سوچ بچار

آئین کی جیت

ثوبی بتول

میں اس وقت احمریں چوک میں کھڑا تھا۔ پہاڑیوں کی گود میں چھوٹے سے شہر کا یہ سب سے بڑا چوک ہے۔ اس چھوٹے سے شہر کے اطراف میں موجود پہاڑیاں اس شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں اور بزرگوں کے نزدیک یہ پہاڑیاں غیر ملکی حملہ آوروں سے بچاتی ہیں۔ اگرچہ اب زمانہ ارتقا کی منازل طے کر چکا ہے اور غیر ملکی حملہ آور ٹولیوں اور جتھوں کی صورت شہروں کی فصیلیں توڑ کر بے گناھوں کے لاشے نہیں گراتے، آبرؤیں نہیں لوٹتے، اب بادشاہت کی رقابت میں معصوم اور خوبصورت شہزادوں کو سلائی پھیر کر اندھا نہیں کیا جاتا، حافظ قرآن معصوموں کی لاشوں پر دستر خوان بچھا کر کھانا نہیں کھایا جاتا، سرداروں اور وڈیروں سے بغاوت پر سرعام کوڑے نہیں لگائے جاتے۔ ظلم کی یہ تمام شکلیں دفن ہو چکی ہیں مگر محنت کش، معصوم اور بے گناہ لوگوں کو دئیے جانے والے زخموں کی شکل بدل کر نئی نئی اشکال ابھر آئی ہیں۔ وہ مزدور جو مٹی کے برتن بنا کر اپنی مہارت اور فن کاری پر اتراتا تھا۔ اس کی جگہ برتن بنانے کا وہی کام کارخانے نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ وہی کام اب پانچ سو مزدوروں سے لیا جاتا ہے۔ اسکی فنکاری اور مہارت اس سے چھین لی گئی ہے۔ اسے اجرتی غلامی کے نوکیلے شکنجے میں جکڑلیا گیا ہے۔
دنیا گوبل ویلیج بن گئی ہے۔ بلکہ اب تو اس سے بھی بات آگے نکل چکی ہے۔ اب ہمیں اس سے بہتر کسی اصطلاح پہ غور کرنا چاہیے۔ اب ڈاکو جتھوں اور ٹولیوں کی صورت میں حملہ آور ہونے کے بجائے پرامن طریقے سے ایک منظم نظام کی صورت میں معصوم عوام کو غربت میں دھکیلتے ھیں اور انہیں اپنی اولادیں بیچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
یہ شہر اس لیے بھی مشہور ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں کو کاروبار سے زیادہ دلچسپی سیاست میں ہے۔ اگرچہ یہاں کی عوام کا کسی حکومتی پالیسی کی ہمایت کرنے یا رد کرنے کا کوئی اختیار نہیں مگرپھر بھی عموماً دیکھا جاتا ہے کہ قصائی سے لے کر بوریاں ڈھونے والا پلے داروں تک ملک کے اہل و نااہل حکمرانوں کو کوستے اور انکے بدلتے اقتدار پر بحث کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ فروری کا مہینہ ہے۔ پہاڑیوں کے اوپر نیلے آسمان پر بادل تیرتے یوں لگتے ہیں جیسے نیلے سمندر میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں تیر رہی ہوں۔ چوک میں عوام کا جم غفیر امڈ پڑا تھا جو بے نظم اور بے ترتیب تھا۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہونے پر فخر کرتا ہے وہ ظلم و جبر، استحصال اور بے نظمی میں اس کرۂ ارض کی دوسری تمام مخلوقات کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
دیکھا جاتا ہے کہ جو چیونٹیاں انسان کے نزدیک حقیر ہوتی ہیں وہ لائن بنا کر بے حد نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتی ہیں حتیٰ کہ بھیڑ بکریاں بھی اکثر نظم و ضبط کا خیال رکھتی ہیں اور دھکم پیل اور دل آزاری سے گریز کرتی ہیں۔
