مدبر علی
صنعتی انقلاب کے آغاز کے بعد سے ماحولیاتی نظام کی تشکیل میں انسانوں کا کردار، جس پر زندگی کی ہر قسم کی بقا کا انحصار ہے، کسی کی توقع سے کہیں زیادہ منفی رہا ہے۔ سولہویں صدی میں صنعتی انقلاب نے اینتھروپوجینک دور کے آغاز کی نشان دہی کرتے ہوئے انسانوں اور فطرت کے درمیان تعلقات کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ اینتھروپوجینک دور کو انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے زمین کے ماحول اور آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کے مطابق زمین کے اوسط درجہ حرارت 1.5 سینٹی منٹ تک بڑھنے کے پیچھے ماحولیات میں انسانی مداخلت ہی واحد وجہ رہی ہے جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مظاہر سامنے آئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات کا اندازہ غیر متوقع سیلاب، خشک سالی، گرمی کی لہروں، جنگلی آگ، خوراک کی قلت اور کریو سفیئر کے پگھلنے سے لگایا جا سکتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مظہر ہے لیکن یہ عالمی جنوب ہے جو اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ جیسا کہ اس حقیقت سے دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کاربن کا اخراج اس کے تباہ کن اثرات سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن یہ دنیا کے سرفہرست پانچ ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ برداشت کریں گے۔ یہ حقیقت یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی علاقائی قوم پرستی جیسے تصورات سے بالاتر ہے؛ اس لئے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر مجموعی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ پیرس معاہدے جیسے بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے، جس کا مقصد کاربن کے اخراج کو اور عالمی اوسط درجہ حرارت کو کم کرنا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی بنیادی طور پر ملکی اور صنعتی دونوں سطح پر فوسل ایندھن کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے اور پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہونے کی وجہ سے اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے فوسل ایندھن پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ 0.31 ارب بیرل تیل کے مجموعی ذخائر کے ساتھ یہ گھریلو وسائل کے ذریعے تیل کی مانگ کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ ملک میں تیل کی پیداوار صرف 59.08 ہزار ارب بیرل یومیہ ہے اور اس کی کھپت 426.72 ہزار ارب بیرل یومیہ ہے جبکہ طلب میں کمی تیل درآمد کر کے پوری کی جاتی ہے۔ تیل کی درآمد نہ صرف قومی خزانے پر بھاری قیمت ہے بلکہ پاکستان کے لئے موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کو بھی تیز کرتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تیل اور گیس کاربن کے اخراج کے اہم ذرائع ہیں جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلیاں آتی ہیں، تیل اور گیس کو اب بھی گندی توانائی نہیں سمجھا جاتا۔
ملکی سطح پر جہاں تک موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف تخفیف کی کوششوں کا تعلق ہے تو پاکستان کے لئے روشن پہلو اس حقیقت میں ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع شمسی، ہائیڈل اور ہوا جیسے قابل تجدید وسائل کے ذریعے توانائی پیدا کرنے کے لئے موزوں ہے۔ مزید برآں زرعی معیشت ہونے کی وجہ سے پاکستان بایوماس اور زراعت کے فضلے کے ذریعے توانائی پیدا کرنے کی بڑی صلاحیت رکھتا ہے۔ تیل اور گیس کے متبادل کے طور پر پاکستان اپنی زمین اور کاشت کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے بائیو فیول سے توانائی پیدا کر سکتا ہے۔ مزید برآں پاکستان میں سالانہ 23 لاکھ میگاواٹ تک شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہونے کے تمام وسائل اور صلاحیت رکھنے کی وجہ سے بد قسمتی سے پاکستان کو اب بھی توانائی کی شدید قلت کے مسائل کا سامنا ہے۔ وہ اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
توانائی کی پیداوار کے لئے تیل اور گیس پر انحصار رکھنے کی بجائے اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان توانائی کے غیر قابل تجدید وسائل سے قابل تجدید و سائل کی طرف منتقلی کے لئے جرات مندانہ اقدامات کرے۔ پاکستان توانائی کے مختلف متبادل وسائل کے ذریعے توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان ہر سال دو ملین ٹن شیرہ پیدا کرتا ہے جو ٹرانسپورٹ کے شعبے کے لئے ایتھنول ایندھن تیار کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس میں جٹروفا کروکاس پودوں کی کاشت سے آٹوموٹو کے لئے بڑی مقدار میں بائیو ڈیزل پیدا کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ اس کے علاوہ وافر سورج کی روشنی حاصل ہونے سے، یہ شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مقامی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے؛ توانائی کی پیداوار کے لئے بائیو ماس کا استعمال، دیہی علاقوں اور گرڈ کی سطح پر بائیو گیس یونٹس مختص کرنا اور فیول سیل ٹیکنالوجی کو اپنانے سے توانائی کے بحران پر بہت حد تک قابو پا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی ساحلی پٹی کو ونڈ ملز یا ونڈ ٹربائن نصب کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جو حرکی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کرتی ہیں۔
مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد سے ماحولیاتی نظام کو انسانوں نے جو نقصان (موسمیاتی تبدیلی کی شکل میں) پہنچا یا ہے، اس کی تلا فی توانائی کے متبادل قابل تجدید وسائل کو فعال طور پر اپناکر ہی ممکن ہے۔ اس صورت حال میں حکام با لا کی جانب سے تاخیری ردعمل سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی جس سے زمین پر ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ آخر میں یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہئے کہ بیشک موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوا لے سے پاکستان نقصان دہ پوزیشن پر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خطے کو توانائی کے قابل تجدید ذرائع جیسے شمسی، ہوا، ہائیڈل یا بایوماس پر منتقل کرنے کے لئے فائدہ مند پوزیشن پر بھی ہے۔
ترجمہ: قمر عباس