لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغان طالبان کے وفد کے یورپ کے دورے میں مغربی سفارتکاروں سے ملاقات کے بعد مغرب نے افغانستان کیلئے انسانی امداد کی بحالی انسانی حقوق کی بہتری سے مشروط کر دی ہے۔
’اے ایف پی‘ کے مطابق اگست میں افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان طالبان نے یورپ کے پہلے سرکاری دورے میں کئی مغربی سفارتکاروں سے بات چیت کی اور بین الاقوامی شناخت اور مالی امداد کی بحالی کی خواہش کا اظہار کیا۔
طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد افغانستان میں انسانی صورتحال تیزی سے ابتر ہوئی ہے، عالمی امداد بند ہونے اور کئی برسوں کی شدید خشک سالی کی وجہ سے پہلے سے بھوک کا شکار لاکھوں لوگوں کی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔
یورپی یونین کے خصوصی سفیر ٹامس نکلسن نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم نے مارچ میں تعلیمی سال شروع ہونے پر افغانستان کے پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کا تعلیمی سلسلہ دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔‘
انہوں نے یہ ٹویٹ افغان وزارت خارجہ کے ترجمان کے ایک ٹویٹ کے جواب میں کیا، جس میں انہوں نے یورپی یونین کی جانب سے افغانستان کی امداد جاری رکھنے کے عزم کا خیر مقدم کیا تھا۔
ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہرا سٹور نے کہا کہ ’بظاہر بات چیت سنجیدہ اور حقیقی تھی۔ ہم نے یہ واضح کیا کہ افغانستان میں ہم مارچ میں 12 سال سے زائد عمر کی لڑکیوں سمیت تمام لڑکوں کو دوبارہ سکول میں دیکھنا چاہتے ہیں، ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی رسائی بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
ناروے کی جانب سے یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ یہ مذاکرات طالبان کی قانونی حیثیت یا انہیں تسلیم کرنے کی علامت نہیں ہیں۔ تاہم ناروے کی جانب سے طالبان کو مدعو کرنے کے فیصلے اور بھاری خرچے پر انہیں ایک چارٹرڈ جیٹ میں سفر کروانے کو کچھ ماہرین اور تارکین وطن افغان سماجی کارکنوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ناروے کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اوسلو میں ہونے والی ملاقات سے بہت سے لوگ پریشان ہیں لیکن یہ انسانوں کو تباہ حالی سے بچانے کیلئے پہلا قدم ہے۔
واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے جدت پسند ہونے کا دعویٰ کئے جانے کے باوجود خواتین کی بڑی تعداد سرکاری ملازمتوں سے محروم ہو گئی ہے اور لڑکیوں کے بیشتر سیکنڈری سکول تاحال بند ہیں۔