حب الوطنی کے ترانوں اور عوام کے پرجوش نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔ ڈھول پیٹا جا رہا تھا، پٹاخے پھوڑے جا رہے تھے۔ سوائے چند اکتائے چہروں کے سبھی اپنے غم و پریشانیاں، دکھ درد، بھوک اور تھکن بھلائے جشن میں بھنگڑا ڈال رہے تھے۔ لٹھے کے کپڑے پہنے لمبے بالوں والے چہرے، گلے میں زنجیریں ڈالے نوجوان، سر پر جھنڈے باندھے ہوئے پختہ عمر کے آدمی، چند معمول کے کپڑوں میں ملبوس ڈرائیور جن کے چہروں سے تھکاوٹ عیاں ہو رہی تھی، رونقِ جشن تھے۔
آج کا یہ جشن اپوزیشن کا تھا یعنی موجودہ حکومت کے مخالفین کا۔ اپوزیشن نے موجود حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کروائی تھی۔ اسمبلی نے آئین شکنی کرتے ھوئے عدم اعتماد کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ حکومت کے خلاف دیا اور آئین اور اپوزیشن کی جیت ہوئی۔ اسی جیت کی خوشی میں یہ جشن منایا جا رہا تھا۔
ان تمام چہروں میں ایک چہرہ بار بار میری توجہ کا مرکز بن رہا تھا۔ یہ چہرہ ایک نوجوان کا تھا جس کی عمر بمشکل تیس بتیس سال کی ہوئی ہو گی۔ سنجیدہ چہرہ، نفیس لباس، تھوڑے لمبے بال جو ماتھے سے پیچھے کئے ہوئے تھے جسکے باعث ماتھے کی خدوحا ل واضح تھے اور کشادہ ماتھے پر پڑی تیوریاں دور سے نظر آ رہی تھیں۔ خوش قامت و خوش شکل یہ نوجوان جس کے ھونٹوں پہ طنزیہ مسکراہٹ تھی گاڑی سے ٹیک لگائے مجمع کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس طرف دیکھا جدھر وہ دیکھ رہا تھا ادھر نوجوان بھنگڑا ڈال رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے نزدیک یہ بھنگڑا ڈالتی، ڈھول پیٹتی، پٹاخے پھوڑتی عوام بے خبر اور بے وقوف ہے۔ میں نے اس نوجوان کی طرف جانے کے لیے جونہی قدم بڑھائے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ندیم کھڑا مسکرا رہا تھا۔
سفید پینٹ شرٹ اور کالے رنگ کا کوٹ اور کالے جوتوں میں ندیم ہاشمی وجاہت سے بھرپور خوبصورت اور پرکشش لگ رہا تھا۔ سن گلاسز کی وجہ سے اسکی شریر اور گہری بھوری آنکھیں جو اسکی مسکراہٹ کی طرح شریر اور معصوم تھیں چھپی ہوئیں تھیں۔ ندیم میرا سب سے اچھا دوست ہے۔ہم دونوں نے اکٹھے ایل ایل بی کی ڈگری لی ہے اور ہمارا پریکٹس سیشن جاری ہے۔ ہم دونوں کا وقت زیادہ تر اکٹھے ہی گزرتا ہے۔
ہم دونوں اس وقت بھی تقریباً ایک جیسے لباس میں ملبوس تھے۔ ندیم ہمیشہ کی طرح وجیہہ او شوخ نظر آ رہا تھا۔ مجھے لوگوں کے چہرے پڑھنے، فطرت کے کچھ حسین مناظر، چند کہانیاں اور کچھ اشعار قلمبند کرنے کی عادت ہے۔ جبکہ میرا دوست ان تمام چیزوں سے نابلد ہے۔ وہ اکثر مجھ سے پوچھتا ھے کہ تمہیں امڈتے ہجوم، ڈھلتے چاند، لوگوں کے چہروں اور اڑتے پرندوں میں کیا دلچسپی ہوتی ہے۔ حلانکہ یہ تو معمول کی چیزیں ہیں ازل سے ہیں اور ابد تک موجود رہیں گی۔
اسے کیا معلوم کہ ہجوم کیوں امڈ آتے ہیں، چوک اور چوراہے کیوں بند کر دئے جاتے ہیں؟ وہ خدا کے نائب جو لوگوں کی آس ہوتے ہیں جب وہ لوگوں کو روٹی کے نوالے کے لیے ترسنے پہ مجبور کر دیتے ہیں، جب وہ ظلم و ستم کی انتہا کر دیتے ہیں تب، تب عوام کا سمندر چوکوں اور چوراہوں پر امڈ آتا ہے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے بغاوت کا علم بلند کرتا ہے۔ تب، تب زمینی خداؤں کے بنائے ہوئے جھوٹے کالے قانون، ان کی بنائی ہوئی آہنی سلاخیں اور بلند و بالا فصیلیں اس عوام کے سمندر کے جذبات سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں۔
