فاروق سلہریا
گذشتہ چند دنوں سے دو اہم موضوعات میڈیا پر زیر بحث ہیں: افغانستان اور کشمیر۔
پہلے جموں کشمیر کی بات کر لیتے ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر میں ’منتخابات‘ کی وجہ سے یہ خطہ خبروں میں رہا۔ تا دم تحریر پولنگ ہو رہی ہے اور جب یہ سطور قارئین تک پہنچیں گی، تحریک انصاف کی فتح کا اعلان ہو رہا ہو گا۔
یہاں انتخابی مہم کے دوران مریم نواز شریف کے عوامی جلسوں نے ایک مرتبہ پھر باسی کڑی میں ابال پیدا کیا۔ بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے بعض دیگر نمائندے بھی سرگرم نظر آئے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے لوگ بھی جموں کشمیر پہنچے۔
بظاہر بہت لے دے ہوئی۔ تنازعات بھی کھڑے ہوئے۔ ایک دوسرے کے خلاف کچھ شرمناک بیانات بھی جاری ہوئے…لیکن جموں کشمیر کے مسئلے پر تینوں کے موقف میں کوئی فرق نظر آیا ہو؟
تینوں کا موقف وہی ہے جو فوج کا موقف ہے۔ کوئی جماعت جموں کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کی بات نہیں کرتی۔ اور تو اور کوئی جماعت یہ تک تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ نریندر مودی نے جو لداخ کے ساتھ کیا، پیپلز پارٹی نے بھٹو دور میں وہی گلگت بلتستان کے ساتھ کیا۔ امین گنڈا پور نے بھٹو اور مریم کے خلاف بد ترین زبان تو استعمال کی مگر جموں کشمیر کے خلاف بھٹو کے اصل جرم پر خاموش رہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا جموں کشمیر کے انتخابات میں حصہ لینا ہی جموں کشمیر بارے مودی ڈاکٹرائن کی پاکستانی شکل ہے۔ یہ سارا انتخابی عمل پاکستان کا ریاست جموں کشمیر پر اپنے قبضے کو نارملائز کرنے کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جموں کشمیر پاکستان کی ایکسٹینشن ہیں۔ یہ کوئی علیحدہ اور متنازعہ خطہ نہیں ہے۔
یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ فوج اور پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک ہی پیج پر ہیں۔ اسے سیم پیج کہیں یا شیم پیج، آپ کا حسن ظن ہے۔
یہی صورت حال افغانستان کی ہے۔
تین دن قبل نواز شریف کے ساتھ افغان رہنما حمد اللہ محب کی ملاقات کو پی ٹی آئی نے غداری کی کوشش قرار دیا۔ جواب میں مسلم لیگ نے حمد اللہ محب کی جنرل باجوہ کے ساتھ ملاقات کی تصویر جاری کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی، گویا کابل کے مسئلے پر وہ اور فوج اصل میں سیم پیج (پتہ نہیں مریم نواز شریف کو یہ پیج سیم پیج لگے گا یا شیم پیج) پر ہیں نہ کہ فوج اور پی ٹی آئی۔
سچ تو یہ ہے کہ افغانستان میں تذویراتی گہرائی(جو اصل میں تذویراتی کھائی بن چکی ہے) کے مسئلے پر تینوں بڑی سیاسی جماعتیں (اور مولوی حضرات) فوج کی پالیسی سے بالکل کوئی اختلاف نہیں۔
اور تو اور، کم از کم، مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی تو نظریاتی طور پر بھی طالبان کے بہت قریب ہیں۔ اگر عمران خان طالبان خان کہلاتے ہیں تو نواز شریف بھی بطور وزیر اعظم (جب وہ دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے اور کابل پر طالبان قابض تھے) اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ کاش پاکستان میں بھی طالبان والا نظام ہوتا۔ انہوں نے شریعت بل لا کر اس طرح کا نظام مسلط کرنے کی کوشش بھی کی۔ جب وہ تیسری بار وزیر اعظم بنے تو پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جن کا انجام پشاور میں بچوں کے سکول پر خوفناک حملے کی صورت نکلا۔
رہی پیپلز پارٹی تو افغانستان پر اس کا ریکارڈ بھی شرمناک رہا ہے۔ ستر کی دہائی میں، افغانستان میں مداخلت کے لئے بھٹو صاحب ہی گلبدین حکمت یار جیسے لوگوں کو پاکستان لے کر آئے اور انہیں دہشت گردی کی تربیت دے کر افغانستان میں گڑ بڑ کرائی گئی۔
جب بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو طالبان کی سرپرستی کی گئی۔ کم از کم ان کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر فضر سے طالبان بنانے کا کریڈٹ لیا کرتے تھے (دلچسپ بات ہے کہ جماعت اسلامی ان دنوں طالبان کی مخالف تھی)۔
کیا آپ نے نوٹ کیا کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے افغانستان کے مسئلے پر پر اسرار خاموشی اختیار کی گئی ہے؟ کوئی پالیسی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ فوج نے پارلیمان کو جو بریفینگ دی، اس کے دوران کسی اختلاف کا اظہار نہیں کیا گیا۔ دونوں جماعتوں میں سے کسی نے طالبان کی سرپرستی، طالبان کے پاکستان میں نکلنے والے جلوسوں، افغانستان سے آنے والی طالبان کی لاشوں اور میڈیا میں طالبان نواز کمپئین پر کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔
قصہ مختصر، تینوں بڑی سیاسی جماعتیں کابل پر طالبان کے بزور طاقت قبضے کی حامی ہیں۔ اور تو اور کسی کو وہاں جنم لینے والے انسانی المئے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ کشمیر اور افغانستان پاکستان کی خارجہ ہی نہیں داخلہ پالیسی کے بھی اہم ترین نقطے ہیں۔ بھارت دشمنی کا جواز کشمیر سے ہی نکالا جاتا ہے۔ اسی طرح افغان سوال کو بھی بھارت سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ اور ’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘ کا منافقانہ نعرہ لگانے والے اگر تھوڑا سا بھی اپنے نعروں سے مخلص ہوتے تو ان دو سوالوں پر اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف کرتے کیونکہ پاکستان اگر عسکری ریاست ہے تو اس کا نظریاتی جواز کشمیر اور افغانستان ہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