سوچ بچار

منٹو، چچا سام اور قوم یوتھ کی ’سامراج دشمنی‘

ٹونی عثمان

عمران خان کو جب اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی نظر آئی تو انہوں نے اسے بیرونی سازش قرار دے دیا مگر انہوں نے ابتدائی طور پرکسی ایک خاص مْلک کانام نہ لیا۔ ایک تقریر میں امریکہ کا نام لیا پھر یوں تاثر دیا گویا زبان پھسل گئی تھی۔

عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد بیرونی سازش کو کھل کر امریکی سازش کا نام دیدیاگیا۔ قوم یوتھ نے اسے یوں لیا جیسے عمران خان سے پہلے کبھی کسی نے امریکہ کے خلاف بات نہیں کی۔ قوم یوتھ کے افراداپنے آپ کوپڑھا لکھا کہتے ہیں مگر معلوم نہیں انہوں نے اردو کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب سعادت حسن منٹو کو پڑھا ہے یا نہیں۔ منٹو نے پی ٹی آئی کے بننے سے بہت سال پہلے ہی امریکی سامراج کے خلاف آواز بلند کر دی تھی۔

انہوں نے دسمبر 1951ء سے لے کر اپریل 1954ء تک کے عرصہ میں چچا سام کے نام 9 خطوط لکھے۔ یہ خطوط نہ صرف طنزومزاح سے بھرپور تفریح مہیا کرتے ہیں بلکہ یہ عالمی سیاسی حالات نیز ”چچا“ (امریکہ) اور ”بھتیجا“ (پاکستان) کے درمیان رشتہ کو سمجھنے میں بھی مددگار ہیں۔

اپنے چوتھے خط میں انہوں نے پاکستان میں اسلامی بنیاد پرستی کے عروج کی پیش گوئی کی اور افغانستان میں ملاؤں کو امریکہ کی طرف سے مسلح کرنے سے دو دھائیاں قبل لکھا: ”آپکو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے استحکام کی بہت زیادہ فکر ہے اور کیوں نہ ہواس لئے کہ یہاں کا ملا روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ ہے۔“

منٹو طنز و مزاح کے بہت بڑے استادتھے اور اگر آج کے دور میں وہ ہوتے تو ایک سابق پلے بوائے کے ہاتھوں میں تسبیح اور ریاست مدینہ کی امریکہ کے ساتھ وقتی طور پر نقلی دشمنی پر ایسا کچھ لکھتے کہ پی ٹی آئی والے پہلی ہی فرصت میں انہیں ”غدار“ اور ”امریکی ایجنٹ“ کا لقب دے دیتے۔

قوم یوتھ کی توجہ کے لئے ذیل میں منٹو کا ”چچا سام کے نام چوتھا خط“ اس خواہش کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ قوم یوتھ نقلی سے اصلی سامراج دشمنی پر آ جائے:

۱۳ لکشمی مینشنز
ہال روڈ، لاہور، پاکستان

چچا جان۔ آداب و نیاز!

ابھی چند روز ہوئے میں نے آپ کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا تھا۔ اب یہ دوسرا لکھ رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جوں جوں آپ کی پاکستان کو فوجی امداد دینے کی بات پختہ ہو رہی ہے، میری عقیدت اور سعادت مندی بڑھ رہی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کو ہر روز خط لکھا کروں۔ ہندوستان لاکھ ٹاپا کرئے۔ آپ پاکستان سے فوجی امداد کا معاہدہ ضرور کریں گے۔ اس لئے کہ آپ کو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے استحکام کی بہت زیادہ فکر ہے اور کیوں نہ ہو۔ اس لئے کہ یہاں کا ملا روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ ہے۔ فوجی امداد کا سلسلہ شروع ہو گیا تو آپ سب سے پہلے ان ملاؤں کو مسلح کیجئے گا۔ ان کے لئے خالص امریکی ڈھیلے، خالص امریکی تسبیحیں اور خالص امریکی جائے نمازیں روانہ کیجئے گا۔ استروں اور قینچیوں کو سر فہرست رکھیئے گا۔ خالص امریکی خضاب لاجواب کا نسخہ بھی اگر آپ نے ان کو مرحمت کر دیا تو سمجھئے پوبارہ ہیں۔