یا وہ امڈتا ہجوم جو زمینی خداؤں کے تبادلے پراپنی غلامی میں بے خبر چوکوں اور چوراہوں پر جشن مناتا اور بھنگڑے ڈالتا ہے۔ اس ہجوم میں بھی کئی چہرے ایسے ھوتے ہیں جو اپنی الگ نوعیت کی داستان سنا رہے ہوتے ہیں۔
اور اسے کیا معلوم کہ ڈھلتے چاند کے ساتھ کچھ لوگوں کی آسیں ڈھل جاتی ہیں اور کچھ امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں جن کو نئے سرے سے جنم لینا پڑتا ہے۔ اور کچھ لوگوں کی آسیں اور امیدیں ڈھلتے چاند کے ساتھ مضبوط ہو جاتی ہیں۔ اور وہ اس امید پر پرسکون ہو جاتے ہیں کہ آنے والا دن ان کے لیے نئے مواقع لائے گا، ان کی لیے نئی خوشیاں لائے گا، ان کی اذیت اور تھکان کو تازگی میں بدل دے گا اور اکتاہٹ سے بھری زندگیوں میں خوشیوں اور شوخیوں کے خوبصورت رنگ بھر دے گا۔
فطرت تو سکون کا دوسرا نام ہے فطرت کے چند حسین مناظر ہی ہوتے ہیں جو انسان کی پریشان زندگی میں چند لمحے خاموشی اور سکون کے لاتے ہیں۔ خنک ہوا جب پتوں میں سرسراتی ہے اور پتوں میں ایک ساز چھیڑ دیتی ہے تو اس لمحے وہ ساز دنیا کی سبھی تکلیفوں کو بھلا کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں اور سبھی دکھوں اور تکلیفوں کو تحلیل کر دیتے ہیں۔ ان چند حسین لمحات میں انسان کو اپنے اور فطرت کے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
کچھ کہانیاں اور چند اشعار قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جو ذہنوں پر ان مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں اور سوچوں کا زاویہ بدل دیتے ہیں۔ نئی تحریکوں، نئی امیدوں، نئے راستوں، نئی سمتوں اور نئی منزلوں کا تعین کرتے ہیں۔ کچھ ڈولتی ہوئی امیدوں کو ہموار کرتے ہیں، کچھ ٹوٹتے سہاروں اور ٹوٹتے دلوں کو جوڑتے ہیں اور دکھی دلوں کی آواز بنتے ہیں۔
ندیم نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔
”ہاں جی۔ ایڈوکیٹ صاحب! سنائیے۔؟ کیسا محسوس کر رہے ہیں آپ؟“
ندیم نے شریر مسکراہٹ سے مجھ سے پوچھا۔
”آپکی دعا سے بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ اور اس بات پر فخر اور خوشی ہو رہی ہے کہ آج ہمارے مقدس آئین کے حق میں فیصلہ دیا گیا ہے اور اسکی شقوں پر عمل کیا گیا ہے۔“
میں نے خوشی سے بتایا۔
”دیکھئے ناں۔ ہمارے ملک کی عوام نے ایسے لیڈر کا انتخاب کیا ہے۔ جسے عوام اور ملک کے مستقبل سے زیادہ فکر اور ہوس اپنے اقتدار کی ہے۔ اس کے نزدیک آئین اور قانون محض مذاق ہیں۔ حالانکہ آرٹیکل چھ میں صاف صاف لکھا گیا ہے کہ آئین شکنی کرنے والا غدار ہوتا ہے۔ ایسے حکمران کے حوالے اٹھارہ کروڑ عوام کا مستقبل کیا گیا ہے جو آئین اور قانون سے بے خبر اپنے پروٹوکول اور لگڑری کا زیادہ شوقین ہے۔“
ندیم نے تفصیلاً تبصرہ کرتے ہوئے بات کو جاری رکھا۔
