حارث قدیر
علی وزیر کہتے ہیں کہ حکمرانوں کی لڑائی سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہم نہ حکومت سے اور نہ ہی اپوزیشن سے مسائل کے حل کی کوئی توقع رکھتے ہیں۔ نوجوانوں اور محنت کشوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے خود میدان میں آنا پڑے گا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اس نظام کو اکھاڑ پھینکا جائے اور فیصلہ کن جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔
علی وزیر سابقہ فاٹا کے علاقے جنوبی وزیرستان (این اے 50) سے آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ علی وزیرپشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی سرکردہ قیادت کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں انقلابی سوشلزم کے نظریات پر جدوجہد کرنے والی صف اؤل کی قیادت میں شمار ہوتے ہیں۔ علی وزیر دسمبر 2020ء سے کراچی جیل میں مقید ہیں اور غداری، بغاوت اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف تقاریر کرنے کے الزامات میں مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے سلسلہ میں قومی اسمبلی کے بلائے گئے اجلاس کیلئے پروڈکشن آرڈر پر علی وزیر کو بھی کراچی سے اسلام آباد پارلیمنٹ لاجز میں منتقل کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے موجودہ صورتحال پر ان کا مختصر انٹرویو کیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ مصروف ترین شیڈول سے آپ نے وقت دیا۔ یہ بتائیں کہ آپ کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیا گیا ہے، اس بار بالآخر پروڈکشن آرڈر جاری ہوا۔ کیسے دیکھتے ہیں اس صورتحال کو؟
علی وزیر: آئینی طور پر تو سپیکر اسمبلی پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا پابند ہوتا ہے، تاکہ منتخب عوامی نمائندہ اپنے حلقے کے عوام کی پارلیمان میں نمائندگی کر سکے۔ تاہم موجودہ حکومت نے تمام روایتی پارلیمانی آداب کو پامال کیا ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ جب بھی عام عوام کے نمائندے پارلیمان میں جاتے ہیں تو انکے ساتھ یہ ریاست اور حکمران کس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ عوامی آواز کو پارلیمان میں سننے سے کتراتے ہیں۔
اس بار بھی 25 مارچ سے اجلاس جاری تھا، جبکہ یکم اپریل کو پروڈکشن آرڈر جاری کیا گیا۔ پہلے سندھ حکومت نے پے رول پر رہا کر کے اسلام آباد لانے کی کوشش کی، جو ناکام ہوئی۔ پھر پروڈکشن آرڈر جاری ہوا۔ ابھی سیشن کے حوالے سے ہی ایک غیر یقینی کیفیت ہے، اس وجہ سے پروڈکشن آرڈر تو لامحدود ہے۔ تاہم میں اجلاس ختم ہونے سے قبل ڈاکٹرز سے معائنہ کروانے کے بعد واپس جیل جاؤں گا۔
تحریک عدم اعتماد پر ووٹ کے حوالے سے آپ سے کس نے رابطہ کیا اور آپ نے کیا جواب دیا؟
علی وزیر: اپوزیشن نے ہی رابطہ کیا تھا۔ اپوزیشن کے اجلا س میں مجھے بلایا گیا تھا، لیکن میں نے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر اپوزیشن کے لوگ میرے پاس آئے تھے۔ میں نے انہیں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ حکمرانوں کے مفادات کی لڑائی اپنی جگہ پر ہے، ہم ایسے لوگ نہیں ہیں۔ میں آپ لوگوں سے عوام کے مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی توقع نہیں رکھتا، نہ ہمارے کوئی مفادات ہیں اور نہ کسی چیز کی لالچ ہے۔ ہم نے جو وقت گزارنا تھا، جیسا تیسا گزار لیا ہے۔ جب بھی موقع ملا میڈیا پر بھی آؤں گا اور عوام کے پاس بھی جاؤں گا، جب تک مسائل حل نہیں ہوتے، تب تک آواز اٹھاتا رہوں گا۔
