مسعود قمر
میں جب سکھر سنٹرل جیل کی سیاسی بیرک میں صبح11بجے داخل ہوا تو ایک بہت ہی نحیف نوجوان نے باہیں کھول کر مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا۔ اس نوجوان کو میں پریس کلب میں بھی دیکھ چکا تھا، جہاں اس نے گرفتاری دینے سے پہلے آزادی صحافت کو بنگلہ دیش کی آزادی سے جوڑا تھا۔ اس نوجوان سے میں کراچی کی لانڈھی جیل میں بھی مل چکا تھا، جہاں میں نے اس کا کھلی باہوں اور انقلابی نعروں سے استقبال کیا تھا۔ اسی رات مجھے رات کی تاریکی میں جیل سے نکال کر ایک پولیس وین میں بٹھا کر سندھ بدر کر دیا گیا تھا۔ صوبہ بدری کے ان احکامات کو توڑتے ہوئے میں نے پھر نشتر پارک سے گرفتاری دی تھی اور اب سنٹرل جیل سکھر پہنچا دیا گیا تھا۔ رات کو جب بیرک میں بیٹھے قیدیوں کا تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ اس نوجوان کا نام زبیر الرحمان ہے۔ بعد میں باہر والوں نے بتایا کہ زبیر الرحمان کا تعلق ’امام نازش‘ کے لوگوں سے ہے، اسی طرح زبیر کو بھی میرے بارے میں بتا دیا گیا تھا۔ بس تو زبیر ہر وقت میرے ساتھ ساتھ لگا رہتا اور ہم دونوں آزادی صحافت کی تحریک پر کم اور ملکی سیاست پر زیادہ گفتگو کرتے۔ چند ہی دنوں میں کامریڈ زبیر اور میں نے بیرک میں ایک سٹڈی سرکل بنا لیا۔ دن میں دو مرتبہ اس کی کلاسیں ہوتی تھیں۔
جیل میں اگر قیدی کا کوئی دوست یا اس کا کوئی گھر والا آپ کیلئے کھانے پینے کا کچھ سامان بھیجتا تو اسے ’ملاقاتی‘ کہتے ہیں۔ جس کی بھی ملاقات آتی، وہ سب آپس میں تقسیم ہو جاتی، زیادہ تر مسئلہ سگریٹ کا ہوتا تھا۔ ایک دن کسی کی ملاقات میں تین کلو چنے اور ایک کاٹن سگریٹ کا آیا۔ زبیر نے وہ سارے چنے اخبار میں ڈھیر کر دیئے۔ پہلے لوگوں کو گنا پھر اسے چنوں میں تقسیم یا اور شاید 15یا 20چنوں کی ڈھیریاں بنا کر سب میں تقسیم کر دیں۔ اسی طرھ سگریٹ سب میں تقسیم کرنے کے بعد 9سگریٹ بچ گئے، جو 5، 5آدمیوں کے گروپ بنا کر تقسیم کر دیئے۔
زبیر الرحمان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور وہ وہاں کی کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتا تھا۔ ساری عمر جب سے اس نے سیاسی شعور حاصل کیا، وہ انقلاب کا سپاہی بنا رہا۔ زبیر کے آباؤ اجداد بہار سے منتقل ہو کر مشرقی پاکستان آئے تھے، مگر زبیر نے دوسرے بہاریوں کے برعکس بنگلہ دیش کی تحریک میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ان کے والد ایک مذہبی آدمی تھے۔ گو کہ وہ بنگلہ دیش تحریک کے حامیوں میں سے نہیں تھے، مگر مخالفوں میں سے بھی نہیں تھے۔ باپ بیٹے میں بہت مفاہمت تھی، بلکہ ایک حد تک دونوں ایک دوسرے کی سہولت کاری بھی کرتے تھے۔ جب کبھی بہاری جتھے اور فوج ان آزادی کے متوالوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بناتے تو ان کے والد چپکے سے کہہ دیتے کہ آج تم لوگ گھروں میں نہ سونا۔
زبیر الرحمان کبھی بنگلہ دیش سے پاکستان نہیں آنا چاہتا تھا۔ جس آزادی کیلئے اس نے قید کاٹی ہو، سڑکوں پر لاٹھیاں کھائی ہوں، خون دیا ہو، اس آزادی کو چھوڑ کر وہ کیسے آسکتا ہے۔ کارل مارکس نے تو کہا تھا کہ ’رشتے آلات پیدوار سے بنتے ہیں‘، کاش ایسا ہو جاتا۔ ہم روس میں انقلاب تو لے آئے مگر نیا انسان نہ بنا سکے۔ یہی حال زبیر کے ساتھ ہوا، وہ اپنی ماں اور بوڑھے باپ کو نا چھوڑ سکا اور ان کے ساتھ بنگلہ دیش سے پاکستان چلا آیا۔ یہاں آتے ہی اس نے پارٹی جوائن کر لی اور کام بھی شروع کر دیا، مگر میں نے اسے اندر سے ہمیشہ بے چین پایا۔ شاید یہ وجہ بنگلہ دیش چھوڑنے کی تھی۔
