اداریہ جدوجہد
گذشتہ روز وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی عائد کر دی۔ اس پابندی کا میڈیا کے بعض حصوں اور سوشل میڈیا میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ یہ خیر مقدم اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ متشدد گروہ اپنے حالیہ اقدامات کی وجہ سے کافی غیر مقبول ہو گیا تھا۔
جس طرح سے ملک کو لگ بھگ تین دن تک ڈنڈا بردار جتھوں نے یرغمال بنائے رکھا، اس کی وجہ سے بڑے شہروں میں کم از کم لوگوں کی زندگی جہنم بنی رہی۔ دریں اثنا پولیس پر حملوں اور دو پولیس اہل کاروں کی ٹی ایل پی کے بلوائیوں کے ہاتھوں ہلاکت نے بھی اس گروہ کو مزید غیر مقبول بنا دیا۔
یہ کہ دو دن تک ریاست نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ ٹی ایل پی کے جتھے، جن کی کہیں بھی تعداد درجن بھر سے زیادہ نطر نہیں آئی، بے شمار سازشی نظریات کو بھی جنم دیتی رہی۔ ویسے بھی اس گروہ کو جس طرح گذشتہ تین سال میں جس طرح حکومتوں کو غیر متزلزل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ،یہ سازشی نظریات بے معنی بھی نہ تھے۔ بہرحال ادارہ جدوجہد اس پابندی کے حوالے سے مندرجہ ذیل نکات قارئین اور عام شہریوں کی توجہ کے لئے پیش کرنا چاہتا ہے:
1۔ پاکستان میں انتہا پسند مذہبی گروہوں یا فرقہ پرست جماعتوں پر پابندیاں ہمیشہ ایک مزاق اور ڈھونگ ثابت ہوئی ہیں۔ لشکر طیبہ اور تحریک طالبان پاکستان سے لیکر سپاہ صحابہ پاکستان تک، درجنوں گروہ پابندی کا شکار بنے۔ سب نام بدل کر پھر متحرک ہو گئے۔ ان پابندیوں کے حوالے سے پاکستانی ریاست کی ساکھ نہ عالمی سطح پر اچھی ہے نہ قومی سطح پر۔ پابندیوں کا شکار گروہ پھر سے اس لئے متحرک ہو جاتے ہیں کہ انہیں ریاست کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے سب جانتے ہیں کہ متشدد مذہبی جماعتوں پر پابندی ہمیشہ انکھوں میں مٹی جھونکنے کے مترادف ایک عمل رہا ہے۔
2۔ ٹی ایل پی تو ریاستی منافقتوں کا سب سے شرمناک کیس ہے۔ چند ماہ پہلے جب خادم رضوی نے وفات پائی تو وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلیٰ تک، سب غم کے آنسو بہا رہے تھے۔ فیض آباد دھرنے میں اس گروہ کی سرپرستی کرنے پر جسٹس قاضی فیض عیسیٰ نے جو فیصلہ دیا وہ ان کے گلے کا پھندا بن چکا ہے۔ لوگ ابھی سے جسٹس قاضی فیض عیسیٰ کی تصاویر سوشل میڈیا پر شئیر کر کے سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا اس پابندی کے بعد ان کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا جائے گا؟ اسی طرح پشتون قوم پرست ٹی ایل پی کے تازہ "دھرنوں” (جو اصل میں متشدد اور خونی ناکے تھے بلکہ بلوے تھے)کا موازنہ خر قمڑ سے کر رہے ہیں۔ بلوچ قوم پرست پوچھ رہے ہیں کہ کیا پولیس اہل کاروں کی بلوچستان میں ہلاکت پر بھی ریاست اور میڈیا ایسے ہی خاموش رہتے؟ یہ موازنے ریاست کے تضادات کی ہی نہیں، مذہبی جنونی قوتوں کے لئے ریاستی سرپرستی کا پردہ بھی چاک کرتے ہیں۔
3۔ اس پابندی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریاست مذہبی جنونی قوتوں کے خلاف کچھ کرنے جا رہی ہے۔ اگر بنیاد پرستوں اور مذہبی جنونی قوتوں کے خلاف ریاست کو کچھ کرنا ہے تو پھر ان حالات کا خاتمہ کرنا ہو گا جو مذہبی جنون اور بنیاد پرستی کو جنم دیتے ہیں۔ یہ حالات کیا ہیں؟ایک اہم ترین عنصر تو ہے غربت جو بنیادپرستی کو مین پاور مہیا کرتی ہے۔ جب ریاست تعلیم،روزگار اور صحت یا رہائش کی بنیادی سہولتیں نہیں دے گی۔اپنا کوئی فریضہ ادا نہیں کرے گی تو مذہبی گروہ اپنے مدرسوں،اسکولوں، یتیم خانوں، خانقاہوں، ہسپتالوں اور ایسے دیگر اداروں کی مدد سے یہ سہولتیں کسی حد تک فراہم کر کے آبادی کے ایک قابل ذکر حصے کو اپنے ساتھ ملا لیں گے۔ مدروسوں کی مثال ہی لے لیجئے۔ ملک میں پینتیس ہزار مدرسے ہیں جہاں پندرہ لاکھ طلبہ ہیں۔ لاکوں گریجویٹ کر چکے ہیں۔کروڑوں اور کریں گے۔ ان کی اکثریت مذہبی جنونی قوتوں کے لئے فل ٹائمر کے طور پر کام کرنے لگتی ہے۔ ملک میں ،ایک اندازے کے مطابق ،تین لاکھ مساجد ہیں۔ مساجد اور مدارس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گویا مدرسہ گریجویٹ کو بے روزگاری کا بھی کوئی خدشہ نہیں۔ خلیجی ممالک یا تارکین وطن کی طرف سے بھیجے جانے والے اربوں ڈالر اس وسیع نیٹ ورک کو چلانے کے لئے کافی ہیں۔ ملک کا تاجر طبقہ اور اشرافیہ بھی دل کھول کر مدد کرتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ریاست کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔ ملک کی ساری بڑی سیاسی جماعتیں ان جنونیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو سپاہ صحابہ کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے پر شرم آئی نہ نواز لیگ فضل الرحمن،جماعت اسلامی اور سپاہ صحابہ کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانے سے کترائی۔ سب سے اہم بات یہ کہ کوئی سیکولر،سوشلسٹ متبادل قومی سطح پر موجود نہیں۔اس خلا کو مذہبی جنونی پر کرتے ہیں۔
4۔ ایسے میں ان بنیاد پرست اور مذہبی جنونی قوتوں سے نپٹنے کا فریضہ ترقی پسند قوتوں اور محنت کش طبقے کو ہی ادا کرنا ہو گا۔ یہ مذہبی جنونی قوتیں محنت کش طبقے کی دشمن ہیں۔ ایک طرف تو یہ گروہ محنت کشوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرتے ہیں دوسری جانب محنت کش طبقے کے غصے کو حکمران طبقے کی طرف موڑنے کی بجائے مخالف فرقے، مذہبی اقلیتوں اور مفروضہ دشمنوں کی طرف موڑ کر موجودہ نطام کو جاری رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس لئے ان کے خلاف جدوجہد طبقاتی جدوجہد کا ہی حصہ ہے۔ اس جدوجہد کو تعمیر کرتے ہوئے یہ شعور بھی تعمیر کرنا ہو گا کہ ریاست کو مذہب سے بالکل الگ کیا جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو پوری آزادی ہو کہ وہ اپنے عقائد پر عمل کر سکے۔ ریاست خود کسی بھی مذہبی گروہ کی نہ تو سرپرستی کرے نہ ہی اس پر جبر کرے۔ ہمیں ریاست سے یہ بھی مطالبہ کرنا ہو گا کہ وہ روٹی، روزگار ،تعلیم علاج اور رہائش کی سہولتیں فراہم کرے۔ موجودہ نیو لبرل عہد اور بنیاد پرستی آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ جب ایک گرامر یا سٹی سکول کی برانچ کھلتی ہے تو دس مدرسوں کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ مدرسوں اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر بجٹ کا کم از کم دس فیصد تعلیم پر خرچ کیا جائے۔ اٹھارہ سال تک ہر بچہ لازمی طور پر سکول جائے اور ہر بچے کو وظیفہ دیا جائے۔ اس کے علاوہ سکولوں میں لنچ، مفت کتابوں کی فراہمی، کھیل کی سہولتیں اور لائبریاں یقینی بنائی جائیں۔ بےروزگار نوجوانوں کو بے روزگاری الاونس فراہم کیا جائے۔ ان اقدامات سے ملکی معیشیت بھی ترقی کرے گی، امن بھی قائم ہو گا اور لوگ سکون سے زندگی گزار سکیں گے۔ پاکستان کے بائیس کروڑ شہریوں کا مقدر یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ایک بے رحم حکمران طبقہ مذہبی جنونیوں کی مدد سے ان کی زندگیاں مسلسل جہنم بنائے رکھے۔ ۤآزادی،خوشی،تحفظ اور احساس تحفظ ہمارا بنیادی حق ہے۔ ہم سے یہ حق مولوی چھین سکتے ہیں نہ فوجی۔