”عوام دراصل بے وقوف اور بے شعور ہے۔ یہ عوام اس جانور کی مانند ہے۔ جسے لاٹھی سے جدھر چاہے ہانک لیا جائے۔ عوام جاہل ہوتی ہے۔ سیاسی بیداری تو دور کی بات ہے۔ عوام کو محض چند سکوں کا لالچ دے کر خریدا جا سکتا ہے۔ دیکھ لیجیے یہ عوام جاہل نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ یہاں بھنگڑا ڈال رہے ہیں۔ ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ اکثریت ایسی ہے جس کو پیسوں کے عوض یہاں لایا گیا ہے۔ جب حکمران آئین سے ناآشنا ہیں تو اس عوام سے کیا امید کی جائے۔“
میں نے کوٹ ایک بازو سے دوسرے پر منتقل کرتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔
”ہاں ٹھیک کہتے ہو۔ مگر اب دنیا بدل گئی ہے۔ ایک وہ دور تھا جب عوام دنیا سے بے خبر رھتی تھی۔ فرد اپنے محلے کو چھوڑ کر باقی دنیا سے کٹا رہتا تھا۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔
چھوٹی سی خبر بھی جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔
لوگ پہلے سے زیادہ باخبر ہو گئے ہیں۔ وہ بھی دن تھے جب انسان روٹی کپڑے کے لیے زندہ رہتا تھا۔ لیکن اب دیکھیں انسان روٹی کپڑے کی سوچ سے آزاد ہو کر مستقبل کے لیے سوچ رہے ہیں، خوشحالی اور بہتری کے لیے سوچ رہے ہیں۔ مقابلے کی دوڑ میں ہر انسان شامل ہو گیا ہے۔ بچے سے لے کر بوڑھوں تک سب اسی دوڑ کا حصہ ہیں۔ یہی دوڑ ہے جو زندگی کو رونق بخشے ہوئے ہے۔
یہی تو فطرت کے قوانین ہیں۔ زمانہ حال اور مستقبل میں بدلتا ہے اور مستقبل گزرے ہوئے ماضی سے بہتر ماضی لاتا ہے۔“ میں نے بات کو سمیٹنے ہوئے کہا۔
”چلو سامنے والے ہوٹل پر چلتے ہیں۔ سنا ہے یہاں کی چائے بہت مشہور ہے۔ مگر آج تک پینے کا اتفاق نہیں ہوا۔ باقی باتیں وہاں ہی کرتے ہیں۔“
”ہاں۔ ہاں چلو۔“

ندیم نے ہوٹل کی جانب قدم بڑھائے۔
میں نے سامنے اس نوجوان کو دیکھنے کی کوشش کی پر لگتا تھا شاید وہ بھیڑ میں کھو گیاتھا۔ میں نے اِدھر ادھر نظر دوڑائی تو وہ مجھے تھوڑے فاصلے پر نظر آیا۔ اس کے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے اور سنجیدہ چہرے پر غصہ تھا۔ وہ میری طرف ہی دیکھ رہا تھا گویا اس نے ہماری ساری باتیں سن لی تھی۔ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ اور اپنائیت سے اس کی طرف دیکھا اور ہوٹل کے اندر چلا گیا جہاں ندیم میراانتظار کر رہا تھا۔
ہوٹل میں خوب گہما گہمی تھی۔ بھوک کو بھڑاتے کھانوں خوشبو، گرم گرم چائے کی مہک اور ہوٹل کی نفاست لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ ندیم کھڑکی کے پاس ایک میز کے ارد گرد لگی پانچ کرسیوں میں سے ایک پر براجمان کسی کال پر مصروف نظر آ رہا تھا۔ میرے بیٹھتے ہی ویٹر ہمارے پاس آیا اور معمول کے لہجے میں بولا۔
”جی صاحب۔ کیا لیں گے آپ؟“
”کیا ہے کھانے میں؟“
ندیم نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے تو بھوک لگ رہی ہے۔ کھانے کی خوشبو سے محسوس ہو رہا ہے کہ کھانالذیذ ہو گا۔ کیا خیال ہے؟ منگوا لیں کچھ؟“
”صاحب۔ ہمارے ہوٹل کاکھانا بہت مشہور ہے اور خاص کر شرفو استاد کے ہاتھ کے بنے لوبیا چاول ایک بار کھا لیں آپ فائیو سٹار کو بھول جائیں گے۔“
ویٹر نے پرجوش ہوتے ہوئے بتایا۔
”ہاں بھئی۔ لے آؤ کچھ مجھے بھی بھوک محسوس ہو رہی ہے۔“
ویٹر نے اور کھانوں کے نام بھی بتائے لیکن ہم نے چاول اور لوبیا کی دال کا آرڈر ہی نوٹ کرایا۔
