حارث قدیر
بھارتی حکومت کی ایما پر کشمیری پنڈتوں (اعلیٰ ذات کے ہندوؤں) کے قتل عام اور ہجرت سے متعلق بننے والی حالیہ فلم ’کشمیر فائلز‘ 11 مارچ کو اپنی ریلیز کے دن سے پورے برصغیر میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
یہ فلم ویویک اگنی ہوتری اور ابھیشیک اگروال کی مشترکہ پیشکش ہے، اسے ویویک اگنی ہوتری نے تحریر کیا اور انہی کی ہی ہدایت کاری میں فلمایا گیا ہے، جبکہ ذی سٹوڈیوز ڈسٹری بیوٹر ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری سے متعلق تھوڑی بہت جانکاری رکھنے والا ہر شخص فلم کے پروڈیوسروں اور ڈسٹری بیوٹرز کے ناموں سے ہی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ فلم حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہا پسند ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے کا ہی تسلسل ہو گی۔
تاہم مودی حکومت نے بات یہاں تک ٹھہرنے نہیں دی۔ فلم میں کام کرنے والے اداکاروں سے وزیر اعظم مودی کی خصوصی ملاقات، بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کی طرف سے فلم کی کمائی پر ٹیکس چھوٹ اور پولیس اہلکاران کو فلم دیکھنے کیلئے خصوصی چھٹی دینے کے اعلانات نے مزید وضاحت بھی کر دی۔ اس سے بھی بڑھ کر حکومتی وزرا اور حکمران بی جے پی کے علاوہ انتہا پسند آر ایس ایس کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس فلم کو دیکھنے کیلئے خصوصی مہم چلائی گئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس فلم کو ایک ایسا سچ قرار دیا، جسے تین دہائیوں سے مخفی رکھا گیا تھا۔
بھارت کی فلم انڈسٹری سے لیکر سماج کی ہر پرت اس فلم پر تقسیم اور پولرائزڈ نظر آ رہی ہے۔ کوئی کھل کر مخالفت کر رہا ہے اور تاریخ کا قتل قرار دے کر یہ بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ کشمیری پنڈت ہنسی خوشی کشمیر چھوڑ کر بھاگ گئے، کوئی اسے تاریخ کا واحد سچ قرار دے رہا ہے، تو کوئی فلم کے مخصوص حصوں پر جزوی اعتراض پر ہی یہ سوچ کر اکتفا کر رہا ہے کہ جینا تو یہی ہے۔ اسی طرح دانش بھی اس فلم پر بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ کہیں کہیں تاریخی حقائق کو مسخ کئے جانے کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ بھارتی میڈیا اس فلم کی آڑ میں جموں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے پردہ پوشی کیلئے اس فلم کے گرد جاری بحث کی آڑ میں تاریخ کے مخصوص اورہندوتوا کے ایجنڈے کیلئے موافق واقعات کو چن چن کر اپنی نشریات کا حصہ بنا رہا ہے۔
اس ساری واردات میں بھارتی حکمران مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دینے، تمام مسلمانوں کو بیرونی حملہ آور، دہشت گرد اور تمام مسائل کی جڑ قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پورے بھارتی سماج پر یہ بات بھی مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نریندر مودی سے پہلے تمام حکمران مسلمانوں کے حمایتی اور ہندو دشمن رہے ہیں۔ کوئی بھی سچائی کے ساتھ کھڑا نہیں رہا اور نہ ہی کسی نے بھارت کو ایک مضبوط اور طاقتور ملک بنانے کیلئے کوئی اقدام کیا ہے۔ بھارتی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسا حکمران آیا ہے جو تمام مسائل حل کرے گا۔
درحقیقت کوئی بھی نظام جب ترقی کر رہا ہوتا ہے تو اس ترقی کا اظہار ہر سماجی مظہر میں ہو رہا ہوتا ہے۔ مخالف آوازوں، نظریات، فکر و دانش کو کسی حد تک موقع ملتا ہے۔ ہر شعبہ پر قبضہ ناگزیر نہیں ہوتا اور نسبتاً سیاسی و سماجی استحکام موجود رہتا ہے۔ تاہم بحران کے عہد میں عدم تحفظ کے اثرات حکمران طبقات کے ذہنوں پر سوار ہو جاتے ہیں۔ بحرانوں کا ایک مسلسل رجحان بالآخر ساختی بحران کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور پھر اس نظام کو روایتی طریقوں سے جاری رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ ایسے حالات میں انقلابی متبادل کا فقدان اورسیاسی، ثقافتی اور معاشرتی گراوٹ انسانی جذبات اور احساسات کی تنزلی میں ڈھل کر سماجی عذاب بن جاتی ہے۔
