طنز و مزاح

میری زیب النسا!

قیصرعباس

اس صابن نوٹنکی (سوپ آپر ا) یعنی ٹی وی ڈرامے کی کہانی ہما رے سما ج کے تین اہم ترین مسا ئل کے گرد گھرد گھو متی ہے: منگنی، نکاح اور شادی۔ ڈرامہ ایک خفیہ عشق سے شروع ہوتاہے، منگنی کے مکالموں سے پروان چڑھتا ہے اورشادی کے کلا ئمکس پر ختم ہوتاہے۔

فکرمندوالدہ صاحبہ، برآمدے میں ٹہلتے ہوئے والدگرامی، ہشا ش بشاش خوبرو ہیرو اورایک حسین وجمیل نازک اندام مگر روتی بسورتی ہیروئن ڈرامے کے بنیادی کردار ہیں۔ د رمیان میں چیخوں، آہوں اور سسکیوں کے علاوہ ایک عدد رشتے والی ماسی اورمحلے کا ایک سگریٹ پھونکتا ہوا بدمعاش بھی کہانی کے اہم حصے ہیں۔ حسبِ ضرورت دو تین چھوٹی بہنیں، دو لالچی کزنزاور کچھ ناشکرے رشتہ دار بھی اس کہانی کے اہم کرداروں میں شامل ہیں جن کاذکریہاں وقت کی کمی کے پیشِ نظر نہیں کیاگیا۔

پہلا سین

(مردانہ پرسوز آوازمیں تھیم سونگ، دردمیں ڈوبی ہوئی موسیقی کے ساتھ)

میری زیب النسا! تیرا اب ہوگا کیا؟
توسلامت رہے! ہے یہ میری دعا!

کالج کے کیفے ٹیریا میں زیب النسا اپنے کلاس فیلو ساحل کے ساتھ چائے پیتے ہوئے۔
زیبی: ”ساحل!ہم کتنے دنوں سے ایک دوسرے کی محبت میں گرفتارہیں؟“
ساحل:(سموسہ کھاتے ہوئے) ”مجھے تو کچھ یاد نہیں“۔
زیبی: ”کوئی پانچ سال توہوچلے ہیں اس طرح ملتے ہوئے ہمیں۔“
ساحل: ”اچھا؟ وقت کتنی جلدی بدلتا ہے زیبی!“
زیبی: ”پچھلی عید کو بھی تم نے کہاتھاکہ اپنے والدین کے ساتھ میرے گھر آؤ گے میرا رشتہ مانگنے۔“
ساحل: ”کچھ تو خیال کر و زیبی! دادا جان بسترِمرگ پرہیں۔ جیسے ہی ان کی طبعیت ٹھیک ہوئی میں رشتے کی بات کروں گا۔“
زیبی: ”پچھلی عیدپر تمہاری دادی علیل تھیں۔“
ساحل:” اب زندگی اور موت پر تو میرا کوئی زورنہیں۔“
زیبی: ”یہ تو ہے۔“

(مردانہ پرسوز آوازمیں تھیم سونگ، دردمیں ڈوبی ہوئی موسیقی کے ساتھ)

میری زیب النسا! تیرا اب ہوگا کیا؟
توسلامت رہے! ہے یہ میری دعا!

دوسر ا سین

زیب النساکا بیڈ روم، لحاف میں انگڑائیاں لیتی ہوئی زیبی۔
والدہ صاحبہ ہاتھ میں چائے کی پیالی لئے کمرے میں داخل ہوتی ہیں۔
والدہ: ”اے لڑکی بارہ بج گئے ہیں۔ خدا کا خوف کر۔“
زیبی: (جمائیاں لیتی ہوئی) ”رات دیر تک جاگی ہوں امی۔ امتحانات بھی تو سرپر ہیں!“
والدہ: ”تجھ سے کون شادی کرے گا زیبی، سوتی رہتی ہے چوبیس گھنٹے، اٹھ چائے پی۔“
زیبی: ”مجھے نہیں کرنی شادی وادی، ساری عمر پڑی ہے شادی کے لئے۔“
والدہ صاحبہ: ”بیٹا ہمیں اب تیری شادی کی فکرکھائے جارہی ہے، عمر نکلی جارہی ہے تیری۔“
زیبی: ”فکرنہ کریں امی۔ جب ہونا ہوگی، ہوجائے گی۔“

(مردانہ پرسوز آوازمیں تھیم سونگ، دردمیں ڈوبی ہوئی موسیقی کے ساتھ)

میری زیب النسا! تیرا اب ہوگا کیا؟
توسلامت رہے! ہے یہ میری دعا!

