خبریں/تبصرے

گرفتار طلبہ 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے، پنجاب بھر میں احتجاج

حارث قدیر

لاہور میں نجی جامعات کے مالکان کی ایما پر گرفتار کئے جانے والے 5 طلبہ کو جمعہ کے روز لاہور کی مقامی عدالت میں پیش کر کے 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ قبل ازیں 36 گرفتار طلبہ بھی 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیجے جا چکے ہیں۔

جمعہ کے روز ملک گیر ’طلبہ ڈے آف ایکشن‘ کے طور پر منایا گیا۔ اس سلسلہ میں لاہور اور اسلام آباد سمیت مختلف شہروں اور جامعات کے باہر احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے جن میں سینکڑوں طلبہ نے شرکت کی اور تعلیم کے بیوپاریوں کی ایما پر پنجاب حکومت کی پولیس گردی کی شدید مذمت کی گئی۔

لاہور میں جمعہ کی دوپہر چیئرنگ کراس کے مقام پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرہ سے حقوق خلق موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر عمار علی جان، مزمل خان، علی عبداللہ خان، ریولوشنرری سٹوڈنٹس فرنٹ سے ساشا جاوید ملک اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔

عمار علی جان اور دیگر مقررین نے کہا کہ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے سکیورٹی گارڈز کے ساتھ مل کر پولیس نے آن لائن امتحانات کے حق میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر تشدد کیا۔ یہ سب اس نجی یونیورسٹی کے مالک کے کہنے پر کیا گیا ہے۔

اسلام آباد کے شاہین چوک میں بحریہ یونیورسٹی، ایئر یونیورسٹی اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سمیت دیگر جامعات کے طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور گرفتار طلبہ کو فی الفور رہا کرنے اور امتحانات کے آن لائن انعقاد کے مطالبے سمیت دیگر مطالبات کئے گئے۔ طلبہ نے آن کیمپس امتحانات کے فیصلے کے خلاف نعرے بازی کی اور آن کیمپس امتحانات کے خلاف پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔ طلبہ نے لاہور میں پولیس گردی اور گرفتاریوں و تشدد کے خلاف بھی پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کلاسیں آن لائن ہوئیں اس لیے ہمارے امتحان بھی آن لائن ہونے چاہیے یا پھر ہمیں کیمپس میں تعلیم کا موقع دیے جانے کے بعد کلاس روم میں امتحان لیے جائیں۔

واضح رہے کہ لاہور سمیت پنجاب اور اسلام آباد کی مختلف جامعات میں آن کیمپس امتحانات لینے کے فیصلے سمیت دیگر مطالبات کے گرد گزشتہ چار روز سے طلبہ احتجاج کر رہے ہیں۔ تاہم ملک کے ایک بڑے سرمایہ دار میاں عامر محمود کی نجی جامعہ’یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب‘ میں تین روز قبل احتجاج کرنے والے طلبہ پر یونیورسٹی گارڈز اور پولیس نے تشدد کیا۔ اس کے علاوہ یو ایم ٹی کے باہر احتجاج کرنے والے طلبہ پر بھی پولیس تشدد کیا گیا تھا جس کے بعد 36 طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پولیس تشدد کی وجہ سے کم از کم 10 طلبہ شدید جبکہ درجنوں معمولی زخمی ہوئے تھے۔

طلبہ پر تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف احتجاج منظم کرنے کی تیاریوں میں مصروف طالبعلموں کو بھی گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور دو روز قبل علامہ اقبال ٹاؤن میں ایک فلیٹ پر چھاپہ مار کر پولیس نے 5 طلبہ کو گرفتار کیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔

ابتدائی طور پر پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے صرف ایک طالبعلم کو گرفتار کیا ہے لیکن گرفتار ہونے والے پانچوں طلبہ کو جمعہ کے روز مقامی عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت نے 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر طلبہ کو پولیس کے حوالے کر دیا۔

گرفتار کئے جانے والے طالبعلم زبیر صدیقی نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر رکھی تھی جبکہ انکے ہمراہ گرفتار کئے جانے والے 4 طلبہ نے کسی احتجاج میں شرکت بھی نہیں کی تھی۔

زبیر صدیقی کے ہمراہ ثنا اللہ امان، علی اشرف ملک، سلمان سکندر اور حارث احمد خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ طالبعلم ثنا اللہ امان کے فلیٹ پر موجود تھے جہاں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ گرفتار طلبہ میں حارث احمد کا تعلق پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے ہے۔ وہ اسی شام مظفرآباد سے لاہور پہنچے تھے اور اگلی صبح انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

ثنا اللہ امان کی اہلیہ سدرہ بانو نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ گرفتاری کے وقت طلبہ پر پولیس کی جانب سے تشدد بھی کیا گیا۔ تاہم پولیس ترجمان نے بی بی سی سے گفتگو میں گرفتاریوں اور تشدد کی تردید کی تھی۔ طالب علم رہنما عروج اورنگزیب نے بی بی سی سے گفتگو کے دوران کہا کہ ”چند لوگوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے پنجاب پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ جو رد عمل پولیس کی جانب سے دکھایا گیا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ابھی تک تو ہم نے پرائیویٹ مافیا پر بات کرنا شروع کی ہے۔ یونیورسٹی والوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ ابھی یہ جدوجہد تک نظام بدلنے تک جاری رہے گی۔“ انکا کہنا تھا کہ ”جس طرز کی تعلیم دی گئی ہے، اسی طرز کے امتحانات بھی ہونے چاہئیں، نجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ چاہتی ہے کہ زیادہ طلبہ فیل ہوں تا کہ ایک اضافی سمسٹر کی بھی فیس آ جائے۔“

عمار علی جان نے کہا کہ ”کچھ نجی تعلیمی ادارے طلبہ کے آن لائن امتحانات کے مطالبے کو صرف فیسوں کی وجہ سے نہیں تسلیم کر رہے جبکہ دیگر نے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا ہے۔“

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