پرویز امیر علی ہود بھائی
ہر گوبند کھرانہ (1922-2011ء) بارے روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون پڑھنے کے بعد مجھے پچا س سال پرانا یہ قصہ یاد آیا۔ ا یم آئی ٹی کے سب سے بڑے ہال 26-100 میں، میں بھی دیگر 600 طلبہ کے ہمراہ ان کا لیکچر سننے کے لئے گیا تھا۔ یہ لیکچر مولیکلر بائیولوجی کے کسی موضوع پر تھا۔ میں اس مضمون سے نا بلد تھا۔ کچھ خاص سمجھ میں نہیں آیا اس لئے لیکچر کے دوران ہی اٹھ کر چلا گیا۔ میں محض تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ لیکچر سننے گیا تھا کیونکہ پروفیسر کھرانہ نے 1968ء میں نوبل انعام جیتا تھا۔ انہوں نے سائنس کا ایک نیا شعبہ، پروٹین سنتھیسس بذریعہ نیوکلیوٹائڈز (Protein Synthesis Via Nucleotides)، متعارف کرایا تھا۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ ان کا تعلق لاہور سے تھا۔ انہوں نے بی اے بھی پنجاب یونیورسٹی سے کیا تھا اور ایم اے بھی۔
وائے افسوس! لاہور اپنے اس سپوت سے بے خبر ہی نہیں، لاہور کو ان کے بارے جاننے میں کوئی دلچسپی بھی نہیں۔ لاہور کو اپنے ایک اور سپوت، نوبل انعام یافتہ سائنس دان سبرامنین چند ر شیکھر (1910-1995ء)، بارے بھی کوئی علم نہیں۔ چندر شیکھر کو ستاروں کی موت بارے تحقیق کرنے پر نوبل انعام ملا۔ ان کے نام سے منسوب، ناسا کا ایک سیٹلائٹ ’چندرا‘آج بھی خلاوں میں نیوٹرون سٹارز، بلیک ہولز اور دیگر خلائی اجسام کی تلاش میں محو ہے۔
ڈاکٹر عبدالسلام (1926-96ء) کی کہانی سے تو سب ہی واقف ہیں سو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ 1979ء میں انہیں طبیعات کے شعبے میں نوبل انعام ملا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج سے تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں یہاں پڑھایا بھی۔ اس کے باوجود لاہور میں کسی سڑک یا یادگار کو سلام، کھرانہ یا چندر شیکھر کے نام سے منسوب نہیں کیا گیا۔ گو گورنمنٹ کالج سے ملحقہ عبدالسلام سکول آف میتھمیٹیکل اسٹڈیز ہے تو سہی، سکول کی عمارت پر البتہ سلام کا نام لکھنے سے پرہیز بہتر سمجھا گیا کہ لاہور آئے روز مذہبی جنونیوں کے نرغے میں ہوتا ہے۔
چاولہ اور چاولہ کی کہانی بارے بھی کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج میں نمبر تھیوری سے واقفیت رکھنے والے دو ریاضی دان تھے۔ ایک تھے سرودادن چاولہ،جو بہترین ریاضی دان تھے۔ 1937ء سے 1947ء تک وہ شعبہ ریاضی کے سربراہ رہے۔ جب تقسیم کے وقت فسادات بڑھے تو بطور ہندو وہ لاہور چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ پرنسٹن یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ بعد ازاں کولوراڈو یونیورسٹی (بولڈر) اور پھر بطور پروفیسر یونیورسٹی آف پنسلوینیا میں پڑھاتے رہے۔ ان کا انتقال 1995ء میں ہوا۔ امریکن میتھمیٹیکل سوسائٹی نے ان کو بطور نمبر تھیورسٹ ہمیشہ اعزاز بخشا اور کتنے ہی تھیورم ان کے نام سے منسوب ہیں۔
دوسرے تھے لال محمد چاولہ۔ انہوں نے 1995ء میں آکسفورڈ سے گریجویشن کی اور کئی سال تک گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے رہے۔ پروفیشنل سطح پر ان کی کامیابیاں درمیانے درجے کی ہی تھیں۔ صرف ایک مقالہ ایسا لکھا جسے کافی جگہ بطور حوالہ استعمال کیا گیا۔ ان کی تحریروں بارے گوگل سرچ کریں تو پتہ چلے گا کہ ان ریاضی کو فروغ دینے سے زیادہ مذہبی موضوعات پر کتابیں لکھنے کا شوق تھا۔ گورنمنٹ کالج کی میتھمیٹیکل سوسائٹی البتہ لال محمد چاولہ کے نام سے منسوب ہے نہ کہ سرودادن چاولہ کے۔ کسی ہندو سائنس دان کو پاکستان میں اعزاز نہیں بخشاگیا ہے۔
اعلیٰ صلاحیتوں کے پیشہ ور افراد کو یوں رد کرنے کی وجہ سے پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ ایک تو یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے وقت جو لوگ نئے قیام شدہ ملک میں سائنسی بنیادیں فراہم کر سکتے تھے، وہ ملک چھوڑ گئے۔ دوم، میرٹ کی بنیاد پر ادارے تشکیل نہ پا سکے۔ تقسیم کے بعد بہت سے چالاک لوگ مذہب یا لسانیت کا کارڈ کھیل کر اعلیٰ عہدوں پر پہنچ گئے۔ جب یہ لوگ اعلیٰ عہدوں پر پہنچے تو انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی قابل شخص ادارے کے اندر نہ آنے پائے۔ متعلقہ اداروں کواس کا شدید نقصان ہوا۔
