مظفر آباد (جدوجہد رپورٹ) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں طلبہ کے احتجاج کو پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کے ذریعے منتشر کر دیا ہے۔ پولیس کے لاٹھی چارج کی وجہ سے متعدد طلبہ زخمی ہوئے ہیں، جبکہ ایک درجن سے زائد طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
گرفتار ہونے والے طلبہ کے خلاف منگل کی شام گئے تک مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ رات گئے گرفتار طلبہ کو رہا کر دیا جائے گا۔
منگل کے روز طلبہ اور پولیس کے درمیان یہ تصادم اس وقت شروع ہوا جب طلبہ نے آن لائن امتحانات کے انعقاد کے مطالبہ پر احتجاجاً یونیورسٹی گیٹ کے سامنے سے مرکزی شاہراہ پر ٹریفک معطل کر دی تھی۔ طلبہ کا مطالبہ تھا کہ کورونا وائرس کی نئی لہر کے پیش نظر آن لائن امتحانات لئے جائیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کا یہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے آن کیمپس امتحانات لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ کورونا کی نئی لہر کے باعث 10 ایام تک تعلیمی اداروں میں تعطیل کے بعد منگل کے روز ہی جامعہ کشمیر میں دوبارہ کلاسوں کا اجرا ہو رہا تھا۔
ایک روز قبل طلبہ کے نمائندگان اور یونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان اس ایشو پر مذاکرات بھی ہوئے تھے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق مذاکرات میں یہ طے ہو گیا تھا کہ کچھ دن تک کلاسیں لینے کے بعد آن کیمپس امتحانات ہی لئے جائیں گے۔ تاہم طلبہ کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات طے نہیں ہوئی اور طلبہ صرف آن لائن امتحان ہی دینگے۔
پولیس نے احتجاج کرنے والے طلبہ کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا سہارا لیا۔ پولیس اہلکاران نے جامعہ کے احاطہ پر دھاوا بول دیا اور کیمپس کے اندر موجود طلبہ کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گاڑیوں میں ڈال کر تھانے منتقل کر دیا گیا۔ تاہم گرفتار ہونے والے طلبہ پر تاحال کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔
ادھر طلبہ تنظیموں نے طلبہ پر ہونے والے پولیس تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق مرکزی صدر راشد شیخ نے ’جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبعلموں پر اس طرح کا بہیمانہ پولیس تشدد ریاستی دہشت گردی ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا۔ حکمران اور ریاست ہر طرح کے احتجاج اور جمہوری آوازوں کو دبانے کے اصول پر کاربند نظر آ رہے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ گرفتار طلبہ کو فی الفور رہا کیا جائے اور طلبہ کے نمائندگان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ان کے مسائل حل کئے جائیں۔ ان کے مطالبات کو یکسو کیا جائے اور پولیس تشدد کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