دنیا

محبت کا حق سب کے لئے

ٹونی عثمان

دنیا بھر میں لوگوں کوان کے جنسی رجحان اور صنفی شناخت کی وجہ سے ستایا جاتاہے اور بعض ممالک میں انہیں سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ تاہم ساتھ ہی دنیا بھر میں مختلف تنظیمیں، ادارے اور افراد ان لوگوں کے حقوق کے لئے کام کر رہے ہیں جو صنف اور جنسیت کے لئے معاشرے کے بنائے گئے اصولوں کے معیار پر پورا نہیں اتر پاتے۔ ایک اندازے کے مطابق سات فیصد لوگ مخالف جنس سے محبت نہیں کر سکتے۔

ایل جی بی ٹی (LGBT) ایک مخفف ہے جو لیس بین، گے، بائی سیکشول اور ٹرانس جینڈر کے لئے اجتماعی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ چھ پٹیوں والا قوس قزح والا جھنڈا ہم جنس پرستی، صنفی اور جنسیت کے تنوع کو منانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ 1978ء میں پہلی دفعہ یہ جھنڈا امریکہ میں ہم جنس پرستوں کے جھنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور اب یہ ایل جی بی ٹی تحریک کی علامت بن چکا ہے۔

ناروے میں ہم جنس پرستی کو طویل عرصے سے ممنوع اور قابل سزاجرم سمجھا جاتا تھا۔ تاہم 1950ء کی دہائی میں ہم جنس پرستوں کی ایک منظم تحریک ابھری جس نے ہم جنس پرستوں کے خلاف تعصبات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1972ء کو پینل کوڈ کی اس شق کو منسوخ کر دیا گیا جس کے تحت ہم جنس پرستی کو جرم سمجھا جاتا تھا۔ 1974ء میں پہلی بار یکم مئی کے جلوسوں اور تقریبات میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لئے نعرے لگائے گئے۔ پابندی کی تنسیخ کے پچاس سال بعد ناروے میں زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر ایک کو یہ حق ہے کہ وہ جس سے چاہے محبت کرے۔ 2009ء سے ہم جنس شادی کی قانونی اجازت ہے۔ ناروے کی موجودہ وزیر برائے صنفی مساوات اور ثقافت لیس بین ہیں۔ معروف صحافی اور اینکر، پاکستانی نژاد، نعمان مبشر جو ناروے کے سرکاری ٹی وی سے وابستہ ہیں، ہم جنس پرست ہیں۔ ناروے کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہر سال پرائیڈ یعنی فخر کے نام سے تقریبات اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جہاں قوس قزح والے رنگ بھرنگے جھنڈے ہر طرف لہراتے نظر آتے ہیں اور کسی خوشی والے تہوار جیسا ماحول بنا دیتے ہیں۔

ایک تازہ ترین سروے کے مطابق ناروے کے عوام کی ہم جنس پرستوں کے متعلق سوچ ایک مثبت سمت کی طرف گامزن ہے تاہم تیسری جنس کی قانونی حیثیت کے متعلق ایک غیر یقینی پائی جاتی ہے۔ گذشتہ دو سال کرونا کی وجہ سے عوامی اجتماعات پر پابندی رہی ہے مگر اس سال دارالحکومت اوسلو میں 18 جون سے لے کر 27 جون تک پرائڈ کے نام سے دس روزہ میلے کے انعقاد ہوا ہے جس میں ہر طبقہ فکر کے افراد نے شرکت کی ہے کیونکہ بقول ہم جنس پرستوں کی تحریک کے کوئی بھی اس وقت تک آزاد نہیں جب تک سب آزاد نہیں۔

جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو ہم جنس پرستوں کے پسندیدہ پب ”لندن“ کے باہر ایک شخص نے اندھادھند فائرنگ کر کے دو افراد کو قتل اور اکیس افراد کو زخمی کر دیا۔ تا دم تحریر (ہفتے کی شام) زخمیوں میں گیارہ کی حالت تشویشناک ہے۔ پولیس نے ایک بیالیس سالہ ایرانی نژاد شخص کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی ہے اور پولیس ہی کے کہنے پر سکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہفتہ پچیس جون کے روز ہونے والی پرائڈ پریڈ اور دیگر تقریبات منسوخ کر دی گئیں ہیں۔

