پربھات پٹنائک
دو سال سے دنیا کو ایک وبا کا سامنا ہے۔ اس طرح کی وبا ایک صدی سے نہیں دیکھی گئی۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق، اس وبا نے پہلے ہی 15 ملین جانیں لے لی ہیں۔ ابھی اس وبا کا خاتمہ قریب دکھائی نہیں دیتا۔ یہ مجموعی طور پر انسانیت کے لئے ایک بے مثال بحران ہے جس کے لئے ہر حکومت خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک کی حکومتوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر کوشش کی ضرورت ہے جہاں عوام خاص طور پر نہ صرف اس بیماری بلکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدحالی کا بھی شکار ہیں۔
انہیں ہسپتال کی سہولیات میں توسیع کرنی ہو گی، ہسپتال کے بستروں کی مناسب تعداد تیار رکھنی ہو گی، جانچ کی سہولیات پیدا کرنی ہوں گی، ویکسین دستیاب کرنی ہوں گی اور ویکسینیشن کی سہولیات قائم کرنی ہوں گی وغیرہ۔ اس کے علاوہ حکومتوں کو سبسڈیز کے ذریعے لوگوں کو ریلیف فراہم کرنا ہو گا اور چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو مدد فراہم کرنی ہو گی جن کے متاثرہونے کا امکان ہے۔ اس سب کے لئے حکومتوں کی طرف سے اخراجات میں اضافے کی ضرورت ہے لیکن عین اس وبا کی وجہ سے پیداوار متاثر ہوئی ہے اور اس کے ساتھ موجودہ ٹیکس کی شرحوں پر حکومت کی آمدنی کم ہوئی ہے۔ جب تک وہ ویلتھ ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ نہیں کرتے، جی ڈی پی کے تناسب کے طور پر، اضافہ نہیں کرتے، انہیں مالی خسارے کا سامنا ہو گا۔ ان کے پاس، قصہ مختصر، اس طرح کی پالیسیاں اپنانا ضروری ہے جو براہ راست نیو لبرل ازم کے حکم کے برعکس چلتی ہیں، جو نام نہاد ’مالی ذمہ داری‘ کے نام پر یا مالی ’کفایت شعاری‘ کے نام پر ہر ذمہ داری سے دامن چھڑا لیتی ہیں۔ لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ اصل میں کیا ہوا ہے۔
عین اس لئے کہ عالمی معیشت سست روی یا جمود کی وجہ سے تیسری دنیا کے ممالک کی برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔ یقینی طور پر، اسی طرح ان کی درآمدات بھی ان کی اپنی جی ڈی پی شرح نمو میں سست روی کی وجہ سے ہوتی ہیں؛ لیکن یہاں تک کہ یہ فرض کرتے ہوئے کہ برآمدات اور درآمدات اسی حد تک متاثر ہوتی ہیں تاکہ تجارتی خسارہ یا اضافی جی ڈی پی کے ساتھ مل کر نیچے چلے جائیں، حقیقت یہ ہے کہ وراثت میں ملنے والے بیرونی قرضوں کے وعدوں کو پورا کرنا ہو گا جن کی جی ڈی پی کے مقابلے میں شدت میں اضافہ ہونا چاہئے۔ ان قرضوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور ان کی خدمت کو مناسب طور پر موخر کرنا ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر تجارت جی ڈی پی کے مقابلے میں رہتی ہے تو بھی وبا کے بعد تمام ممالک کے لئے پہلے کی طرح ہی رہے، جبکہ جی ڈی پی خود جمود کا شکار ہے، بیرونی قرضوں کے ذخائر اس جمود کی وجہ سے جی ڈی پی کے مقابلے میں بڑھتے ہیں۔ لہٰذا قرضوں کا بوجھ زیادہ ہو جاتا ہے اور اسے تیسری دنیا کے ممالک کو خصوصی ریائت کی پیشکش کی ضرورت ہوتی ہے۔