میں نے انہیں واضح کہا ہے کہ صرف ووٹ مانگنے تک بات ہے، تو پھر میرا اپنا فیصلہ ہے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ مسائل پر ڈسکشن کرینگے اور حل بھی کریں گے تو پھر مظالم کی مذمت کرنا ہو گی، مزاحمت بھی کرنا ہو گی، مسائل حل کرنا ہونگے۔ جب ہم سے کسی بات پر نہ بولنے کی کمٹمنٹ لینے کی کوشش کی جائیگی، تو ایسا نہیں ہو گا۔ ہم مسائل پر ہر حال میں بات کرینگے۔
اس صورت میں پھر ووٹ کے حوالے سے آپ کا کیا فیصلہ ہے؟
علی زیر: ابھی تک بھی میں نے ووٹ کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اگر عمران خان کو ہٹانے کیلئے میرا ووٹ ناگزیر ہوا تو پھر میں ووٹ دے بھی سکتا ہوں۔ تاہم نئی حکومت کے قیام کے مرحلے پر میں کسی کو ووٹ نہیں دونگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان حکومت نے اگر مظالم کی انتہا کی ہے، جمہوری اور سیاسی آوازوں کو دبانے اور مقید کرنے میں فاشسٹ حد تک کردار ادا کیا ہے، تو ان کے متبادل کے طور پر آنے والے بھی کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔
مختلف مواقعوں پر آرمی چیف نے مبینہ طور پر آپ کی رہائی کو معافی معانگنے سے مشروط کیا، پھر مبینہ طور پر زمین کا یا ذاتی جھگڑا بھی قرار دیا۔ اس پر کیا کہیں گے؟
علی وزیر: میں تو تقریباً ڈیڑھ سال سے جیل میں ہوں۔ مجھ تک بھی ایسی معلومات ہی پہنچ رہی ہیں کہ پارلیمانی پارٹیوں کے ساتھ ان کیمرہ اجلاس میں معافی مانگنے کاکہا گیا۔ صحافیوں کے ساتھ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بتایا گیا، لمز میں زمین کے جھگڑے کا کہا گیا، اسی طرح ایک جگہ زمین پر قبضے کا بھی کچھ کہا گیا۔ یہ سارے مسائل تو جو بتائے جا رہے ہیں وہ وانا وزیرستان کے ہیں، لیکن انہوں نے مجھے کراچی جیل میں رکھا ہوا ہے۔ پھر ایسی باتیں کرتے ہوئے کم از کم شرم تو آنی چاہیے۔ اگر یہ دعوے سچے ہیں تو مجھے وہیں جیل میں رکھو، جہاں کے مسائل ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ان کے مختلف بہانے ہیں۔ ریاستی وسائل کے استعمال سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ جب میں باہر آؤں گا تو کیا بات کروں گا۔ یہ ہماری پر امن آوازوں سے خوفزدہ ہیں۔
کراچی میں پے در پے آپ کو تین مقدمات میں ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ عدالتی کارروائی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
علی وزیر: عدالتوں کے حوالے سے ہمیں پہلے سے ہی معلوم تھا کہ انصاف نہیں ملنا، اسی وجہ سے ہم نے پر امن عوامی جدوجہد کا راستہ چنا ہے۔ عدالت میں جو کارروائی چل رہی ہے، اس کے حوالے سے میں ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ کلفٹن والے مقدمہ میں مجھے انسداد دہشت گردی عدالت کی ایک خاتون جج نزہت آرا علوی نے اپنے چیمبر میں بلایا اور کہا کہ صرف دہشگردی کے پیچھے وردی والی بات سے انکار کر دو تو تمام مقدمات 15 روز میں ختم کر دینگے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ کا مجھے چیمبر میں بلانا ہی غلط اقدام ہے۔ فائل آپ کے سامنے ہے، اگر اس میں مجھ پر کوئی جرم ثابت ہوتا ہے تو میرے خلاف کارروائی کریں۔ یہ جو بات آپ کر رہی ہیں، یہ کہیں اور سے آرہی ہے۔
