سوچ بچار

منٹو بنام ’نیا پاکستان‘

فاروق سلہریا

از عالم بالا
30 اگست 2019ء

عزیز ہم وطنو السلام علیکم۔

میں نیا پاکستان بننے کی پہلی سالگرہ پر خط لکھنا چاہتا تھا کیونکہ میرے بہت سے قارئین بضد تھے کہ میں نئے پاکستان بارے کچھ لکھوں مگر مصروفیت کی وجہ سے نہیں لکھ سکا۔ ارے بھائی غلط مت سمجھئے۔ مولانا طارق جمیل نے ستر ستر سال اور ستر ستر کلومیٹروالے جو قصے آپ کو سنا رکھے ہیں ان کا جنتی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ میں جنتی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر دراصل مولانا طارق جمیل کو ایک مراسلہ لکھنے میں مصروف تھا جس کی وجہ سے تاخیر ہو گئی۔

سچ پوچھو تو تاخیر کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ میں نئے پاکستان کے بارے میں کچھ بھی لکھنے سے کترا رہا تھا۔ 1947ء میں جب پہلی بار نیا پاکستان بنا تو میں نے نئے نویلے پاکستان اور پرانے ہندوستان بارے خوب لکھا مگر نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔ حمید نظامی جیسے لوگوں نے مجھے عدالتوں میں گھسیٹا۔ جماعت اسلامی والوں نے مجھے فحش نگار بنا کر رکھ دیا۔ اور تو اور میرے کمیونسٹ دوست بھی میرے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ اسی لئے 1971ء میں جب یحیٰ خان اور ٹکا خان نے جنرل نیازی کی مدد سے دوسری بار نیا پاکستان بنایا تو میں خاموش ہی رہا۔ ویسے بھی ان دنوں سوشل میڈیا تو تھا نہیں کہ میں عالم بالا سے اپنی تحریریں ای میل کر دوں۔

اب تیسری بار نیا پاکستان بنا ہے تو میں پھر تھوڑا ڈرا ہوا ہوں۔ تم سوچو گے منٹو اور خوف؟ تو جناب عرض ہے کہ قوم ِیوتھ کے ٹرولز کی تو خیر ہے لیکن جنت سے اٹھا لیا گیا تو؟ 

اس لئے میں صرف پازیٹو نیوز پر انحصار کروں گا۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ پاکستان کا میڈیا میرے خط کوبریکنگ نیوز بنا کر بھی چلا سکے گا۔

تو جناب میرے خیال میں نئے پاکستان بارے پہلی پازیٹو نیوز یہ ہے کہ نیا پاکستان پوری طرح سے ڈیجیٹل پاکستان ہے۔ ہر کام انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ہو رہا ہے۔ انصاف واٹس اپ پر مہیا کیا جا رہا ہے۔ ملکی دفاع ٹویٹر پر کیا جا رہا ہے اور ترقیاتی منصوبے فیس بک پر مکمل ہو رہے ہیں۔

دوسری اچھی بات: نیا پاکستان تھری اِن وَن ہے۔ یہ غریبوں کے لئے ریاستِ مدینہ ہے۔ امیروں کے لئے اسکینڈے نیویا اور سیاسی مخالفین یا بلاگروں وغیرہ کے لئے کمیونسٹ چین۔

ہاں ایک بات تجربے کی روشنی میں بتا دوں، جب پہلی بار نیا پاکستان بنا تھا تب بھی گومگو کی کیفیت تھی۔ حکمرانوں کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسلامی ریاست بنانی ہے یا سیکولر۔ چچا سام کے پاس جانا ہے یا سوویت روس کے ہاں۔ الیکشن کرانے ہیں یا بیوروکریسی سے کام چلانا ہے۔

کنفیوژن آج بھی بہت ہے۔ آپ تو بھگت رہے ہیں اس لئے آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں۔

خیر اندیش
سعادت حسن منٹو مرحوم

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