عہد کے بانجھ پن نے مودی جیسے حکمران کو بھارتی سماج پر اسی لئے مسلط کیا ہے کہ اس نظام کو اب روایتی لبرل طریقے سے چلانا ممکن نہیں رہا۔ سنسرشپ کی ننگی ریاستی تلوار نے تخلیقی ذہنوں کی سوچوں کو محدود و زنگ آلود کر دیا ہے۔ فن و ثقافت کی گراوٹ اور بانجھ پن کا واضح اظہار مودی کے بھارت میں فلم اور صحافت میں کھل کر ہو رہا ہے۔
آرٹ دوسرے لفظوں میں انسانی جذبات اور احساسات کا انتہائی زوردار لیکن لطیف اظہار ہوتا ہے۔ ’کشمیر فائلز‘ کی کہانی اور مکالموں کا انتہائی سطحی پن اور حقائق سے کوسوں دور ہونا فنکار اور معاشرے کے درمیان بیگانگی اور لاتعلقی کا مظہر ہے۔
فلم کی کہانی کسی پاک بھارت میچ کی ریڈیو پر چلنے والی کمنٹری کے دوران کشمیری پنڈتوں کے 10 سے 12 سال کے بچوں کی برف سے ڈھکے میدان میں گلی کرکٹ کے مناظر سے شروع ہوتی ہے۔ جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ریڈیو پر سچن ٹنڈولکر کے فاتحانہ ’چھکے‘ کا اعلان ہوتے ہی کرکٹ کھیلنے والے بچے جشن منانا شروع کرتے ہیں اور انہیں 30 سے 40 سال کی عمروں کے داڑھیوں والے ’مسلم‘ مرد تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ تاہم وہ بچے ان کی آنکھوں میں برف ڈال کر فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی سرینگر کی گلیوں میں بندوق بردار گروہ دکھائے گئے ہیں جو کشمیری پنڈتوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔
فلم کا مرکزی کردار انہی کرکٹ کھیلنے والے بچوں میں سے ایک کا چھوٹا بھائی ’کرشنا پنڈت‘ہے۔ ولن کا کردار یو ں تو جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک دھڑے کے چیئرمین یاسین ملک کو قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن لبریشن فرنٹ کے ہی ایک رہنما فاروق احمد ڈارکو بھی اسی کردار میں گڈ مڈکر دیا گیا ہے۔ تاہم 95 فیصد کشمیری مسلمانوں کے علاوہ بھارتی و مقامی حکومت کا کردار بھی ولن کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے اس فلم کی تعریف کرتے اور کانگریس اور نیشنل کانفرنس کو بھی اس سازش میں ملوث قرار دیتے ہوئے یہ بات بھی واضح نہیں کی کہ 19 جنوری 1990ء میں، جب سے اس فلم کی کہانی شروع کی گئی، بھارت میں انہی کی جماعت بی جے پی اور جنتا دل کی حکومت تھی۔ 19 جنوری کو ہی وہاں گورنر راج نافذ کر دیا گیا تھا، گورنر جگ موہن ملہوترا کو بی جے پی حکومت نے ہی جموں کشمیر میں تعینات کیا تھا۔ جنوری میں ہی جموں کشمیر میں مرکزی حکومت نے صدارتی راج بھی نافذ کر دیا تھا۔
کہانی میں آگے بڑھ کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کشمیری پنڈت مالدار، پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگ تھے۔ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت قائم کرنے والی بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو کشمیری پنڈت ختم کروانا چاہتے تھے۔ پاکستانی ریاست کی ایما پر مسلمانوں نے پنڈتوں کی جائیدادیں چھیننے اور کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کیلئے پنڈتوں کا قتل عام کیا۔ قتل عام اور ہجرت کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے ہلاکتوں اور ہجرت کے اعداد و شمار کو مبالغہ آمیز حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ جموں کشمیر میں ابھرنے والی آزادی کی تحریک کے دوران ریاستی جبر و بربریت سے ہونے والی ہلاکتوں کا تذکرہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا گیا۔ یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی کہ دفعہ 370 ہی وہ بنیادی رکاوٹ تھی جو پنڈتوں کو دوبارہ اپنے گھروں میں جانے سے روک رہی تھی۔ کہانی 2019ء میں اختتام پذیر ہوتی ہے، تاہم یہ بھی واضح نہیں کیا کہ دفعہ 370 ختم ہونے کے بعد پنڈت کے حالات زندگی بہتر کیوں نہیں ہو سکے؟