پاکستان میں سائنسی تعلیم کی حالت کتنی پتلی ہے، اس بارے بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ہمارے نوجوان میڈیسن، قانون یا بزنس جیسے سافٹ شعبوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ چین اور بھارت کے برعکس، کم طلبہ ہی سائنسی کیرئیر کا انتخاب کرتے ہیں کیونکہ اس کے لئے شدید محنت درکار ہوتی ہے۔
ہم اپنے بچوں کو کس طرح اس راستے پر گامزن کر سکتے ہیں؟ انہیں سائنس اور سائنس دانوں بارے کونسی کہانیاں سنائی جائیں؟ سب سے اہم یہ بات کہ ان کے رول ماڈل کون ہوں؟
اس سوال کا جواب ثقافت پر بات کئے بغیر دینا ممکن نہیں۔ پچھلے تین سو سال کے دوران، کہ جدید سائنس کی عمر اتنی ہے، برصغیر سے تعلق رکھنے والے ایسے مسلمان سائنس دان ہے نہیں جنہیں درجہ اول کے سائنس دان قررا دیا جا سکے (جو نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کی صف میں آتے ہوں۔ 1974ء کے بعد ڈاکٹر سلام کو یہاں ایک استثنا سمجھا جائے)۔ سر سید احمد خان (1817-98ء) کی کوششوں کے باوجود مسلمانوں نے سائنس اور انگریزی زبان کی طرف توجہ نہیں دی چنانچہ دوسرے اور تیسرے درجے کے سائنس دانوں میں بھی برصغیر کے درجن بھرمسلمان ہی ملیں گے۔
برصغیر کے مسلمانوں میں چونکہ ایسے سائنس دان ہیں نہیں جن کی کہانیاں بچوں کو سنائی جا سکیں لہٰذا ان عرب سائنس دانوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن کو تعلق عربوں کے شاندار ماضی سے ہے۔ مثال کے طور پر البتانی، ابن شاطر اور ابن الہیثم وغیرہ۔ بلاشبہ یہ عظیم سائنس دان تھے لیکن یہ ہمارے بچوں کے لئے رول ماڈل نہیں ہو سکتے۔ اؤل، اس لئے کہ صدیوں پرانے افراد آج کے بچوں کو انسپائر نہیں کرتے۔ دوم، رول ماڈل ’آپ کے اپنے لوگ‘ہی ہو سکتے ہیں۔ عرب یقینا یہاں کے لوگوں سے مختلف ہیں۔
عہد قدیم کے ہندو سائنس دان ہماری کتابوں میں کسی حد تک جگہ پا سکتے تھے۔ انہیں لیکن اس لئے شامل نہیں کیا جاتا کہ ’وہ ہم میں سے نہیں‘۔ ا س کے برعکس بہت سے پاکستانی اپنے آباؤ اجداد کا ناطہ عرب، افغان اور وسطی ایشیائی خطوں سے جوڑتے ہیں۔ جدید لیبارٹریوں نے نسلی تفاخر کے صدیوں سے قائم مفروضوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جنیٹکس کی مدد سے پتہ چل رہا ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کی اکثریت کے آبا ؤ اجداد ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ بہت کم ہیں جن کا تعلق عرب یا وسط ایشیا سے ہے۔ ہندوں کو ہماری کتابوں سے خارج کرنا لایعنی ہے۔
نظریہ اور سائنس کو ملانا ایسا ہی ہے کہ تیل اور پانی کو ملا دیا جائے۔ یہ ملاپ ممکن نہیں۔ سائنس صرف منطق اور حقائق کو مانتی ہے، ذاتی پسند اور ناپسند کو خاطر میں نہیں لاتی۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ جب سائنس اور ذاتی عقائد کو جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ جب سٹالن نے اپنے ایک پالتو سائنس دان تروفیم لیسنکو کی مدد سے بائیولوجی پر اپنے مارکسی نظریات لاگو کرنے کی کوشش کی تو نتیجہ یہ نکلا کہ زراعت اور جنگلات تباہ ہو گئے۔
سوویت روس کی خوش قسمتی کہ وہاں سائنس دانوں کی ایک متحرک کمیونٹی تھی جس نے لیسنکو کی حماقتوں کا سائنسی جواب دیا۔ پاکستان اتنا خوش قسمت نہیں۔ یہاں اکثر دھوکے باز ہیں جو خود کو سائنس دان بنا کر پیش کرتے ہیں۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جنہیں حقیقت میں سائنس دان کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں سائنس کی ایک وزارت بھی موجود ہے۔ ایسے ہی کئی اور ادارے ہیں۔ سائنس اور تحقیق یا تعلیم کے نام پر بھی درجنوں ادارے قائم ہیں لیکن سائنس دانوں کی کوئی حقیقی کمیونٹی نہیں ہے۔ سب ایک مذاق سی زیادہ کچھ نہیں۔ عالمی سطح پر ان کی کوئی عزت نہیں۔ انہیں ختم کر دینا چاہئے۔
ہر دانشورانہ سرگرمی، بشمول سائنس، ایک ایسی ثقافت کا تقاضہ کرتی ہے جہاں ایسی سرگرمیوں کی ترغیب ملتی ہو، ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔ جب سائنس دانوں کو سائنس کی بجائے ان کے مذہب، نسل، لسانیت یا کسی اور بنیاد پر جانچا جائے تو سائنس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ اگر پاکستان کو سائنس میں کوئی ترقی کرنی ہے تو اسے اپنی عصبیت سے باہر آنا ہو گا۔ پاکستان کو سیکھنا ہو گا کہ انسانیت کی بھلائی کرنے والا ہر انسان تمام انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔ جس دن ہم کھرانہ، سلام اور چندرشیکھر کو اپنوں میں سمجھنا شروع کر ینگے، ہم سائنسی پس ماندگی کے چنگل سے نکلنا شروع کر دیں گے۔