زبیر کی آواز اور الفاظ میں اتنا اثر تھا کہ سٹڈی سرکل میں سے اکثر وہ اپنے ساتھی اپنی پارٹی میں لے جاتا۔ سکھر جیل میں ہم دونوں نے جو سٹڈی سرکل شروع کیا تھا، مجھے یاد ہے اس میں سے 3آدمی زبیر کی پارٹی میں چلے گئے تھے۔ ایک رات 10بجے کے قریب ایک سپاہی نے بیرک کھولی اور زبیر کو پکارا کہ تم کو رہا کر دیا گیا ہے، اپنا سامان پیک کرو۔ سب نے زبیر کو گلے لگا کر رخصت کیا۔
7دن بعد ابھی رات کی دال روٹی کھا کر تین تین گروپ کے لوگ مشترکہ سگریٹ پی ہی رہے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں سپاہی بیرک کھول رہا ہے اور پیچھے زبیر جن کپڑوں اورپوٹلی کے ساتھ یہاں سے گیا تھا، انہی کپڑوں اور اسی پوٹلی کے ہمراہ بیرک میں داخل ہو رہا تھا۔
اس نے بتایا کہ ایک دن ہم چاکنگ کر رہے تھے کہ ہم نے پولیس کے تھانے کی دیوار پہ بھی ’فوجی آمریت مردہ باد‘ کی چاکنگ کر دی۔ رات کے دو بجے تھے، ابھی ہم یہ لکھ رہے تھے کہ تھانیدار آگیا اور اس نے ڈانٹنا شروع کر دیا اور کہا کہ یہاں سے بھاگ جاؤ۔ ہم وہاں سے چل پڑے اور علاقے کی دوسری دیواروں پر چاکنگ کرتے رہے۔ واپسی پر ہم نے پھر اسی تھانے کی دیوار پر چاکنگ شروع کر دی۔ اتنے میں تین چار سپاہیوں نے ہمیں پکڑ کر حوالات بند کر دیا۔ صبح تھانیدار ادھر سے گزرا تو اس نے ہمیں دیکھا اور کہا کہ ’اوئے تم لوگ یہاں کیسے، میں نے تو تم کو بھگا دیا تھا۔‘
ساتھ کھڑے ایک سپاہی نے کہا کہ جناب یہ پھر رات کو چاکنگ کر رہے تھے۔ تھانیدار نے کہا کہ ان کو پیش کرو۔ سب سے پہلے مجھے(زبیر) پیش کیا گیا اور میرے نام پتے پر غور کیا کرتے ہوئے تھانیدار نے پوچھا کہ تم اس وقت یہاں کیسے ہو، تمہیں تو سکھر جیل میں ہونا چاہیے تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس دن کسی اور زبیر کو رہا ہونا تھا، غلطی سے ہمارے والے زبیر کو رہا کر دیا گیا۔ اب 7دن بعد ہمارے والا کامریڈ پھر ہمارے ساتھ بیٹھا سٹڈی سرکل لے رہا تھا۔
سکھر جیل میں جب فیڈرل یونین آف جرنلسٹ اور حکومت کے ساتھ معاہدہ ہو گیا تو سب آزادی صحافت کے کارکن قیدیوں کو رہا کر دیا گیا، مگر مجھے رہا نہیں کیا گیا تھا۔ شاید میں نے کچھ زیادہ ہی حقیقی نعرے مار دیئے تھے۔
یہ زبیر تھا جس نے رہا ہو کر بیرسٹر ودود کی وساطت سے میری رہائی کیلئے سندھ ہائی کورٹ میں رٹ داخل کی، جس کی بہت سی سماعتوں کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے مجھے رہا کر دیا۔ اس طرح آزادی صحافت کی تحریک میں سب سے زیادہ لمبی سزا کاٹنے کے بعد میں رہا ہوا۔
کامریڈ زبیر الرحمان سر سے پاؤں تک ایک انقلابی تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی انقلاب کیلئے وقف کر دی تھی۔ انہوں نے جو شادی بھی کی وہ بھی ایک انقلابی کامریڈ صوفی کی انقلابی بیٹی سے کی۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ روزنامہ ایکسپریس میں کالم لکھتے تھے۔
کامریڈ زبیر الرحمان کی جدوجہد کو سرخ سلام!