تاہم حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ 1951ء میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر سے جاگیرداری کا خاتمہ کرتے ہوئے شیخ عبداللہ نے زرعی اصلاحات متعارف کروائی تھیں۔ جاگیرداروں سے جاگیریں ضبط کر کے کسانوں میں تقسیم کی گئی تھیں۔ اس وقت بھی کشمیری پنڈتوں کی ایک بڑی تعداد جموں کشمیر کوچھوڑ کر بھارت کے مختلف شہروں میں منتقل ہو گئی تھی۔ جموں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد بھی اتار چڑھاؤ کے ساتھ مختلف مراحل طے کر تی رہی۔
ہندو مسلم نفرت کو ابھارنے میں اگر چہ پاکستانی ریاست کی مداخلت بھی کارفرما ہے، تاہم بنیادی کردار پھر بھارتی ریاستی جبر اور حکمران طبقات کے اقتدار کو جاری رکھنے کیلئے مذہب کے بھیانک استعمال کا ہی ہے۔ بابری مسجد پر حملے کے رد عمل میں وزیر اعلیٰ جموں کشمیر غلام محمد شاہ سمیت دیگر نے نفرت انگیزی کو ہوا دی اور اننت ناگ میں ہندو مسلم فسادات، مندروں پر حملوں اور تشدد کے نتیجے میں کشمیری پنڈتوں کی پہلی ہجرت جموں اور ادھم پور کی طرف ہوتے ہوئے نظر آئی۔
1984ء میں مقبول بٹ شہید کو پھانسی دیئے جانے کے بعد وادی کشمیر میں آزادی کی تحریک کا ابھار ہوا۔ 1987ء کے انتخابات میں دھاندلی، سیاسی تحریک کو ریاستی تشدد کے ذریعے کچلنے کی پالیسی نے کشمیری نوجوانوں کو بندوق اٹھانے پر مجبور کیا۔ پاکستانی ریاست بھی اسی موقع کی منتظر تھی، جو گزشتہ 40 سال سے مسلسل مصنوعی عسکری تحریکیں پیدا کرنے کی کوشش کر چکی تھی۔ تاہم یہ تحریک جموں کشمیر کی مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ پاکستانی ریاست سے تربیت اور ہتھیار لینے کے باوجود جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ایک سیکولر قومی ریاست کے قیام کا دعویٰ کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ریاست کو بھی اس تحریک کو مذہبی بنیادوں پر توڑنے کیلئے بے شمار مزید گروہ تعمیر کرنا پڑے اور بالآخر ستمبر 1989ء میں حزب المجاہدین کی صورت انہیں یکجا کیا گیا۔ حزب المجاہدین، اللہ ٹائیگرز اور دیگر مذہبی تنظیموں نے عملی طور پر مذہبی منافرت پھیلانے اور کشمیری پنڈتوں کو کشمیر چھوڑنے کے اعلانات کئے۔
عوامی تحریک کے پاس جب متبادل نظریات اور قیادت کا فقدان ہو تو سامراجی ریاستیں اور حکمران طبقات نہ صرف ان تحریکوں میں مداخلت کرتے ہیں بلکہ انہیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف پاکستانی ریاست نے ہی نہیں بلکہ بھارتی ریاست نے بھی اس تحریک کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہوئے داخلی تضادات سے راہ فرار اختیار کی اور حکمران طبقات نے اس جنگ سے منافع بٹورے۔ عسکری کارروائیوں کی وسیع تر عوامی حمایت سانحہ گاؤکدل کے بعد ہی سامنے آئی، جب بھارتی فورسز نے پر امن احتجاج پر فائرنگ کرتے ہوئے 100 سے زائد کشمیریوں کو ہلاک اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا۔ بھارتی ریاست کے تشدد کو ابھارنے اور وسیع کرنے میں اپنے مفادات کارفرما تھے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں بھارتی ریاست کی طرف سے بنائے گئے مختلف عسکری گروہ بھی نظر آتے ہیں۔
