ثوبی کامریڈ
8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے کو اٹھارہ سال مکمل ہونے کو ہیں۔ یہ قیامت خیز دن 70 ہزار سے زائد لوگوں کے لیے پیام اجل لے کر آیا۔ ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ زخمی ہوئے اور 30 لاکھ سے زائد لوگ بے گھرہوئے۔ زلزلہ متاثرہ علاقوں کا سکول انفراسٹرکچر بے حد متاثر ہوا۔
یونیسیف کے مطابق 18 ہزار بچے زمین بوس ہونے والے تعلیمی اداروں کے ملبے تلے آ کر ہلاک ہوئے۔ زلزلے کو 18 سال پورے ہونے کو ہیں مگر تعلیمی اداروں کی تعمیر نو کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کے کاموں کیلئے قائم کئے گئے اداروں ایرا سیرا کی شاہ خرچیوں، کرپشن اور لوٹ مار کے باعث اربوں کی بین الاقوامی امداد کے باوجود تعمیر نو کے منصوبہ جات مکمل نہیں ہو سکے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر بھر کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ تعلیمی انفراسٹرکچر ابھی تک تباہ حال ہے۔ طلبا و طالبات کھلے آسمان تلے شدید سردی، بارش، کیچڑ اور دیگر موسمی سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے پہ مجبور ہیں۔ جدید تعلیمی نصاب اور عمارت تو دور کی بات ہے، انکے پاس فرنیچر، پانی، بجلی، واش روم، چاردیواری، کھڑکی اور دروازے جیسی سہولتیں بھی موجود نہیں ہیں۔ ایسا ہی ایک متاثرہ ادارہ گورنمنٹ گرلزہائی سکول عباسپور ہے، جو شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ اس سکول کی عمارت تاحال تعمیر نہیں ہو سکی اور بچیاں خیموں میں بیٹھ کر موسمی سختیوں کو برداشت کرکے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
چوتھی جماعت کی طالبہ انیشہ کا کہنا ہے کہ ”ہم شدید سردی اور شدید گرمی کے موسم میں بھی خیموں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پہ مجبور ہیں۔ جگہ کی اتنی کمی ہے کہ بعض دفعہ ایک کلاس کو چھٹی دی جاتی ہے اور دوسری کلاس کی بچیوں کو سکول بلا کرکلاس لی جاتی ہے۔ میں اور میری سہیلیاں چاہتی ہیں کہ ہم پڑھ لکھ کر کچھ بن سکیں، مگر ان حالات میں تعلیم حاصل کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ ہمارے والدین کے پاس پرائیویٹ سکول میں تعلیم دلوانے کے پیسے نہیں ہیں۔“
ادارہ کی پرنسپل کا کہنا تھا کہ ”ہرسال بچیوں کی بڑی تعداد سرکاری سکول کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ ہمارے پاس سکول کی عمارت کا نہ ہونا بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے۔‘ نمبل گھمیر کے ایک گاؤں چندربیگ نی ھل کی 10 ویں جماعت کی طالبہ علیشبہ کا کہنا ہے کہ ”ہمارا سکول پانچویں جماعت تک ہے۔ اسکی عمارت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ سکول میں واش روم جیسی سہولت بھی موجود نہیں ہے، جسکی وجہ سے علاقہ کی بچیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔“
ان کا کہنا ہے کہ ”علاقے کی دوسری لڑکیاں بھی ہیں، جو جماعت دہم تک پہنچی ہیں۔ سکول کے نہ ہونے کے باعث میں نے پرائیویٹ فارم بھیج کر تعلیم کو جاری رکھا اور جماعت دہم میں اپنے رشتہ داروں کے گھر رہائش رکھی ہوئی ہے۔ اپنے گھر، ماں باپ اور بہن بھائیوں سے دور رہنا مشکل مرحلہ ہے مگر مجھے تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے۔ میں ایسی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی تعلیم کو جاری رکھنا چاہتی ہوں اور مستقبل میں کچھ بننا چاہتی ہوں۔“
الف اعلان کی 2016ء کی ضلعی درجہ بندی رپورٹ کے مطابق پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کا تعلیمی سکور 81.68 فیصد تھا۔ 4202 پرائمری سکول، 1011 مڈل سکول، 718 سکینڈری سکول، 54 ہائیر سیکنڈری سکول، 3226 طلبہ کے سکول، جبکہ 2759 طالبات کے سکول ہیں۔ سکول سے باہر بچوں کی تعداد 52 فیصد تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایسے سکولز جن میں سہولیات دستیاب نہیں، ان میں 79 فیصد سکول ایسے ہیں جن میں چاردیواری نہیں، 79 فصد سکولوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں، 89 فیصد میں بجلی کی سہولت موجود نہیں اور 73 فیصد میں باتھ روم کی سہولت موجود نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق 76 فیصد لڑکیوں کے سکول ایسے تھے، جہاں چاردیورای موجود نہیں اور 68 فیصد میں باتھ روم کی سہولت نہیں، جس کی وجہ سے والدین اپنی بچیوں کو سکول بھیجنے کے حق میں ہی نہیں تھے۔ 38 فیصد سکول میں بالکل کوئی بھی سہولت موجود نہیں تھی، 17 فیصد ایسے سکول تھے جہاں صرف ایک ہی کمرہ جماعت تھا۔ پرائمری سکولوں میں طالب علم اور اساتذہ کا تناسب 24:1 فیصد تھا، جبکہ 7 فیصد پرائمری سکول ایسے بھی تھے،جہاں پر صرف ایک معلم تعینات تھا۔
2019ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 49 فیصدگورنمٹ ہائی سکولوں میں کمپوٹر لیب کی سہولت موجود نہیں، 46 فیصد تعلیمی اداروں میں باتھ روم کی سہولت نہیں، 46 فصد پرائمری سکولوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں، 55 فیصد پرائمری سکولوں میں حفاظتی موجود ہے جبکہ 45 فیصد اداروں میں کوئی حفاظتی دیوار موجود ہی نہیں، 59 فیصد پرائمری سکولوں میں بچوں کے لیے کوئی پلے گراونڈ نہیں، 55 فیصد سکولوں میں بجلی کا کنکشن ہی نہیں، 57 فیصد ہائی سکولوں میں کمپوٹر لیب کی سہولت نہیں اور جدید سہولیات کے فقدان کے باعث تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کو نہ صرف مشکلات کا سامنا ہے بلکہ معیار تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے، جو کہ مستقبل میں ریاست کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ اسوقت اس خطہ میں 2 لاکھ 16 ہزاربچے سکول سے باہر ہیں۔