فوجی امداد کا مقصد جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان ملاؤں کو مسلح کرنا ہے۔ میں آپ کا پاکستانی بھتیجا ہوں، مگر آپ کی سب رمزیں سمجھتا ہوں، لیکن عقل کی یہ ارزانی آپ ہی کی سیاسیات کی عطا کردہ ہے (خدا اسے نظر بد سے بچائے)۔ ملاؤں کا یہ فرقہ امریکی اسٹائل میں مسلح ہو گیا تو سویٹ روس کو یہاں سے اپنا پاندان اٹھانا ہی پڑے گا جس کی کلیوں تک میں کمیونزم اور سوشلزم گھلے ہوتے ہیں۔ امریکی اوزاروں سے کتری ہوئی لبیں ہوں گی۔ امریکی مشینوں سے سلے ہوئے شرعی پیجامے ہوں گے۔ امریکی مٹی کے ”ان ٹچڈ بائی ہینڈ“ قسم کے ڈھیلے ہوں گے، امریکی رحلیں اور امریکی جائے نمازیں ہوں گی…بس آپ دیکھئے گا چاروں طرف آپ ہی کے نام کے تسبیح خواں ہوں گے۔

یہاں کے نچلے نچلے اور نچلے درمیانی طبقے کو اوپر اٹھانے کی کوشش تو ظاہر ہے کہ آپ خوب کریں گے۔ بھرتی انہیں دو طبقوں سے شروع ہو گی۔ دفتروں میں چپراسی اور کلرک بھی یہیں سے چنے جائیں گے۔ تنخواہیں امریکی اسکیل کی ہوں گی۔ جب ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں گی اور سر کڑا ہے میں تو کمیونزم کا بھوت دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ بھرتی کا سلسلہ شروع ہو۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن آپ کا کوئی سپاہی ادھر نہیں آنا چاہئے۔ میں یہ ہر گز نہیں دیکھ سکتا کہ ہماری پاکستانی لڑکیاں اپنے جوانوں کو چھوڑ کر آپ کے سپاہیوں کے ساتھ چہکتی پھریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ یہاں خوبصورت اور تنومند امریکی نوجوان بھیجیں گے لیکن میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہمارا اوپر کا طبقہ ہر قسم کی بے غیرتی قبول کر سکتا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے دیدے آپ کی لانڈریوں میں دھلوا چکا ہے، مگر یہاں کا نچلا نچلا اور نچلا درمیانی طبقہ ایسی کوئی چیز برداشت نہیں کریگا۔

البتہ آپ وہاں سے امریکی لڑکیاں روانہ کر سکتے ہیں، جو ہمارے جوانوں کی مرہم پٹی کریں۔ ان کو رقص کرنا سکھائیں۔ کھلم کھلا بوسے لینے کی تعلیم دیں۔ ان کی جھینپ دور کریں۔ اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے۔ آپ اپنے ایک فلم ”بیدنگ بیوٹی“ میں اپنی سیکڑوں لڑکیوں کی ننگی اور گداز ٹانگیں دکھا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسی ٹانگیں پیدا کیجئے تاکہ ہم بھی اپنے اکلوتے فلم سٹوڈیو ”شاہ نور“ میں ایک ایسی فلم بنائیں اور ”اپوا“ والوں کو دکھائیں تاکہ انہیں کچھ مسرت ہو۔

ہاں، ہمارے یہاں ”اپوا“ ایک عجیب و غریب شے تخلیق ہوئی ہے جو بڑے آدمیوں کی بڑی بہو بیٹیوں کے شغل کا دلچسپ نتیجہ ہے۔ یہ آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن کا مخفف نام ہے۔ اس میں اور زیادہ تخفیف کی گنجائش نہیں، لیکن کوشش ضرور ہو رہی ہے جو آپ کو ان مائل بہ تخفیف بلاؤزوں میں نظر آ سکتی ہے جن میں سے ان کے پہننے والیوں کے پیٹ باہر جھانکتے نظر آتے ہیں۔ ابھی ابتدا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہ بلاؤز عام طور پر چالیس برس سے اوپر کی عورتیں استعمال کرتی ہیں جن کے پیٹ کئی مرتبہ کلبوت چڑھ چکے ہوتے ہیں…چچا جان میں عورت کے پیٹ پر خواہ وہ امریکی ہو یا پاکستانی اور سب کچھ دیکھ سکتا ہوں مگر اس پر جھریاں نہیں دیکھ سکتا۔