تیسراسین

برآمدے میں چہل قدمی کرتے والدصاحب۔
والدہ: ”خیریت تو ہے؟ کیا چکر لگا رہے ہیں ایک گھنٹے سے؟
والد: ”بیگم آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے! زیبی کا پیغام آیا ہے، لڑکا ماشااللہ سرکاری افسر ہے۔ میرے ایک دوست کا بیٹا ہے۔“
والدہ: ”بڑے دنوں کے بعد اچھی خبر آئی ہے۔ میں کل ہی زیبی سے بات کرتی ہوں۔“

(پس منظر میں شہنائی زدہ موسیقی)

(مردانہ پرسوز آوازمیں تھیم سونگ، دردمیں ڈوبی ہوئی موسیقی کے ساتھ)

میری زیب النسا! تیرا اب ہوگا کیا؟
توسلامت رہے! ہے یہ میری دعا!

چوتھاسین

والدہ صاحبہ زیب النساسے: ”بیٹا تمہارے لئے ایک بہت اچھا رشتہ آیا ہے، لڑکابہت بڑا سرکاری افسرہے اور تنخواہ بھی
بہت اچھی ہے۔“
زیبی: ”امی میں یہ شادی ہرگز نہیں کروں گی“(پس منظر میں سسکیوں کی آواز، دردناک موسیقی کے ساتھ)
والدہ: ”تو کیا کنواری رہے گی ساری عمر؟
زیبی: ”جب تک میں ایم اے نہ کرلوں، شادی نہیں کروں گی۔“
والدہ: ”تمہیں یہ شادی کرنی پڑے گی، ورنہ میں زہر کھالوں گی۔“
زیبی: ”یہ میری بھی زندگی کا سوال ہے امی۔“

(مردانہ پرسوز آوازمیں تھیم سونگ، دردمیں ڈوبی ہوئی موسیقی کے ساتھ)

میری زیب النسا! تیرا اب ہوگا کیا؟
توسلامت رہے! ہے یہ میری دعا!

پانچواں سین

والدصاحب زیب النساسے: ”زیبی میں نے تمہاری منگنی کردی ہے، جمعہ کو نکاح ہے کپڑے ٹھیک ٹھاک پہننا۔“
زیبی: ”میں ساحل سے محبت کرتی ہوں بابا، یہ میری زندگی کا سوال ہے۔“
والد: ”یہ کون ناہنجار ہے؟“
زیبی: ”یہ ناہنجار نہیں۔ میرا کلاس فیلو ہے بابا!“
والدصاحب: ”آہ! خاندان کی عزت نیلام کردی اس لڑکی نے“ (دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے گرپڑتے ہیں)۔
والدہ صاحبہ:”ارے کوئی ہے؟ ڈاکٹر کوبلاؤ۔“
(مردانہ پرسوز آوازمیں تھیم سونگ، دردمیں ڈوبی ہوئی موسیقی کے ساتھ)
میری زیب النسا! تیرا اب ہوگا کیا؟
توسلامت رہے! ہے یہ میری دعا!

آخری سین

والدہ صاحبہ: (اپنی بہن کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے) ” شکرکریں باباجی کہ دل کے دورے کاناٹک کام آگیا اور زیبی شادی کے لئے راضی ہوگئی ورنہ ہم تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے“ (قہقہوں کی آوازیں)۔
زیبی سہیلیوں کے جھرمٹ میں مہندی لگواتے ہوئے۔
(ڈھولک کی آواز کے ساتھ سکھیوں کاکورس) ”کاہے کو بیاہی بدیس، بابل مورے۔“

(مردانہ پرسوز آوازمیں تھیم سونگ، دردمیں ڈوبی ہوئی موسیقی کے ساتھ)

میری زیب النسا! تیرا اب ہوگا کیا؟
توسلامت رہے! ہے یہ میری دعا!

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