یہ پرائڈ پریڈ شرکا کی تعداد کے حوالے سے ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے جا رہی تھی اور پریڈ کو پہلی دفعہ سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشر کیا جانا تھا۔ فائرنگ کے واقعہ کے بعد لوگ بے ساختہ جائے وقوعہ پر اکٹھے ہونا شروع ہو گئے اور فٹ پاتھ پر پھول اور قوس قزح والے جھنڈے رکھتے رہے۔ ولی عہد شہزادہ، ولی عہد شہزادی، وزیر اعظم، وزیر انصاف، وزیر خزانہ اور وزیر ثقافت نے بھی جائے وقوعہ کادؤرہ کیا۔ اس موقع پرولی عہدشہزادی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پاس کیں۔ اس المناک واقعہ نے نہ صرف ایل جی بی ٹی تحریک پر وار کیا ہے بلکہ یہ نارویجئن معاشرہ جسے ایک امن پسند اور روادار تصور کیا جاتا ہے، کے لیے ایک کڑا امتحان بھی ہے۔

وہ لوگ جو صرف مخالف جنس سے محبت کرتے ہیں، بھی ایل جی بی ٹی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور ہم جنس پرستوں سے اظہاریکجہتی کرتے ہیں۔ تاہم ایساساری دنیا میں ہرگز نہیں۔ اب بھی 68 ممالک میں ہم جنس پرستی یعنی دو مردوں اور دو عورتوں کے درمیان محبت اور جنسی ملاپ قابل سزا جرم ہے۔ روس، پولینڈ اور ہنگری میں ہم جنس پرستوں کے خلاف بہت تعصبات ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق نائیجیریا، صومالیہ، موریطانیہ، سوڈان، ایران، یمن اور سعودی عرب میں ہم جنس پرستوں کو سزائے موت کا خطرہ رہتا ہے۔ پاکستان میں بھی ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے اور اس کی سزا قید ہے۔

آرٹ دلوں اور دماغوں کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے یا کم از کم بات چیت کو جنم دیتا ہے اور سوچ کے عمل کو شروع کرتا ہے۔ شاید اسی لئے ہم جنس پرستی کے موضوع پر بعض معیاری فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں بھارت میں ہنسل مہتا کی ”علی گڑھ“، شیلی چوپڑا دھر کی ”ایک لڑکی کودیکھاتوایسالگا“، دیپا مہتا کی ”فائر“ قابل ذکر ہیں۔

اسی طرح چار انتہائی باصلاحیت ہدایت کاروں کرن جوہر، زویا اختر، دیباکربنرجی اورانوراگ کاشیپ کی اینتھولوجی ”بمبئی ٹاکیز“ اور شکون بترا کی ”کپور&سنز“ جس میں پاکستانی اداکار فواد خان نے مرکزی کردار کیا تھا، بھی اچھی کوشش ہیں۔ اس موضوع پر 2004ء میں کرن رازداں کی فلم ”گرل فرینڈ“ آئی تھی مگر وہ سستے پورن سے متاثر ہو کر بنائی گئی ایک ایسی غیر سنجیدہ فلم تھی جو تعصبات ختم کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتی۔

ابھی حال ہی میں ایک پاکستانی فلم ”جوائے لینڈ“ آئی ہے جس میں ہدایت کار صائم صادق نے ایک ٹرانس جینڈر کو مثبت انداز میں پیش کیا ہے۔ اس فلم میں کام کرنے والی ٹرانس جینڈر ادکارہ علینہ خان کو فرانس میں 75 ویں کانز فلم فیسٹیول میں کافی پذیرائی ملی ہے۔

علینہ خان نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس فلم کی وجہ سے انکے خاندان نے انکی ٹرانس جینڈر شناخت کو قبول کر لیا ہے۔ سوچ کے عمل کو جنم دینے کے سلسلے میں شعیب منصور کی فلم ”بول“ اور ہدایت کار ہاشم منصور کی ڈرامہ سیریل ”پری زاد“ بھی ہیں جن میں صنفی شناخت کے موضع کو محتاط طریقے سے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اقران رشید کی مختصر فلم ”عادت“ امریکہ میں ایوارڈ حاصل کر چکی ہے۔ تیرہ منٹ کی اس فلم میں ایک نوجوان مرد اپنی جذباتی اور جنسی تعلق کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک مرد سیکس ورکر کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ پاکستان میں اس موضع پر چند دستاویزی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ مثلاً 2015ء میں مسعود خان نے ”پاکستان کتنا ہم جنس پرست ہے؟“ کے نام سے پچاس منٹ کے دورانیہ کی فلم بنی۔ 2016ء میں فیضان فیض نے پاکستان میں ایل جی بی ٹی کے مسائل کے متعلق ”پوشیدہ“ کے نام سے پچیس منٹ کی فلم بنائی۔

Toni Usman
+ posts

ٹونی عثمان اداکار، ہدایت کار اور ڈرامہ نویس ہیں۔ ’جدوجہد‘ کے پرانے ساتھی ہیں اور’مزدور جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