کنور خلدون شاہد
ہم پھر سے سال کے اس موڑ پر آ پہنچے ہیں جہاں جانے انجانے میں مسلمانوں سے نعوذباللہ گناہ کبیرہ سرزد ہو ہی جاتا ہے۔ یہاں ’سال‘سے مراد وہ جال ہے جو اہل کفر نے بڑی گہری سازش کے تحت بچھایا ہے تا کہ ایک ہی ہفتے میں دو دفعہ مسلمانوں سے تدبیرانہ شرک کرایا جائے اور انھیں پتہ بھی نہ چلے۔
وضاحت کرتا چلوں کہ ان بہروپیوں کو ’سال‘ اور ’ہفتہ‘ کہنا بھی شرک ہے لیکن چونکہ یہاں فتویٰ سنایا جا رہا ہے تو پرخلوص ایمان سے لبریز نیت ہونے کے باعث یہ تحریر اور یہ مفتی اس گناہ کے زمرے سے باہر ہیں۔
وہ تمام مجاہدین خراج تحسین کے مستحق ہیں جنھوں نے اس سال ’میری کرسمس‘ کے خلاف جہاد جاری رکھا، لیکن ان میں سے بیشتر سے یہ شکایت ہے کہ ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی انھوں نے ایک محاذ کے سامنے احاطہ کر لیا اور وہاں غالباً مال غنیمت لوٹنے کے چکر میں دوسری جانب سے اپنے دینی جذبات کو محروح ہونے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ جی ہاں جن تمام وجوہات کے باعث ’میری کرسمس‘ کہنا حرام ہے اسی ارتباط سے ’ہیپی نیو ایئر‘ کہنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔
یہ جو 2022ء میں لاحقہ ع ہے یا انگریزی میں BC یا AD ہے اس کا کیا مفہوم ہے؟ یہ گریگورین کیلنڈر کس کی پیدائش سے منسلک ہے اور یہ کس عقیدے کی تشریح نافذ کرتا ہے؟ او میرے بھولے مسلمانو! کرسمس کی مانند یہ نیوایئر بھی اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہے اور جب آپ کسی کو ’ہیبی نیو ایئر‘ بولتے ہیں تو وہ بلا شبہ شرک ہوتا ہے۔ لہٰذا ہفتہ کے روز آتِش بازی کرنے سے پہلے جہنم کی آگ میں خود کے پٹاخے چھوٹنے کا تصور ضرور کر لیجئے گا۔
یہ غفلت اور دین سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم مسلمان شرک کو نعوذ باللہ مرکزی دھارے میں لے آئے ہیں۔ اہل کفر کے مسلط کردہ شاطر اوزاروں کے خلاف مزاحمت کرنے کے بجائے ہم نے تو ہتھیار ہی ڈال دیے۔ توہین آمیز شمسی کیلنڈر کو اپنانے کے چکر میں ہم نے اپنے مقدس قمری کیلنڈر کو کنارہ کش کر دیا۔
یاد رہے کفار نے سوچی سمجھی سازش کے تحت اپنے کیلنڈر کو اسلامی کیلنڈر سے 11 دن طویل رکھا ہے، یوں وہ اکیسویں صدی میں پہنچ گئے ہیں اور ہم پندرہویں صدی میں ہی بیٹھے ہیں۔ ہمیں کیلنڈر کی تاریخ دیکھنے سے فرصت ملے تو ہم انسانی تاریخ دیکھیں۔
جہاں ’ہیپی نیو ایئر‘ بول کے آپ سے شرک سرزد ہوتا ہے وہیں لامحدود اور گناہ بھی آپ کے کھاتے میں آتے ہیں جن سے یقیناً آپ نا آشنا ہوں گے۔ جب آپ ’ایئر‘ کو مانتے ہیں تو آپ زمین کے سورج کے گرد مدار کو تسلیم کر بیٹھتے ہیں اور’ہیپی نیو ایئر‘ کہہ کر اس مدار کے طے ہونے کی تکمیل کی شہادت دیتے ہیں جو شماریاتی طور پر 365 دن 5 گھنٹے، 40 منٹ، 47 اور 46240 سیکنڈ ہے۔
شمسی تقویم کو مان کر آپ جس ’دن‘ پر ناساختہ ایمان لے آتے ہیں اس کا مفہوم زمین کا اپنے محور کے گرد ایک چکر مکمل کرنا ہے۔ جب آپ بغیر سوجھ بوجھ کے یہ سب تسلیم کر لیں گے تو آپ یہ کیسے مانیں گے کہ زمین بچھائی گئی، سورج کی آرام گاہ ہے اور چاند کے ٹکڑے ہو چکے ہیں؟ زمین کو کرہ ماننے والا ایک الگ خط مماس پر نکل جاتا ہے اور کبھی کعبہ رخ نہیں ہوتا۔
جہاں ’ہیپی نیو ایئر‘ کا ’ایئر‘ آپ کو سائنس کے شکنجے میں پھنساتا ہے وہیں ’نیو‘ آپ کو جدیدیت کی دلدل میں دھکیلتا ہے۔ جب آپ ’ہیپی نیو ایئر‘ بولتے ہیں تو آپ کفار کا مسلط کیا نعرہ بلند کرتے ہیں جو انسانیت کو محدود انسانی سوچ کے بل بوتے پر آگے سے آگے کھینچنا چاہ رہے ہیں جب کہ لامحدود حکمت تو صدیوں پرانے نازل شدہ صحیفوں میں ہے۔ ہمارے ایمان میں جڑتا کی شدت اس قدر ہونی چاہیے کہ کوئی بھی ہمیں اپنی جگہ سے نہ ہلا سکے۔ جڑتا کے معاملے میں سترہویں صدی کے نامور مفتی جن کا یوم پیدائش کچھ روز قبل ہی گزرا ہے ان کا فرمان ہے: ”کسی بھی بیرونی قوت کی عدم موجودگی میں جو حالت سکون میں ہو گا وہ ساکن رہے گا اور جو حالت حرکت میں ہو گا وہ خط مستقیم میں اپنی حرکت کو جاری رکھے گا“…اور انہوں نے یہ مشہور فتویٰ بھی جاری کیا تھا: ”ہر عمل کا برابر مگر مخالف ردعمل ہوتا ہے۔“
ان ارشادات کے مد نظر ’ردعمل‘ کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لئے ’ہیپی نیو ایئر‘ کے پہلے اور سب سے مفسد لفظ کو نشانہ بنانا ہو گا۔ یہ ’ہیپی‘ آپ کو جہاں بھی دکھے وہاں اپنے تئیں اسے ختم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ جو اس دنیا میں خوشی کی تلاش میں لگ جاتے ہیں ان کے لئے آخرت بے معنی ہو جاتی ہے۔ تو جہاں بھی آپ کو کوئی خوش ہوتا ہوا نظر آئے اس کی فوراً اصلاح کریں اور جو بظاہر خوشیاں بانٹنے پر آمادہ ہو اسے علم غیب سے خوفزدہ کریں۔ یوں آپ کو، انھیں اور ہم سب کو سکون صرف قبر میں ہی ملے گا۔