”ہاں تو کیا کہ رہے تھے تم؟“
میں نے ندیم سے پوچھا۔
ندیم نے بات کرنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ویٹر اسی نوجوان اور اس کے ایک دوست کو لیے ہمارے پاس آیا اور بولا۔
”صاحب۔ اگر آپ لوگ برا نہ منائیں تو یہ صاحب لوگ آپ کے پاس بیٹھ سکتے ہیں کیا؟وہ کیا ہے ناں کہ کوئی اور میز خالی نہیں۔“
”ہاں۔ ہاں کیوں نہیں ضرور تشریف رکھیں آپ لوگ۔“
میں نے ندیم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ان کو بٹھا دیا۔
میں نے نوجوان سے مصافحہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟“
نوجوان نے اپنا نام احمد اور اپنے دوست کا نام مزمل بتایا۔
میں نے اپنا اور اپنے دوست کا نام بتاتے ہوئے کہا۔
”ہم دونوں بچپن کے دوست ہیں۔ اور ہم نے حال ہی میں لا کی ڈگری کی ہے اور اب پریکٹس جاری ہے۔“
مزمل ہمیں دیکھ کے اپنائیت سے مسکرایا جبکہ احمد کے چہرے پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔
میں نے احمد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”آج ہمارے آئین کی مقصدیت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟ کیسا محسوس کر رہے ہیں آپ؟“
احمد کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ گویا ہوا۔
”پہلے تو میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔ کہ میں نے باہر آپ لوگوں کی طویل گفتگو سن لی ہے۔ یہ شاید غلط بات ہے لیکن یقین جانئے میرا مقصد ایسا ہر گز نہیں تھا۔ میں اپنے کام سے جا رہا تھا کہ آپ کی باتیں میری سماعتوں کی نذر ہو گئیں۔“
اس نے نپے تلے الفاظ میں معذرت کی۔ مجھے اس کی اپنائیت اور معذرت کے درمیان گہرا طنز محسوس ہوا جبکہ ندیم کی بھویں تن گئی۔
”کوئی بات نہیں اب جب آپ نے ہماری گفتگو سن ہی لی۔ توآپ یقیناً ہمارے خیالات اور آرا سے آشنا ہو گئے ہوں گے۔ تو کیا خیال ہے آپ کا ہماری گفتگو اور آئین کی جیت کے بارے میں؟“
میں نے اپنا سوال دہرایا۔
ندیم نے مجھے آنکھوں کے اشارے سے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”کیوں اس کے پیچھے پڑ گئے ہو؟“
”دیکھئے۔ میں نے آپ کی گفتگو سنی ہے۔ آپ کی زیادہ تر باتوں نے مجھے زک پہنچائی ہے اور میں آپکی کسی بات سے بھی اتفاق نہیں کرتا۔“
احمد نے سخت لہجے میں کہا۔
”جو باتیں ہم نے کہ وہ حقائق تھے آپ کھل کر بتائیں۔“ ندیم نے سنجیدگی سے کہا۔
”بے شک ہوں گے حقائق آپ کے نزدیک مگر جیسے آپ اپنی نظر سے دنیا، اس کے قوانین اور بدلتے وقت کے بارے میں اپنی آرا قائم کریں گے۔ دنیا ویسی تو نہیں ہو جائے گی۔ یہ دنیا ہم سب سے پہلے بھی موجود تھی اور ہمارے بعد بھی چلتی رہے گی اور ہر بندہ اپنے حالات کے مطابق دنیا کو دیکھتا ہے۔ اگر آپ امیر ہیں تو دنیا آپ کو رنگین، جوان اور رقص کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور اگر غریب ہیں تو وہی دنیا بے رنگی، پھیکی اور بھدی ہوتی دکھائی دے گی۔ یہ تو غلط ہے کہ آپ اپنی نظر سے دنیا کو دیکھیں اور وہی زاویہ نگاہ تمام انسانوں پر مسلط کرنے کی کوشش کریں۔“ ندیم نے احمد کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”جناب آپ نے بات کا رخ ہی موڑ دیا۔ آپ ان حقائق کے بارے میں بتا رہے تھے جو ہمارے بتائے حقائق سے مختلف تھے۔“