تاہم فلم میں بھارتی ریاست کے اس وحشیانہ کردار کے ساتھ ساتھ کشمیری پنڈتوں کیخلاف ہونے والے مظالم کی حقیقی تصویر پیش کرنے کی بجائے اسے بھی مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم کے مطابق 4 لاکھ پنڈتوں کو ہجرت کرنا پڑی اور 40 ہزار کا قتل عام کیا گیا۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار سمیت پنڈتوں کی تنظیم ’کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی‘ کے اعداد و شمار کے مطابق 389 سے 800 کے درمیان ہلاکتیں ہوئیں، اور 1 لاکھ کے قریب کشمیری پنڈتوں نے ہجرت کی۔ ان اعداد و شمار میں سرکاری ملازمین، پولیس اہلکاران، انٹیلی جنس اہلکاران سمیت حکومتی و انتظامی عہدیداران بھی شامل ہیں۔
جموں یونیورسٹی کے طالبعلموں کی جانب سے 2001ء میں کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق ہجرت کرنے والے 2 فیصد پنڈتوں نے یہ بتایا کہ انہیں براہ راست دھمکیاں دی گئیں، 80 فیصد پنڈت ایسے تھے جنہیں کسی قسم کی کوئی دھمکی نہیں ملی اور وہ ایک خوف کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ تاہم فلم میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ بندوق بردار گروہ بلوا گیر تھے، جو پنڈتوں کی نسل کشی کر رہے تھے، ایسی کیفیت میں کشمیری پنڈت گھر بار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
بھارتی ایئر فورس کے افسروں کے قتل کی منظر کشی میں ہی حقائق کو مسخ نہیں کیا گیا بلکہ ہلاک ہونے والے افسروں میں شامل مسلمان افسر آزاد احمد کا نام بھی غائب کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں ہلاک ہونے والے میر واعظ کشمیر مولانا فاروق سمیت مسلمان افسروں، سیاسی رہنماؤں اور پولیس اہلکاروں تک کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔
واضح رہے کہ ان اعداد و شمار کی وضاحت کرنے کا ہر گز مقصد یہ نہیں کہ پنڈتوں پر ہونے والے مظالم کو درست قرار دیا جائے، یا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ کشمیری پنڈتوں نے خوشی سے اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لی تھی۔ تاہم حکمران طبقات کی پالیسیوں اور جبر کے ناگزیر اظہار کو کسی خاص مذہب کے تمام ماننے والوں کے خلاف نفرت کے طور پر استعمال کرنے کی حکمرانوں کی واردات کو آشکار کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ فلم میں یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ مسلمانوں کی ہندوؤں کے خلاف سازش صدیوں پرانی ہے۔ یہ بیرونی حملہ آور تھے، انہوں نے جبری طور پر ہندوؤں کو مسلم بنایا اور ہندوؤں کی ’جنم بھومی‘پر قبضہ کر کے انہیں آہستہ آہستہ وہاں سے بے دخل کر دیا۔
فلم میں بھارت کی ترقی پسند آوازوں کو ملک دشمن اور پاکستانی ایجنٹ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ترقی پسند نظریات کی چھاپ کو ریاست مخالف بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ فلم کے مرکزی کردار ’کرشنا پنڈت‘ کو جے این یو کا طالبعلم دکھایا گیا ہے۔ اس کے والدین کو کشمیر میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے دادا نے اسے بتایا ہوتا ہے کہ وہ ایک حادثہ میں مارے گئے تھے۔ کرشنا جے این یو کی سٹوڈنٹ یونین کے انتخابات میں صدارتی امیدوار ہوتا ہے۔ کرشنا کے دادا کی وفات پر اسے وصیت کے مطابق ’باقیات‘ لیکر کشمیر جانا پڑتا ہے۔ اسی دوران اسے والدین کے قتل کی معلومات بھی ملتی ہیں اور والدین کے قاتل یعنی فاروق ملک (یاسین ملک)سے بھی ملاقات ہوتی ہے۔ فاروق ملک سے ملاقات کیلئے اسے اپنی اس ٹیچر نے بھیجا ہوتا ہے، جو اسے بائیں بازو کی سیاست کی طرف راغب کرتی ہے۔
