاج کی سہولیات کیلئے کیا اقدامات ہوئے، کتنا نیا روزگار پیدا کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ اختیارات ملے ہیں، لیکن کئی علاقوں میں گائناکالوجسٹ موجود نہیں، پرائمری تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں، روزگار نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ علاج کیلئے لوگ کراچی اور اسلام آباد کے سیکڑوں میل کے سفر پر مجبور ہیں۔ اگر اختیارات ملے ہیں تو پھر لوگوں کی زندگیوں پر فرق کیوں نہیں پڑ رہا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اختیارات کہیں ملے بھی ہیں تو وہ حکومت کرنے کے اختیارات ملے ہونگے، عام لوگوں کو کچھ بھی نہیں ملا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان کی معدنیات اور دیگر قدرتی ذخائر کو بیرونی سرمایہ کاروں کو لیز پر دیا جا رہا ہے، اس میں کتنی صداقت ہے؟

بابا جان: بالکل ایسا ہی ہے، یہ آئینی پیکیج کی ہی کارستانی ہے۔ مقامی لوگوں کے وسائل کو بیرونی سرمایہ داروں کی لوٹ کیلئے راہ ہموار کی گئی ہے۔ ہماری اطلاعات ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سرمایہ داروں نے یہاں اپنے ’فرنٹ مینوں‘کے ذریعے سے زمینیں لیز پر لے رکھی ہیں اور معدنیات نکال رہے ہیں، آہستہ آہستہ یہ لوگ سیاحت پر قبضہ کرینگے اور جب معیشت پر قبضہ ہو جائیگا تو سیاست پر بھی قبضہ ہو جائے گا۔ یہاں ہمارے ایک علاقے میں ماربل کے ذخائر ہیں، مقامی لوگوں نے لیز پر جگہ لے رکھی ہے، سالانہ فیس بھی دیتے ہیں لیکن جعل سازی کے ذریعے وہ لیز ایک سرمایہ دار کو دے دی گئی ہے اور انہیں جو نقشہ فراہم کیا جا رہا ہے اس جگہ پر ماربل ہی موجود نہیں ہے۔ معدنیات کی لیز دینے کا سبجیکٹ بھی گلگت بلتستان کونسل کے پاس ہے، جس کے چیئرمین وزیراعظم پاکستان ہوتے ہیں اور وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان اس سب کام میں برابر کے شریک ہیں۔ وزیر امور کشمیر وائسرائے جیسا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سیاسی آوازوں کو بند کرنے کیلئے مختلف طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ شیڈول فور اور انسداد دہشت گردی کے دیگر قوانین کااستعمال سیاسی کارکنوں کے خلاف ہو رہا ہے، آج تک کتنے مبینہ دہشت گرد وں کے خلاف بھی یہ مقدمات قائم کئے گئے؟

باباجان: دہشت گردوں کی معلومات تو نہیں ہیں لیکن سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ طالبعلموں پر بھی شیڈول فور لگایا گیا ہے۔ میرے بوڑھے والد کو بھی 7ATA (انسداد دہشت گردی کا قانون) کے تحت جیل میں ڈالا گیا۔ اسی طرح توہین مذہب کے قانون کا استعمال بھی سیاسی کارکنوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ عرصہ میں احسان علی ایڈووکیٹ پر مقدمات بنائے گئے، متعدد دیگرکارکنوں کو شیڈول فور میں ڈالا گیا ہے یا پھر انسداد دہشت گردی کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ ایک ممبر اسمبلی بھی شیڈول فور میں ہیں، پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے غلام شہزاد آغاز انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور شیڈول فور میں ہونے کی وجہ سے انہیں تنخواہ بھی ادا نہیں کی جا رہی وہ قرض لیکر روز مرہ امور چلانے پر مجبور ہیں۔ یہاں ایوانوں میں بیٹھے نمائندگان کے ساتھ یہ ہو رہا ہے تو عوامی حقوق کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہو گا۔

کیا سمجھتے ہیں کہ سیاسی جدوجہد کو کن خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے اور یہ تمام مسائل کیسے حل ہونگے؟

بابا جان: ہم سمجھتے ہیں کہ سوشلسٹ انقلاب ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے سے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ سوشلزم کے نظریات کی بنیا دپر ہی وہ نظام قائم کیا جا سکتا ہے، جس میں حق اور انصاف لوگوں کو فراہم ہو سکے۔ مسئلہ جموں کشمیر سمیت دیگر تمام مسائل کا آج کے عہد میں ایک ہی حل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی کارکنوں کو انقلابی جدوجہد کو آگے بڑھانا چاہیے۔ سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ جموں کشمیر سمیت پاکستان بھر میں گرفتار سیاسی کارکنوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔ سیاست کا راستہ روکنے سے انتہا پسندانہ رجحانات کے ابھرنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں، ایسے طریقوں سے معاشرے آگے نہیں بڑھا کرتے۔ نوجوان پر امن اور ترقی پسند تحریک کا حصہ بنیں تاکہ ملک کے عوام کو راہ نجات مل سکے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