فاروق سلہریا
معلوم نہیں اپنے لیکچرمیں ننھے پروفیسر نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں زیر تعلیم سائنس دانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی کونسی نئی تھیوری پڑھائی جو ابھی تک ’کافروں‘ کی کسی یونیورسٹی میں پیش نہیں کی گی البتہ ننھے پروفیسر کی سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ننھے پروفیسر کو لیکچر دینے اور سوال جواب میں بہت مزا آیا۔
چند ہفتے قبل، ایک اور ویڈیو وائرل تھی۔ اس ویڈیو میں مولانا طارق جمیل گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے طلبہ کو گانے سنا رہے تھے۔ زید حامد کا غزوہ ہند فلاپ ہو گیا ہے ورنہ ایک وقت تھا کہ زید حامد پاکستان بھر کی جامعات میں گیسٹ لیکچر دیا کرتے تھے۔ نوے کی دہائی میں ’میجر‘مست گل کی میزبانی کی جاتی تھی۔
ہمیں ان میں سے کسی کے بلائے جانے پر بھی اعتراض نہیں۔ اعتراض صرف اتنا ہے کہ پروفیسر پرویز ہود بھائی کی نسٹ میں داخلے پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ لمز میں منظور پشتین کو نہیں بلایا جا سکتا۔ اللہ نذر بلوچ تو دور کی بات، اختر مینگل جیسے پر امن بلوچ رہنما کو بلانا ممکن نہیں۔
ہمارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کا کام مولویوں اور’اسلامیفائیڈ موٹیوشینل اسپیکرز‘ کو بلا کر طلبہ کی ’اخلاقی تربیت‘ کرنا نہیں۔ یونیورسٹی میں بالغ مر دو خواتین تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ وہ گناہ ثواب سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ ویسے بھی اسلامیات تو اب، پنجاب کی حد تک، پی ایچ ڈی میں بھی لازمی ہو چکی ہے۔ مزید یہ کہ اگر مذہب کی مالا جپنے سے ’اخلاقی تربیت‘ ممکن ہوتی تو مدرسوں میں چائلڈ ابیوز رک چکا ہوتا۔
یونیورسٹی کا کام ہے علم، تحقیق اور مکالمے کو فروغ دینا۔ فیکلٹی کو درس و تحقیق میں مگن ہونا چاہئے۔ نئی تھیوریاں پیش کریں۔ نئی ٹیکنالوجی بنائیں جس سے ملک کو درپیش مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ نیا ادب تخلیق کریں۔ نیا علم تخلیق کریں۔ طالب علموں کے پاس یہ موقع ہونا چاہئے کہ وہ علم، تحقیق اور مکالمے کا ہنر سیکھ سکیں اور لازمی طور پرسیکھیں۔
ننھے پروفیسروں اور طارق جمیلوں سے لیکچر کروا نے سے ننھے ننھے جاہل اور حسین و جمیل تاریک ذہن تو پیدا کئے جا سکتے ہیں، جیسا کہ کیا جا رہا ہے، پاکستانی لوگوں کا مستقبل نہیں سنوارا جا سکتا۔
برطانوی ’گارڈین‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل)، جس کا پاکستان میں اکثر طالب علموں کو نام بھی معلوم نہ گا، سالانہ برطانوی معیشت کو دس ارب پونڈ (2,460 ارب پاکستانی روپے) کا فائدہ پہنچاتی ہے۔ اس یونیورسٹی کا بجٹ 1.6 ارب پونڈ ہے۔
اگر کسی نے کبھی مولانا طارق جمیل یا کسی ننھے منے پروفیسر کو یو سی ایل بلانا چاہا تو یقین کیجئے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی لیکن وہاں منظور پشتین، علی وزیر، ملالہ، یا کسی بلوچ رہنما کے آنے پر بھی ایم آئی فائیو مداخلت نہیں کرے گی۔
اگر آپ علی وزیر یا اللہ نذر بلوچ کو کیمپس پر نہیں بلا سکتے تو مولانا طارق جمیل والا ڈرامہ بھی بند کر دیجئے۔ آپ پاکستانی معیشت کو دس ارب پونڈ کا فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو کم از کم دس ارب پونڈ کی جہالت بھی مت پھیلائیں اور اگر مقصد جہالت پھیلانا ہی ہے تو پھر کھل کر پھیلائیں: ننھے پروفیسر یا مولانا طارق جمیل کو ایچ ای سی کا سربراہ بنا دیں۔
کیا کہا، ان دونوں نے پی ایچ ڈی نہیں کر رکھی؟
تو کیا ہوا۔ فوجی و غیر فوجی یونیورسٹیاں چلانے والے ریٹائر جرنیلوں نے کون سی پی ایچ ڈی کر رکھی ہوتی ہے۔ ویسے جی سی یو لاہور والے وی سی نے تو پی ایچ ڈی کر بھی رکھی ہے، کیا بگاڑ لیا پی ایچ ڈی نے؟
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