”ہاں۔ میں انہی حقائق کے بارے میں بتا رہا ہوں۔“
”ندیم صاحب! آپ ذرا دھیرج رکھیئے۔ چلئے میں محض انہی نکات پہ بات کرتا ہوں۔“
ندیم نے میری طرف یوں دیکھا جیسے کہ رہا ہو کہ تم اس ڈرائیور کو اہمیت دے ہی کیوں رہے ہو۔
احمد نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا ”آپ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو اس لیڈر کے حوالے عوام نے کیا ہے، عوام جاہل اور بے شعور ہے اور عوام کو پیسے کے عوض خریدا جاتا ہے۔ یہ حقائق ہیں جو آپ کو اور آپ جیسے چند لوگوں کو لگتے ہیں۔ مگر صورتحال اس سے مختلف ہے۔
ندیم ہمہ تن گوش تھا۔ گویا وہ اپنی بات کے جواب میں آنے والی متضاد بات کے کسی حرف کو بھی ضائع نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔
”جناب۔ عوام باصلاحیت ہوتی ہے۔ ہر انسان جب جنم لیتا ہے تواس کے ساتھ کوئی نہ کوئی صلاحیت بھی ضرور جنم لیتی ہے۔ فطرت کسی بھی انساں کو جاہل نہیں بناتی اسے جاہل ہم بناتے ہیں۔ انسان کے بنائے ہوئے قوانین ہیں جو اسے نفرت سکھاتے ہیں۔ اسے بے خبر رکھ کر اور مواقع نہ دے کر جاہل کا لیبل لگاتے ہیں۔ اور موجود لیڈر سے پہلے لیڈر کو بھی اسی عوام نے آپ نے اور میں نے ووٹ دے کر منتخب کیا تھا۔ جو نااہل ہو کر جیل میں بند ہوا تھا۔ اس نے جن مخصوص طبقات کا مستقبل سنوارا۔ وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ آپ نے کہا کہ انسان اب روٹی کپڑے کی سوچ سے آزاد ہو گیا ہے۔ انسان ابھی روٹی کپڑے کی سوچ سے آذاد نہیں ہوا۔ کیونکہ یہ بنیادی ضروریات ہیں اور یہی انسانی بقا کے لئے ضروری ہیں اور یہی بنیادیں پوری نہیں ہو رہی۔ حقائق آپ کے سامنے ہیں کہ آج کتنے فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ سوچ تب تک نہیں ختم ہو گی جب تک ان بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کیا جائے گا تب تک عوام یہی بنیادی لڑائی لڑتی رہے گی۔ اور آپ نے کہا کہ عوام جاہل ہے تو جناب غریب عوام اپنے اور اہل خانہ کے لیے روٹی کپڑے کا بندوبست کرے یا سائنسی شواہد کھوجے اور اوپر سے جو سوچ مسلط کی جاتی ہے وہ حکمرانوں، امیروں اور سرمایہ داروں کی سوچ ہوتی ہے۔ انہیں ایک ان دیکھی دوڑ کا حصہ بنا دیا جاتا ہے جہاں وہ روٹی کپڑے کی تلاش میں عمر بھر دوڑتے رہتے ہیں۔“
احمد نے تلخ لہجے میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”میڈیا، ذرائع ابلاغ، تاریخ، تعلیمی نصاب،تاریخ ہر جگہ جہاں علم و آگاہی کی رسائی ہے اس کو وہی نظام، وہی قانون اور وہی ضابطے پڑھائے اور دکھائے جاتے ہیں جو انہی امیروں کے مفادات کے ہوتے ہیں۔ انہی کے بنائے گئے نظام کو جو انہی کی دولت کے ڈھیر کو بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اسی کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں۔
اب اس کا فیصلہ آپ کریں کہ آیا غریب اس مدار۔ جس میں وہ اپنے بقا کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔ اور ان تمام ذرائع سے جن سے اس کی ذہن سازی کی جاتی ہے نکل کر سائنسی اور فلسفیانہ کھوج کیسے کرئے؟ اور اس پر جو جاہل ہونے کا لیبل لگایا جاتا ہے کیسے مٹائے؟“