میں نے انہیں کہا کہ ہمیں انصاف کی کرسی سے انصاف کی توقع تھی لیکن یہ کردار دیکھ کر بہت افسوس ہو رہا ہے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ ہم پوری فوج کے خلاف نہیں ہیں، بحیثیت ادارہ آرمی کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم غلط کاموں اور پالیسیوں پر آواز اٹھاتے ہیں۔ یہ سب کچھ جو ہمارے ساتھ ہوا ہے، یہ امریکی سامراج اور ان کے مقامی حواریوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ آج بھی یہ امریکی سامراج کے خلاف آگے بڑھیں تو میں ہمیشہ فرنٹ لائن پر ہونگا، لیکن اگر عوام پر ہونے والے مظالم کا ازالہ کرنے کی بجائے ہمیں دبانے کی کوشش کی جائے گی تو پھر چاہے مجھے ساری عمر ہی جیل میں رکھ لیں تو بھی میں اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اور نہ ہی کوئی ہٹا سکتا ہے۔ انہوں نے بھی یہ بات تسلیم کی کہ یہ سب امریکہ کی لڑائی تھی، لیکن یہاں ان پالیسیوں کے سامنے سب بے بس ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، بلاول نے آپ کی رہائی کیلئے آواز بھی اٹھائی، لیکن مقدمات سندھ حکومت نے واپس نہیں لئے۔ جیل میں سہولیات دینے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ کس حد تک سہولیات دی جا رہی ہیں آپ کو؟
علی وزیر: پیپلز پارٹی کی جانب سے جیل میں مجھے کوئی سہولت نہیں دی گئی۔ بلاول مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں، انہوں نے کوئی سہولت نہیں دلوائی۔ مقدمات کے حوالے سے بھی پیپلز پارٹی کی اپنی اتنی برائیاں ہیں کہ وہ سکیورٹی اداروں کے معاملات میں کچھ بھی کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ یہ ضرور ہے کہ پیپلز پارٹی بھی اس طرح کے حالات سے گزری ہے، اس میں کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ تاہم یہ سب باتیں درست نہیں ہیں کہ وہ مجھے کوئی مدد یا سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ مجھے جو کچھ تھوڑی بہت سہولیات دی گئیں، وہ جیل انتظامیہ کی طرف سے ہی دی گئی ہیں، جن کی انہیں شاید سزا بھی بھگتنی پڑ رہی ہے۔
آپ کو ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے 4 سال ہونے کو ہیں۔ اس سارے عرصہ میں آپ کو حلقہ کیلئے کوئی ترقیاتی فنڈز بھی جاری ہوئے یا وفاقی و صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی ترقیاتی کام آپ کے حلقہ میں کروائے گئے ہیں؟
علی و زیر: جب سے میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوا ہوں، اس وقت سے آج تک ایک اینٹ بھی میرے حلقہ میں نہیں رکھی گئی۔ ایک فیصد بھی ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہیں۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے جو فنڈز حلقہ کیلئے جاری ہوتے ہیں وہ ممبر قومی اسمبلی کی بجائے وہاں پر فوج خود استعمال کرتی ہے۔ میرے حلقہ میں فی الحال لوگوں کے وجود اور زندگی کا مسئلہ درپیش ہے۔ ترقیاتی کاموں کی طرف لوگوں کی توجہ جانا بھی ممکن نہیں ہے، لیکن حکمران اتنے بے حس ہیں کہ وہ ہمیں بے یار و مدد گار ہی مرنے کیلئے چھوڑ چکے ہیں۔
اب ملک میں نئے الیکشن کا چرچا بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں دوبارہ عوام کے پاس جائیں گے اور الیکشن لڑیں گے؟
علی وزیر: اس پارلیمان اور ریاست کے اداروں کی حیثیت تو ہمیں پہلے سے ہی معلوم تھی۔ اب عام لوگوں کو بھی اصلیت معلوم ہو رہی ہے۔ میں اس پارلیمان میں پہلے بھی نہیں آنا چاہتا تھا، اب بھی میں اس پارلیمان کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ البتہ پہلے بھی میرے حلقے کے لوگوں کا اصرار تھا کہ میں انتخابات میں جاؤں اور مجھے کوئی مہم بھی نہیں چلانے دی گئی تھی۔ دہشت گردی کے حملے ہوئے، میرے ساتھیوں کوشہید کیا گیا۔ پھر یہ عوامی طاقت ہی تھی جس کی بنیاد پر ہم بے یار و مدد گار لوگ اس سرمائے کے نظام میں انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