جے این یو کا تعلق کشمیری عسکریت پسندی اور دوسرے لفظوں میں پاکستان سے جوڑ کر جے این یو کی ترقی پسند مزاحمتی سیاست کو پاکستانی پراکسی سیاست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم کے آخر میں کرشنا پنڈت جے این یو میں کشمیر کی ’نئی‘داستان سناتا ہے، جو پہلے کسی نے نہیں سن رکھی ہوتی۔ تاہم فلم کا اختتام کرشنا کی کہانی کے اختتام کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔ یوں یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ مودی حکومت نے کشمیر میں دفعہ 370 کی وجہ سے ہونے والی ناانصافیوں اور بھارت مخالفت شورش کو تو فتح کر لیا گیا ہے، تاہم جے این یوکو فتح کرنا ابھی باقی ہے۔
فیض احمد فیض کی شاعری اور ظلم، جبر، استحصال، طبقاتی تفریق، انتہا پسندی اور ریاستی جبر سے آزادی کے نعروں کو جموں کشمیر کے بھارت سے علیحدہ ہو کر پاکستان میں شمولیت کے نعروں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یوں مذموم ریاستی مقاصد کیلئے تاریخ، انسانی جذبات، احساسات اور سب سے بڑھ کر فن سے کھلواڑ کرتے ہوئے فسطائیت کی راہ ہموار کی گئی ہے۔
درحقیقت جو اعلانات اور وعدے کر کے بی جے پی اقتدار میں آئی تھی، ان اعلانات اور وعدوں پر عملدرآمد کی گنجائش اس نظام میں موجود ہی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار کو جاری رکھنے، سرمایہ دارانہ لوٹ مار کو برقرار رکھنے کیلئے محنت کشوں پر سخت گیر معاشی حملے ناگزیر تھے۔ نیو لبرل پالیسیوں کے اطلاق کیلئے حکمران طبقات نے کارپوریٹ میڈیا، نصاب اور پروپیگنڈہ کے دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف تاریخ سے کھلواڑ شروع کیا بلکہ وہ آئینی اور قانونی ضربیں لگائیں کہ پہلے سے بوسیدہ اور گھٹن زدہ معاشرہ ایک عفریت کی شکل دھار چکا ہے۔ محنت کش طبقے کو درپیش حقیقی معاشی مسائل سے ان کی توجہ ہٹا کر جعلی قوم پرستی، ملکی سکیورٹی اورہندو دھرم کو لاحق خطرات کے جھوٹ کو سرکاری سطح پر معاشرے پر مسلط کر کے تعصب اور نفرت کے بیج بوئے گئے۔
سچ کا راستہ روکنے کیلئے سرکاری سرپرستی میں انتہا پسند گروہوں اور بلوائیوں کو ہر مخالف آواز دبانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پھر بھی کوئی خوف کھانے سے انکار کرے تو غداری، بغاوت اور ملک دشمنی کے الزامات سمیت دیگر کالے قوانین کے تحت جیلوں میں ڈالنے کا راستہ اختیار کیا رہا ہے۔ تاریخی حقائق کو آشکار کرنے والی فلموں کو سنسر بورڈ کی پابندیوں کا نشانہ بنا نے کے علاوہ فلمسازوں اور اداکاروں پر بلوائیوں کے حملوں، فلم کے سیٹ جلانے اور شوٹنگ روکنے جیسے واقعات معمول بن چکے ہیں۔
سرکاری سطح پر ایسی فلمیں بنا کر انکی سرکاری سطح پر تشہیراورترویج کی جا رہی ہے، جن میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو بیرونی ایجنٹ، حملہ آور، غیر مقامی قرار دیکر ہندو سماج کیلئے خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اقلیتوں کے خلاف ہونے والے فسادات اور قتل عام کو خاموش اور کئی جگہوں پر سرعام سرکاری سرپرستی فراہم کی جاتی ہے۔ اس سب کا مقصد قطعی طورپر ہندو مذہب کے ماننے والوں کو بہتر زندگی دینا نہیں ہے، بلکہ محنت کش طبقے کو تقسیم اورباہم دست و گریباں کر کے انکی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹائی جا رہی ہے۔ اس سارے کھیل میں نہ صرف اقتدار کو دوام بخشا جا رہا ہے بلکہ حکمران طبقات کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ محنت کش طبقہ اس سب کی قیمت بھوک، ننگ، افلاس، وحشت و بربریت کی اذیتوں سے چکا رہا ہے۔
فسطائیت کی اس یلغار کے ذریعے معاشرے پر مسلط کردہ نفرتوں کے سائے تادیر قائم نہیں رکھے جا سکتے۔ جبر کی انتہا سے ابھرنے والے انقلابی طوفان وقت کا دھارا بدلتے دیر نہیں لگائیں گے۔