”اپوا“ والیاں تخفیف لباس کے متعلق ہر وقت سوچنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ انہیں کوئی آزمودہ نسخے بتائے۔ آپ کے یہاں پینسٹھ پینسٹھ برس کی بڈھیاں اپنے پیٹ دکھاتی ہیں، مگر ان پر مجال ہے جو ایک جھری بھی نظر آ جائے۔ معلوم نہیں وہ منہ زبانی بچے پیدا کرتی ہیں یا انہیں کوئی ایسا گر معلوم ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ بہرحال اگر آپ کو یہاں تخفیف لباس چاہیے تو ہالی وڈ کے چند ماہرین یہاں روانہ کر دیجئے۔ آپ کے یہاں پلاسٹک سرجری کا فن عروج پر ہے۔ فی الحال ایسے نصف درجن سرجن یہاں بھیج دیجئے جو ہماری بڈھیوں کو لال لگام کے قابل بنا دیں۔

مقفیٰ شاعری کا زمانہ تھا تو ہمارے یہاں معشوق کی کمر ہی نہیں تھی۔ اب غیر مقفیٰ شاعری کا دور ہے مگر یہ ایسا الٹا پڑا ہے کہ اب معشوق کی ناپید کمر کچھ اس طرح ناپید ہوئی ہے کہ اسے دیکھو تو سارا معشوق اس کے پیچھے غائب ہو جاتا ہے۔ پہلے یہ حیرت ہوتی تھی کہ وہ ازار بند کہاں باندھتا ہے۔ اب یہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس درخت کا تنا ہے جس کے ارد گرد اس غریب کو باندھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آپ مہربانی فرما کر بنفس نفیس یہاں تشریف لایئے اور فوجی معاہدہ کرنے سے پہلے اس بات کا فیصلہ کیجئے گا کہ یہاں معشوق کی کمر ہونی چاہیئے یا نہیں۔ اس لئے کہ فوجی نقطہ نگاہ سے یہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔

ایک بات اور…آپ کے فلم ساز ہندوستانی صنعت فلم سازی سے بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ پچھلے دنوں گریگری پک ہندوستان پہنچا ہوا تھا۔ اس نے فلم اسٹار ثریا کے ساتھ تصویر کھنچوائی۔ اس کے حسن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے۔ پچھلے دنوں سنا تھا کہ ایک امریکی فلم ساز نے نرگس کے گلے میں بازو ڈال کر اس کا بوسہ بھی لیا تھا…یہ کتنی بڑی زیادتی ہے۔ ہمارے پاکستان کی ایکٹرسیں مر گئی ہیں کیا؟ گلشن آرا موجود ہے۔ یہ جدا بات ہے کہ اس کا رنگ توے کی مانند کالا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ گلشن پر آرا چلا ہوا ہے لیکن ہے تو ایکٹریس۔ کئی فلموں کی ہیروئن ہے اور اپنے پہلو میں دل بھی رکھتی ہے۔ صبیحہ ہے، یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کی ایک آنکھ تھوڑی سی بھینگی ہے، مگر آپ کی ذرا سی توجہ سے درست ہو سکتی ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ آپ ہندوستانی فلم سازوں کو مالی امداد بھی دے رہے ہیں۔ چچا جان یہ کیا ہر جائی پنا ہے یعنی جو للو پنجو آتا ہے اس کو آپ مدد دینا شروع کر دیتے ہیں۔

آپ کا گریگری پک جائے جہنم میں (معاف کیجئے مجھے غصہ آ گیا ہے)۔ آپ اپنی دو تین ایکٹرسیں یہاں بھیج دیجئے۔ اس لئے کہ ہمارا اکلوتا ہیرو سنتوش کمار بہت اداس ہے۔ پچھلے دنوں وہ کراچی گیا تھا تو اس نے کو کو کولا کی سو بوتلیں پی کر ریٹا بے ورتھ کو خواب میں ایک ہزار مرتبہ دیکھا تھا۔

