دنیا

کشمیر کا معمہ: باہمی حکمتِ عملی یا نئی فوجی مہم؟

قیصرعباس

برصغیر کی سیاست بھی ایک عجیب گورکھ دھندہ ہے۔ آج کچھ اور کل کچھ۔ کبھی شعلہ کبھی شبنم!

اب کشمیر کو ہی لے لیجئے، کل تک پاکستان تنازعہ کشمیرمیں بین الاقوامی ثالثی اور دو طرفہ بات چیت کے لئے بے چین نظرآتاتھا مگر آج عمران خان کہتے ہیں کہ ”مذاکرات سے کچھ فائدہ نہیں ہے“۔ دوسری جانب نریندرمودی جو کل تک کشمیر کا نام لینا بھی گناہ سمجھتے تھے آج مذاکرات کے لئے خاصے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔

یہ سب کیسے ہوا؟ اس سوال کاجواب تو کسی کے پاس نہیں لیکن حال ہی میں ہونے والے واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم آ ج یہاں تک کیوں اور کس طرح پہنچے؟

ماضی قریب میں ہونے والے حالات کا جائزہ لیا جائے تو چلمن کے پیچھے کے منظر تھوڑے بہت واضح ہونے لگتے ہیں۔ گزشتہ جون میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) کی عالمی کانفرنس کرغستان کے دارالحکومت بشکیک میں ہوئی تھی جہاں اس وقت کی خبروں کے مطابق نریندر مودی اور عمران خان کے درمیان صرف ہاتھ ملانے کی رسم ادا کی گئی تھی۔ کیا دونوں کے درمیان بات چیت بھی ہوئی تھی اور مذاکرات کی جانب پہلا قدم لے لیا گیاتھا؟ بے شمار شکوک وشبہات میڈیا میں بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں اور سیاسی حلقوں میں بھی۔

عمران خان جب امریکہ کے دورے پر واشنگٹن پہنچے تو صدر ٹرمپ نے تو یہاں تک سرعام کہہ دیاکہ مودی نے انہیں مسئلہ کشمیر میں ثالث کاکردار اداکرنے کی دعوت دی ہے۔ دورے کے بعد جب وہ پاکستان واپس پہنچے تویہ خبریں گردش کررہی تھیں کہ عمران خان گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ حصہ بنانے اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لداخ کو بھارت میں ضم کرنے کی تجاویزدورے سے پہلے ہی پیش کرچکے تھے(لیکن بعدمیں ان خبروں کی تردید بھی کی گئی)۔

ادھر مودی نے پانچ اگست کو ایک خوفناک دھماکہ کیا اور وہی کیا جس کا خطرہ تھا۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو معطل کرکے لداخ کو عملی طورپر بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے دیا اور اسے یونین کا حصہ بنادیا۔ کشمیر کے باقی ماندہ علاقوں کو بھی بھارتی یونین میں شامل کردیاگیا لیکن اصل زیادتی یہ ہوئی کہ غیر کشمیریوں کو علاقے میں ملکیت اور تجارت کے حقوق دے دیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی پورے کشمیر کو ایک جیل خانے میں تبدیل کرکے لوگوں کو بچے کھچے حقوق سے بھی محروم کردیاگیا۔ یہ بھارت کی طرف سے کشمیریوں کے لئے عیدکاتحفہ تھا۔

اس تمام صورت حال میں کشمیرمیں، جو پہلے ہی دنیا کی سب سے بڑی فوجی چھاؤنی تھا، مزید فوج تعینات کردی گئی۔ لوگوں کو انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم کردیا گیا اور موبائل سمیت ہر طرح کا ٹیلی فونک نظام معطل کردیا گیا۔

کشمیریوں نے گزشتہ بہتر برسوں کے دوران بے انتہا قربانیاں دی ہیں۔ امریکہ کے ایک تحقیقاتی دارے سٹمسن سینٹر کے مطابق 2002ء اور 2013ء کے درمیان غیر ریاستی تصادم کے واقعات میں 658 عام شہریوں کی جانیں گئیں۔ یہ ہلاکتیں ان کے علاوہ ہیں جو شہریوں اور سرکاری فوجیوں کے درمیان ہونے والے تشدد میں ہوئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت نہتے شہریوں پر ظلم جاری رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا حل چاہتاہے۔

ایک بات تو طے ہے کہ آج عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کا ذکر ہورہاہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی طاقتیں، بالخصوص مسلم ممالک اور سلامتی کونسل کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش نظر آتے ہیں۔ عالمی برادری کا دوٹوک جواب تو یہی ہے کہ اپنے لڑائی جھگڑے خود ہی نبٹاؤ تو بہترہے۔

برصغیر میں جاری دو ایٹمی طاقتوں کی اس رسہ کشی کو باہمی حکمت عملی کا شاخسانہ کہا جا ئے یا ایک نئی فوجی مہم کا حصہ؟ اس سارے پس منظرمیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اندر خانے کچھ نہ کچھ پک رہاہے جو سامنے دکھائی نہیں دے رہا اور سفارت کاری کے موٹے پردوں کے پیچھے کچھ طے ہورہاہے یاہوچکاہے۔

بہرحال یہ تو صاف ظاہر ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل باہمی مشاورت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ جوکچھ بھی ہے تشدد کے ذریعے دنیا کے مسائل نہ طے ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے۔ مسئلہ کشمیر پر کسی بھی پیش قدمی سے پہلے بھارت کو علاقے کے باشندوں کوامن کا پیغام دینا ہوگا اور دونوں ملکوں کے دردمیان مذاکرات میں انہیں شامل کرنا ہوگا!

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