سب سے واضح طریقہ یہ ہے کہ ایک مخصوص تعداد میں قرضوں کی روک تھام کی جائے اور معاصر عالمی سرمایہ داری نظام کے اندر جس ادارے کو قرضوں کی اس طرح کی مہلت پر عمل درآمد کی ذمہ داری سونپی جانی ہے وہ آئی ایم ایف ہے جو ممالک کو ’کفایت شعاری‘ ترک کرنے اور بحران کے دوران لوگوں کی صحت اور فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی ترغیب بھی دے رہا ہے۔ درحقیقت آئی ایم ایف کی موجودہ منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹلینا جارجیوا نے اکثر کچھ رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ بحران کے اس وقت میں ’کفایت شعاری‘ ترک کر دیں، جس سے یہ تاثر مل سکتا ہے کہ آئی ایم ایف نے آخر کار اس وبا سے پیدا ہونے والے مجموعی طور پر بنی نوع انسان کے لیے خطرے کی شدت دیکھی ہے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے حال ہی میں یورپ پر زور دیا کہ وہ ’کفایت شعاری کی دم گھٹنے والی طاقت کے ساتھ اس کی معاشی بحالی کو خطرے میں نہ ڈالیں‘۔
لیکن یہ پتہ چلتا ہے کہ حقیقت بالکل مختلف رہی ہے۔ آکسفیم نے حال ہی میں اس وبا کے دوسرے سال میں تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ آئی ایم ایف کے دستخط کردہ 15 قرضوں کے معاہدوں کا تجزیہ کیا ہے اور ان میں سے 13 واضح طور پر ’کفایت شعاری‘ پر اصرار کرتے ہیں۔ اس طرح کے ’کفایت شعاری‘ اقدامات میں خوراک اور ایندھن پر ٹیکس اور حکومتوں کی طرف سے اخراجات میں کٹوتی شامل ہے جو لازمی طور پر تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال جیسی بنیادی خدمات کو متاثر کرے گی۔ چھ اضافی ممالک کے معاملے میں جن کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، آئی ایم ایف بھی ان کے ذریعہ اسی طرح کے اقدامات اپنانے پر اصرار کر رہا ہے۔
’کفایت شعاری‘ کے اس اصرار کو استثنیٰ کے طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے قبل 12 اکتوبر 2020ء کو آکسفیم نے خبر دی تھی کہ مارچ 2020ء سے جب وبا کا اعلان کیا گیا تھا، آئی ایم ایف نے 81 ممالک کے ساتھ 91 قرضوں پر بات چیت کی تھی اور ان میں سے 76 میں یعنی 84 فیصد قرض معاہدوں میں ’کفایت شعاری‘ پر اصرار کیا گیا جس سے نہ صرف وبا کی لپیٹ میں آنے والے غریب لوگوں کی زندگی مشکل ہو جائے گی بلکہ صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔ اس لئے آئی ایم ایف کا ’کفایت شعاری‘ پر اصرار ہمیشہ کی طرح مضبوطی سے جاری ہے، یہاں تک کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے عوام کم از کم اس کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ حیرت کی بات نہیں کہ آکسفیم نے کرسٹلینا جارجیوا کے یورپ کو ’کفایت شعاری‘ سے مجبور نہ ہونے کے مشورے اور تیسری دنیا کے لئے جس ادارے کی سربراہی کی ہے اس کے اصل پروگرام کے درمیان تضاد کو اجاگر کیا ہے جس کا مقصد ’کفایت شعاری‘ کا مشاہدہ کرنا ہے۔ اس بنیاد پر آکسفیم نے آئی ایم ایف پر الزام لگایا ہے کہ وہ ’دہرا معیار‘ استعمال کر رہا ہے، ایک ترقی یافتہ ممالک کے لیے اور ایک تیسری دنیا کے ممالک کے لیے مختلف ہے۔ دوہرے معیار کا استعمال ہر وقت گھناؤنا ہوتا ہے لیکن ایک وبا کے وقت اس کا استعمال جو مجموعی طور پر بنی نوع انسان کو متاثر کر رہا ہے خاص طور پر گھناؤنا ہے۔
تاہم آکسفیم کے تجزیے میں یہ حقیقت یاد آتی ہے کہ آئی ایم ایف کے طرز عمل میں واضح دوہرے معیار خود سرمایہ داری کی نوعیت میں غیر معمولی ہیں۔ درحقیقت، ایک طبقاتی معاشرہ لازمی طور پر دوہرے معیار کا حامل ہوتا ہے: مزدور بینک میں قرض کے لئے درخواست نہیں دے سکتا، لیکن یقینا، ایک امیر شخص قرض کے لئے درخواست دے سکتا ہے اور حاصل کر سکتا ہے۔ مختلف انداز میں کہا جائے تو ’باہر‘ ذرائع سے کسی کو ملنے والے سرمائے کی رقم کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ سرمایہ دار ہونے کے لیے سرمائے پر ملکیت کتنی ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی بھی سرمایہ دار بن سکتا تھا تاکہ طبقاتی تقسیم کے مترادف وقفے کی بجائے کامل سماجی نقل و حرکت ہو۔
درحقیقت جوزف شومپیٹر جیسے سرمایہ داری کے دانشور محافظ جنہوں نے منافع کی ابتدا کو پیداوار کے ذرائع کی ملکیت سے منسوب نہیں کیا بلکہ اس حقیقت سے منسوب کیا کہ سرمایہ دار بننے والوں میں ایک خاص صلاحیت تھی جسے وہ اختراع کہتے تھے، دراصل اس بات پر زور دیا کہ ایسی اختراع کے حامل کوئی بھی شخص، یعنی کوئی بھی ایسا خیال رکھتا ہے جسے ایک نیا پیداواری عمل یا نئی مصنوعات بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے، بینکوں سے قرض حاصل کر سکتا ہے اور کاروبار قائم کر سکتا ہے۔ لیکن معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کی اس طرح کی کوششیں واضح طور پر غلط ہیں۔ کوئی بھی زرعی مزدور، چاہے اس کے پاس کتنا ہی اختراعی خیال کیوں نہ ہو، کاروبار قائم نہیں کر سکتا (اگرچہ یہ خیال ایک امیر آدمی کاروبار شروع کرنے کے لئے چوری کر سکتا ہے)۔
بالکل اسی طرح سامراجیت کی دنیا میں جہاں ممالک کو دو مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے: میٹروپولیٹن اور پیریفیرل ممالک۔ میٹروپولیٹن بینک میٹروپولیٹن ممالک کے مقابلے میں پیریفیرل ممالک کو قرض دینے سے کہیں زیادہ نفرت کریں گے۔ قرض دینے کے معاملے میں لازمی طور پر ’دہرا معیار‘ ہو گا۔ آئی ایم ایف کو بین الاقوامی مالیاتی سرمائے کے محافظ کی حیثیت سے جس پر میٹروپولیٹن مالیاتی اداروں کا غلبہ ہے، قرضوں کی منظوری اور قرضوں کی واپسی کے لئے شرائط عائد کرنے میں اس ’دوہرے معیار‘ کو برقرار رکھنا ہو گا۔ لہٰذا آئی ایم ایف کی جانب سے ’دہرے معیار‘ پر آکسفیم قسم کی تنقید اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ آئی ایم ایف ایک نیک نیتی سے انسانی ادارہ ہے جو بین الاقوامی مالیاتی سرمائے کے مفادات کی دیکھ بھال کرنے والا سرمایہ دار ادارہ ہونے کی بجائے بنی نوع انسان کے مفادات کی دیکھ بھال کرنے والا ادارہ ہے۔
اس طرح آئی ایم ایف کا طرز عمل سرمایہ داری کی نوعیت، اس کی لازمی انسانیت کی عکاسی کرتا ہے۔ میرا مطلب صرف اس لحاظ سے ’انسانیت‘ نہیں ہے کہ یہ منافع کو لوگوں کے سامنے رکھتا ہے، بلکہ اس معنی میں بھی جو اس سے نکلتا ہے، یعنی یہ کہ یہ تمام انسانی زندگی کو یکساں قدر کے طور پر نہیں دیکھتا، کہ یہ ضروری طور پر زندگی کے ہر شعبے میں ’دہرے معیار‘ کا اطلاق کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب یہ مطالبہ اٹھایا جاتا ہے کہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو میٹرو پولیٹن کے دائرے میں منتقل کیا جائے تو اس مطالبے کے پیچھے واضح مفروضہ یہ ہے کہ اس کے دائرے میں انسانی زندگی کی اتنی قیمت نہیں ہے جتنی کہ میٹرو پولیٹن میں انسانی زندگی ہے۔
اگر آپ دیکھیں تو اس بنیادی امتیاز یا ’دہرے معیار‘ پر مبنی سماجی نظام کی بدتمیزی خاص طور پر اب جیسے ادوار میں، ایک وبا کے درمیان واضح ہو جاتی ہے۔ جب انسانیت اور داستان دونوں کا تقاضا ہے کہ ہمیں تمام انسانی زندگیوں سے متعلق ہونا چاہئے، چاہے وہ کہیں بھی واقع ہو، ایک سماجی نظام جو ان کے درمیان امتیاز کرتا ہے، جو کچھ زندگیوں کو قدر کا سمجھتا ہے، دوسروں کو نہیں، اس کی انسانیت اور غیر منطقی کے لئے کھڑا ہے۔