آس پاس کے لوگ حیرت سے ہمیں دیکھ رہے تھے کچھ آنکھوں میں احمدکے لیے ستائش اور اپنائیت واضح نظر آ رہی تھی۔
”آپ ان حکمرانوں کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے دیا ہی کیا ہے عوام کو۔؟ وہ دے ہی کیا سکتے ہیں؟ کیونکہ اگر انہوں نے عوام کے مسائل حل کر دئیے، شعور دے دیا تو وہ اقتدار کا اندھا راج کس پر کریں گے؟ یہ اقلیت ہے جس کی مٹھی میں دنیا بھر کی دولت ہے جو اکثریت کو بے خبر ر رکھتی ہے، ان کو لوٹتی ہے اور بینکوں میں پڑی دولت میں اضافہ کرتی ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی دولت کو تقسیم کر دیا جائے۔ اور غریب عوام کو بے در ہونے سے بچایا جائے۔
جناب آپ تو جانتے ہوں گے کہ آئین کے دس سے زیادہ آرٹیکل ہیں جن میں عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ تو کیا یہ کروڑوں لوگوں پر حکومت کرنے والے اقتدار میں آنے اور جانے والے آئین سے نابلد ہیں؟ اگر یہ آئین نہیں جانتے۔ آپ نہیں جانتے تو کون جانتا ہے؟ کون جانتا ہے قانون، کون ہے ذمہ دار اس بوڑھی بیوہ کا جو شہر میں پندرہ میڈیکل سٹورز موجود ہونے کہ باوجود رات بھر درد سے بلکتی ہوئی دنیا کو خیر آباد کہہ گئی؟ کیونکہ اس کے پاس گولی کے پیسے نہیں تھے؟ کون ہے ذمہ دار اس کنواری بڑھیا کا جس کی شادی صرف اس وجہ سے نہ ہو سکی کہ اس کے بھیا بھابھی کے پاس جہیز کی رقم نہیں تھی؟ آپ کا وہی مقدس آئین جس کی آج جیت ہوئی جس میں بنیادی حقوق ریاست کی ذمہ داری ہیں؟ یا وہ آئین جو امیروں کی دولت کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے؟
جناب سونے کی کان میں مزدوری کرنے والا اپنی بیٹی کو پیتل کے زیور میں بیہاتا ہے۔ بوری اٹھانے والاخرید نہیں سکتا اور خریدنے والا اٹھاتا نہیں ہے۔
کون ہے ذمہ دار؟“
احمد کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ آس پاس کے لوگوں کی آوازیں سرگوشیوں میں بدل چکی تھیں وہ چمچ کی آواز پیدا کرنے سے بھی گریز کر رہے تھے۔
ہم احمد کی طرف چرائی اور لاجواب نظروں سے دیکھ رہے تھے ہماری آواز و الفاظ کھو گئے تھے۔ ویٹر ہمارا لوبیا اور چاول کا لذیذ آرڈر لانا شاید بھول چکا تھا۔ ایک مکھی بھنبھناتی ہوئی میز کے اوپر سے ہوتی ہوئی کھڑکی سے باہرنکل گئی۔ خاموشی میں اس کی بھنبھناہٹ گونج کر معدوم ہو گئی۔ مزمل نے احمد کو پانی کا کلاس دیتے ہوئے کہا۔

”ہم لیٹ ہو گئے ہیں۔ جشن ختم ہو چکا ہے ہم نے اپنی سواریاں لے کر جانی ہیں۔“
پانی کا کلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے احمد اٹھ کھڑا ہوا اور الوداعی مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ندیم نے تیری سے ہاتھ پکڑلیا جیسے اسے کسی گہرے خیال نیچونکادیا ہو۔
”جناب مبارک ہو آج ہمارے مقدس آئین کی جیت ہوئی ہے۔ اور اس کی شقوں پر عمل کرتے ہوئے۔ اس کی مقدسیت کو برقرار رکھا گیا ہے“۔
ایک تلخ مسکراہٹ سے کہتے ہوئے وہ نوجوان اور اس کا دوست ہوٹل سے باہر چلے گئے اور ہم اپنے زاویہ نگاہ کو بدلتے انہیں اوجھل ہونے تک دیکھتے رہے۔

Sobi Batool
+ posts

ثوبی بتول جے کے این ایس ایف ڈگری کالج عباسپور (پونچھ) کی آرگنائزر ہیں۔