خبریں/تبصرے

طالبان قیادت کی اپنی بیٹیاں بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں

لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک (اے این این) کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں نے اپنے بچوں کو بیرون ملک کے سرکاری سکولوں اور جامعات میں داخل کروایا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے اندر لاکھوں لڑکیوں کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سکول کی تعلیم سے محروم کر دیا گیا ہے۔

’سنڈے مارننگ ہیرالڈ‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دوحہ میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ انہوں نے قطر میں اپنے بچوں کو سکول میں پڑھانا شروع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”چونکہ محلے کے سبھی لوگ سکول جا رہے تھے، اس لئے ہمارے بچوں نے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بھی سکول جائیں گے۔“

رپورٹ کے مطابق طالبان کے ایک موجودہ وزیر اور گروپ کی لیڈرشپ کونسل کے سابق رکن کی بیٹی اس وقت قطری یونیورسٹی میں طب کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

طالبان کے قطر دفتر کے دو اراکین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دوحہ میں چھوڑ کر کابل واپس آئے تھے تاکہ ان کے بچوں کی تعلیم میں خلل نہ آئے۔

طالبان کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’طالبان کے اراکین اور ان کے خاندان جو قطر میں رہتے ہیں، جدید تعلیم کے سخت مطالبات رکھتے ہیں اور کوئی بھی کسی بھی عمر کے لڑکوں یا لڑکیوں کیلئے اس کی مخالفت نہیں کرتا۔“

رپورٹ کے مطابق کچھ طالبان اہلکار اپنے بچوں کو پڑوسی ملک پاکستان کے ان سکولوں میں بھیجنے کا انتخاب کر رہے ہیں جن میں مغربی تعلیم اور مذہبی تعلیم ایک ساتھ دی جاتی ہے۔ اس سکول سسٹم کو ’اقرا‘ کہا جاتا ہے۔ بہت سے طالبان رہنماؤں نے گزشتہ دو دہائیوں تک جلاوطنی کی زندگی بھی پاکستان میں ہی گزاری ہے۔

طالبان کے دیگر عہدیداروں نے اپنے بچوں کو قطر میں پاکستان کے زیر انتظام چلنے والے نجی سکولوں میں داخل کروایا ہے، جو پاکستانی نصاب کی پیروی کرتے ہیں لیکن انگریزی زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔

گزشتہ سال اگست میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ مکمل ہونے کے بعد افغانستان غربت کی لپیٹ میں ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ 97 فیصد افغان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

طالبان نے افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 2 تہائی سے زیادہ میں 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

تاہم کچھ طالبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل پر سکولوں کی بندش سے پڑنے والے اثرات سے پریشان ہیں۔

پاکستان میں طالبان کے ایک اہلکار نے اے این این کو بتایا کہ ”اقرا سسٹم ان طالبان کیلئے بہت اچھا ہے جو اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم دینا چاہتے ہیں۔“

انکا کہنا تھا کہ ”یہ ایک اسلامی تعلیمی نظام ہے جس میں سکول کے جدید مضامین اور مدرسے کے مضامین دونوں پڑھائے جاتے ہیں۔“

انکا کہنا تھا کہ ”ہمارے اکثر دوست اس قسم کے مخلوط نظام کی تلاش میں تھے اور یہ نظام کراچی اور کوئٹہ جیسے شہروں میں قائم ہونے کے بعد وہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو ان سکولوں میں بھیج رہے تھے۔“

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے دیگر عہدیداروں نے خفیہ طور پر اپنی بیٹیوں کو پرائیویٹ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخل کروایا ہے، جہاں وہ انگریزی اور کمپیوٹر کی خواندگی سمیت غیر ملکی سمجھے جانے والے مضامین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts