خبریں/تبصرے

واپڈا: ناقص حفاظتی انتظامات کیوجہ سے سالانہ 60 لائن مین ہلاک ہو جاتے ہیں

یونس خان سواتی

پاکستان میں آئے روز مختلف حادثات میں مزدوروں کے مرنے کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ناقص حفاظتی انتظامات کی وجہ سے‘بالخصوص پرائیویٹ سیکٹر میں بہت بڑے حادثات اکثر پیش آتے ہیں لیکن ان حادثات کو روکنے کے حوالے سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کبھی کو ئی سنجیدہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔

قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے عوض چند ہزار روپے کے معاوضے دے کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ منافع کی ہوس میں اندھے‘مالکان کے ہاتھوں بکے ہوئے افسران، مزدوروں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ مالکان اپنا منافع بچانے کے لیے کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کرتے۔ حفاظتی اقدامات کے نام پر سرکاری محکموں کی ملی بھگت سے صرف کاغذی کاروائی ہی کی جاتی ہے۔

حادثات کا شکار ہونے والوں میں ایک بہت بڑی تعداد واپڈا ملازمین کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 50سے 60 مزدور ان حادثات کا شکار ہو کر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ان حادثات میں مرنے والوں کی تعدا میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ واپڈا ایک قومی ادارہ ہونے کے باوجود ناقص حفاظتی انتظامات کی وجہ سے ہر سال کئی محنت کشوں کی زندگی کے چراغ گل کرتا ہے۔ واپڈا ہائیڈرویونین کے دیرینہ مطالبات میں سے ایک جدید حفاظتی آلات کی فراہمی ہے لیکن آج تک اس حوالے سے لعیت ولعل سے ہی کا م لیا جا رہا ہے۔

راقم نے گھر کی غربت کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑی اور لڑکپن میں ہی واپڈا میں ملازمت اختیار کر لی۔ ہر طرح کے کام کئے‘ کبھی سیڑھی، کبھی تھیلا، کبھی کھدائی، کبھی گاڑیوں کو دھکہ، کبھی سوئیپر، کبھی نائب قاصد، کبھی چوکیدارا۔ پھر ایک دن خوشی کی خبر ملی کے میں لائن مین بن گیا ہوں اور تنخواہ بھی بڑھ گئی ہے۔

میں خوش ہوااور سوچاکہ غریبی میں کچھ کمی آئے گی اور میر ے دن بھی بہتر ہوں گے۔ جس دن پہلی دفعہ لائن مین بن کر پول پر چڑھاتو اس دن احساس ہوا کے زندگی کیا ہے۔ جو دوران ِتربیت پڑھایا گیا تھا، فیلڈ کی دنیا اس سے یکسر مختلف تھی۔ 600 وولٹ کے دستانے پہنا کر 11000 وولٹ لائنوں پر کام کے لیے بھیجاگیا۔ غلطی سے والدین نے غریبی کے باوجود بھی چار جماعتیں پڑھائی تھیں۔ جب سوشل میڈیا پر غیر ملکی لائن مینوں کی سیکیورٹی اور تحفظ کے آلات کو دیکھا تو دل ناتواں سے آواز آئی:

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے پس ِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہورہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں

پھر یکایک ایک دن زندگی میں بھونچال آتا ہے اور پاؤں کے نیچے سے زمین سرکتی ہے۔ جب میرا ایک بہترین دوست، میرا بھائی جسے 11000 وولٹ کا کرنٹ لگتاہے اور وہ میری بانہوں میں اپنی آخری سانس لیتا ہوا ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے۔

کھمبے پر اس کا چیخنا، تھر تھر کانپنا، اوئے ماں۔ ۔ ۔ کی صدا لگانا آج بھی مجھے بے چین کر جاتاہے۔ میں سوچتا ہوں کے اس معصوم کا قاتل کون ہے؟

کس نے اس کے باپ سے بڑھاپے کا سہاراچھینا!
کس نے اس کی ماں کی آنکھوں کی روشنی گل کی!
کس نے اس کی بہن اور بیوی کے سر کا دوپٹاچھینا!
کس نے اس کے بچوں کو یتیم اور بے سہارا کیا!
کس نے اس کے بچوں کے خواب چکناچور کئے!
کس نے اس غریب کے گھر والوں کی روٹی چھینی!

پھر میرے اندر سے آواز آئی:

میں ظلم سہہ کر اسے تقدیر نہیں مانوں گا
جبر کے لاکھ چلیں تیر! میں نہیں مانوں گا
آج ایوانوں میں گدھ ہیں بیٹھے ہوئے
میں ہوں عزم ِدل شبیر میں نہیں مانوں گا

کوئی ارباب اختیار کو بتائے کے صرف ہیلمٹ، دستانے، بیلٹ اور جوتے ہی حفاظتی آلات نہیں ہوتے۔ وہ بھی انتہائی غیر میعاری اور ناقص۔ کوئی ان کو زندگی کی قیمت بتائے‘کوئی ان کو بیٹے کا، باپ کا، بھائی کا، شوہر کا درد بتائے جب وہ بچھڑتاہے۔ چند ٹکے کسی زندگی کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ یہ کرسیاں، یہ گاڑیاں یہ ایوان انہی مزدوروں کی مرہونِ منت ہیں۔ آج وہ وقت قریب ہے جب محنت کش نکلے گا اور اپنا حق چھین لے گا۔

Younas Khan Sawati
+ posts

یونس خان سواتی واپڈا ہائیڈرو یونین (سی بی اے) کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں۔