خبریں/تبصرے

راوی کنارے کسانوں سے چھینی گئی ایک لاکھ 10 ہزار ایکڑ اراضی کا کاروبار

رانا سیف

راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی عام زمیندار کی لاکھوں ایکڑ زمین سرکاری ریٹ پر زبردستی چھین کر پرائیویٹ ڈویلپزر کو مارکیٹ ریٹ پر فروخت کررہی ہے۔ اس اتھارٹی کی بنیادی ذمہ داری تو لاہور شہر میں آبی، فضائی، اور زمینی آلودگی کو کم کرنے یعنی ماحول کی بہتری اور تیزی سے پانی کی گرتی سطح کو بچانے، کروڑوں نفوس پر مبنی آبادی کو صاف پانی کی فراہمی کے لئے جھیل بنانا ہے۔

46 کلومیٹر پر پھیلا پاکستان کا پہلا دریا کے فرنٹ پر مبنی شہر راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے راوی کے کنارے شہر آباد کرنے کے لئے ایک لاکھ دس ہزار ایکڑ (110000) زمین حکومتی اختیار کے بل بوتے پر سرکاری ریٹ پر زمینداروں اور کسانوں سے ہتھیائی ہے۔

راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا موجودہ منصوبہ چوہدری پرویز الٰہی کے پہلے دور حکومت میں لاہور شہر میں تیزی سے پانی کی گرتی سطح کو بچانے، کروڑوں نفوس پر مبنی آبادی کو صاف پانی کی فراہمی کے لئے جھیل بنانا اور دریائے راوی کے اردگرد لاہور میں ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ، سیوریج کے گندے پانی کو صاف کرنے کے بعد دریا میں ڈالنے، آبی و جنگلی حیات، پرندوں کے لئے قدرتی ماحول کی فراہمی کے علاوہ قدرتی حسن کو بڑھاوا دینے کے لئے جنگل کے قیام کے لئے بنایا گیا تھا۔
منصوبہ کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر شہباز شریف کے دور حکومت کے دوران 2013ء میں لاہور میں زیر زمین پانی کی گرتی سطح کو بچانے کے لئے دریائے راوی پر 33 کلومیٹر لمبی اور وسیع و عریض لمبی جھیل بنانے، سینکڑوں ایکڑ پر جنگل اگانے، تفریحی پارک کی تعمیر، کمرشل و رہائشی، ادارہ جاتی و ثقافتی مراکز بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ تب یہ فیصلہ ایل ڈی اے نے کیا اور مجوزہ منصوبہ کو ریور راوی ڈویلپمنٹ زون پراجیکٹ کا نام دیا گیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر منصوبہ کی لاگت کا تخمینہ 7 کھرب روپے لگایا گیا۔ تاہم حکومتی عدم دلچسپی اور بہت زیادہ رقم کی وجہ سے یہ منصوبہ سرد خانہ کی زینت بن گیا۔ اسی دوران حکومت میں ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کی ذمہ داری بھی اس نئے ادارے کے ذمہ لگائی گئی تاکہ راوی کے پانی کو آلودگی سے بچایا جاسکے۔

2018 ء میں عمران خان کی حکومت کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول کے لئے رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور کنسٹرکشن انڈسٹری کے پھیلاؤ کو یقینی بنانے کے لئے راوی اربن ڈویلپمنٹ زون پراجیکٹ کو از سرنو زندہ کرتے ہوئے ایل ڈی اے کا کردار ختم کیا گیا اور ایک نئی اتھارٹی تشکیل دی گئی۔ اس نئے ادارہ کا نام راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی، عرف عام میں (RUDA) رکھا گیا۔

اس اتھارٹی نے اپنے قیام کے فوری بعد دریائے راوی کے دونوں کناروں پر واقع ضلع لاہور اور شیخوپورہ کی 110000 ایکڑ زمین پر کنٹرول ایریا قائم کردیا۔ عام زمیندار اور کسان کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ اس مارکیٹ کے لحاظ سے کہیں قیمتی زمین کی خریدو فروخت پر ہر قسم کی پابندی عائد کردی جبکہ اتھارٹی کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ وہ ازخود زمین خرید سکے، تو اتھارٹی حکام نے اس کا حل یہ نکالا کہ پرائیویٹ ڈویلپرز کو زمین دینے کی قانونی اجازت حاصل کرتے ہوئے ڈویلپرز سے پیسے لے کر انہیں زمینیں بیچنا شروع کردی ہیں۔ ایسا کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہ ہے۔ اس وقت راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے علاقہ میں زمین کی قیمت دس گنا بڑھ چکی ہے جبکہ مالک زمین کو اس کے مقابلہ میں کہیں کم رقم مل رہی ہے۔ اس ظلم کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

اس وقت لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت مارکیٹ میں انتہائی زیادہ ویلیو کی حامل قیمتی زمینیں سرکاری ریٹ پر ایکوائر کرنے کا عمل جاری ہے۔

راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی عام زمیندار کی لاکھوں ایکڑ زمین سرکاری ریٹ پر زبردستی چھین کر پرائیویٹ ڈویلپزر کو مارکیٹ ریٹ پر فروخت کررہی ہے، جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور عام شہری سے اس کا حق ملکیت چھیننے کے مترادف ہے۔

بہرحال جب عمران خان نے اس منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا تو وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے اپنے پیغام میں کہا کہ اس پراجیکٹ کے تحت دریائے راوی کی تجدید نو ہوگی۔46 کلومیٹر پر محیط جھیل، تین بیراجز، واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس، اربن فاریسٹ اور purpose built تعلیم، صحت، کمرشل سپورٹس سیٹیز بنیں گے۔

بدقسمتی سے عملی طور پر اس حوالے سے صرف اتنا کام ضرور ہورہا ہے کہ عام آدمی کی غصب کردہ قیمتی ترین زمین پرائیویٹ ڈویلپرز کو مہنگے داموں بیچ کر رہائشی کالونیوں کی تعمیر شروع کروانے پر تو زور ہے۔ ایک دو پراجیکٹس کے پلاٹس، ولاز، اپارٹمنٹس اور کمرشل ایریاز تو بک بھی چکے ہیں۔ جبکہ ماحول کی بہتری اور زیر زمین پانی کی گرتی سطح کو بچانے کے لئے بیراجز، شہری جنگل اور ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب وغیرہ کا دور دور تلک کچھ پتہ نہ ہے۔

Saif Ur Rehman Rana
+ posts

سیف الرحمن رانا لاہور میں مقیم سینئیر صحافی ہیں۔ وہ لاہور کے مختلف اردو اخباروں سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ ان دنوں وہ یوٹیوب چینل ’دیکھو‘ سے وابستہ ہیں۔