اب بھی جب سے میں اسلام آباد آیا ہوں، تین چار روز سے میرے علاقے سے مسلسل عوامی جرگے کے وفود ملاقات کیلئے آ رہے ہیں۔ تمام ہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ مجھے پھر الیکشن کیلئے کھڑا ہونا ہو گا۔ یہاں تک کہ انہوں نے مجھے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر میں الیکشن نہیں لڑتا تو سب لوگ قبائلی لشکر لیکر میرے گھر بیٹھ جائیں گے۔ اس وقت ہمارے علاقے کے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی ترقیاتی کام نہیں چاہیے، بلکہ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ہماری آواز حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچائے۔ ہمیں اس موقف کی ضرورت ہے جس کے ذریعے سے ہم پر گزرے حالات اس ملک کے دیگر حصوں تک پہنچ سکیں۔ ہم نے اپنے وجود کو منوانے کی لڑائی لڑنی ہے۔ اس لئے میں ایک بار پھر عوام کے پاس ضرور جاؤں گا۔ اپنی اور اپنے لوگوں کی زندگیو ں کی بقاء کیلئے ہی ہم نے اتنی ساری قربانیاں دی ہیں۔ یہ سلسلہ آگے بھی جب تک زندہ ہیں جاری رکھیں گے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد سابق فاٹا کے علاقوں میں پھر دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کو ملنے والے وفود نے کیا معلومات فراہم کی ہیں؟
علی وزیر: میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ان دہشت گرد گروپوں کو اس علاقے پر مسلط کیا گیا ہے۔ ان گروہوں کے خلاف دنیا میں شاید اتنی نفرت کہیں نہیں کی جاتی ہے، جتنی ہمارے علاقے میں ان سے نفرت موجود ہے۔ ان کو اوپر سے مسلط کیا گیا ہے، باقی کوئی بات نہیں ہے۔ ریاست اپنی پالیسیوں تبدیل کرے۔ باقی سب چیزیں ہم پر چھوڑ دیں، ہم ہفتوں اور دنوں میں نہیں بلکہ منٹوں میں یہ مسائل حل کر دینگے اور امن قائم کر دینگے۔ ان کو بھگانے کیلئے ہمیں زیادہ وقت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ پالیسیاں ہیں جنہوں نے انہیں یہاں مسلط کیا ہے اور جونہی یہ پالیسیاں ختم ہونگی، ہمارے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔
موجودہ صورتحال میں نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کو مستقبل کی جدوجہد کے حوالے سے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
علی وزیر: میں نے جیل میں ملاقات کرنے والے ساتھیوں کو بھی یہی کہا تھا، ابھی بھی یہی کہنا چاہوں گا کہ نوجوانوں کو اپنا سیاسی اظہار کرنا ہو گا۔ مسائل جس قدر بڑھ گئے ہیں اور بے چینی میں جس قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ مواقع بار بار نہیں ملتے، اگر ایسے مواقع بار بار ہم سے چلے جاتے رہے تو ہم اپنا بہت زیادہ نقصان کر دینگے۔ ہمیں چھوٹے چھوٹے مسائل کو اجاگر کرنا ہو گا اور ملک بھر میں اپنی آواز بلند کرنا ہو گی۔ انقلابی ساتھیوں کو بھی رات بھر منصوبے بنا کر دن کے 4 بجے بستر سے اٹھنے والا سلسلہ ترک کرنا ہو گا۔ ہمیں میدان میں مسلسل موجود رہ کر اپنی موجودگی کا احساس دلانا ہو گا۔
اگر ہمارے جیسے پسماندہ ترین معاشرے میں لوگوں کا ذہن جدوجہد کیلئے بن گیا ہے تو پاکستان کے باقی حصوں میں نوجوان پڑھے لکھے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہاں صرف معاشی اور سماجی مسائل ہیں، ہمارے جیسے علاقوں میں مسائل کی نوعیت مزید سنگین اس لئے ہے کہ وہاں وجود کا مسئلہ درپیش ہے۔ تاہم ہمیں مسلسل آواز بلند کرتے رہنا ہو گا اور اپنی تیاری کا سلسلہ جاری رکھنا ہو گا۔ اپنی تیاری کا اظہار بغیر میدان میں آئے نہیں کیا جا سکتا۔ جب دو دشمن آپس میں لڑ لڑ کر تھک جائیں گے تو فیصلہ کن مرحلہ میں ہمیں موقع ملے گا۔ ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا بلکہ اس کو استعمال کرتے ہوئے اس نظام کو بدلنا ہے۔