مجھے لپ اسٹک کے متعلق بھی آپ سے کچھ عرض کرنا ہے۔ وہ جو ’کس پروف‘ لپ اسٹک آپ نے بھیجی تھی، ہمارے اونچے طبقے میں بالکل مقبول نہیں ہوئی۔ لڑکیوں اور بڈھیوں کا کہنا ہے کہ یہ محض نام ہی کی ”کس پروف“ ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کا کسنگ کا طریقہ ہی غلط ہے۔ میں نے دیکھا ہے لوگوں کو یہ شغل فرماتے ہوئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تربوز کی پھانک کھا رہے ہیں۔ آپ کے یہاں ایک کتاب چھپی تھی جس کا عنوان ”بوسہ لینے کا فن“ تھا، مگر معاف کیجئے کتاب پڑھ کر آدمی کچھ بھی نہیں سیکھ سکتا۔ آپ وہاں سے فوراً بذریعہ ہوائی جہاز ایک امریکی خاتون روانہ کر دیجئے۔ جو ہمارے اونچے طبقے پر تربوز کھانے اور بوسہ لینے میں جو فرق ہے، بطریق احسن واضح کر دے۔ نچلے نچلے اور نچلے درمیانی طبقے کو یہ فرق بتانے کی کوئی ضرورت نہیں اس لئے کہ وہ ان تکلفات سے ہمیشہ بے نیاز رہا ہے اور ہمیشہ بے نیاز رہے گا۔

آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ میرا معدہ اب کسی حد تک آپ کے امریکی گندم کا عادی ہو گیا ہے۔ اب اسے ہمارے یہاں کی آب و ہوا راس آنی شروع ہو گئی ہے کیونکہ اب اس کے آٹے نے پاکستان اسٹائل کی روٹیوں اور چپاتیوں کی شکل اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ میرا خیال ہے خیر سگالی کے طور پر آپ یہاں کے گندم کا بیج اپنے ہاں منگوالیں۔ آپ کی مٹی بڑی زرخیز ہے، اس اختلاط سے جو امریکی پاکستانی گندم پیدا ہو گا بڑی خوبیوں کا حا مل ہو گا۔ ہو سکتا ہے کوئی نیا آدم پیدا ہو جائے جس کی اولاد ہم اور آپ سے مختلف ہو۔

میں آپ سے ایک راز کی بات پوچھتا ہوں۔ پچھلے دنوں میں نے یہ خبر پڑھی تھی کہ نئی دلی میں بھارت کی دیویاں رات کو اپنے بالوں میں چھوٹے چھوٹے قمقمے لگا کر گھومتی ہیں جو بیٹری سے روشن ہوتے ہیں۔ خبر میں یہ بھی لکھا تھا کہ بعض دیویاں اپنے بلاؤزوں کے اندر بھی ایسے قمقمے لگاتی ہیں تاکہ ان کا اندر باہر روشن رہے…یہ اپج کہیں آپ ہی کی تو نہیں تھی…؟ اگر تھی تو چچا جان سبحان اللہ! میرا خیال ہے اب آپ انہیں ایسا سفوف تیار کر کے بھیجیں جس کے کھانے سے ان کا سارا بدن روشن ہو جایا کرے اور کپڑوں سے باہر نکل نکل کر اشارے کیا کرے۔

پنڈت جواہر لال نہرو پرانے خیالات کے آدمی ہیں اور اس باپو کے شاگرد ہیں جس نے نوجوانوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی آنکھوں پر ایسا شیڈ یا ہڈ استعمال کیا کریں جو انہیں نظر بازی سے روکا کرے۔ پچھلے دنوں انہوں نے اپنی دیویوں کو یہ تلقین کی تھی کہ وہ اپنے ستر کا خیال رکھا کریں اور میک اپ سے پرہیز کیا کریں، مگر ان کو کون سنے گا۔ البتہ ہالی وڈ کی آواز سننے کے لئے یہ دیویاں ہر وقت تیار ہیں…آپ یہ سفوف وہاں ضرور روانہ کریں۔ پنڈت جی کا ردعمل کافی پرلطف ہوگا۔ میں اس لفافے میں آپ کو ایک تصویر بھیج رہا ہوں۔ یہ پاکستانی خاتون کی ہے جس نے بمبئی کی مچھیرنوں کی چولی کا سا بلاؤز پہنا ہوا ہے۔ اس میں سے اس کے پیٹ کا تھوڑا سا نچلا حصہ جھانک رہا ہے۔ یہ آپ کی خواتین کے ننگے پیٹوں کو ایک عدد پاکستانی گدگدی ہے۔

گر قبول افتد زہے عزو شرف

آپ کا برخوردار بھتیجا

سعادت حسن منٹو

۲۱ فروری ۱۹۵۴ء

Toni Usman
+ posts

ٹونی عثمان اداکار، ہدایت کار اور ڈرامہ نویس ہیں۔ ’جدوجہد‘ کے پرانے ساتھی ہیں اور’مزدور جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