نقطہ نظر

سندھ: ’لاشیں دفنانے کیلئے بھی خشک زمین میسر نہیں، وزیر اعلیٰ، بلاول بھٹو خالی ہاتھ دورے کر رہے ہیں‘

حارث قدیر

سعید خاصخیلی کہتے ہیں کہ صوبہ سندھ کے تمام ہی اضلاع سیلاب سے متاثر ہیں، لوگ خشک زمین تلاش کر رہے ہیں، لاشیں دفنانے کیلئے بھی خشک زمین میسر نہیں ہے۔ فصلیں برباد ہو گئی ہیں، گھر بار سب پانی میں ڈوب چکے ہیں، کھڑے پانی کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں اور فوری امداد نہ ہونے کی صورت میں قحط سالی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

پاکستان کے تمام جنوبی اور شمالی علاقے شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہیں اور اس وقت تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے 903 افراد ہلاک اور 1293 زخمی ہو چکے ہیں۔ حقیقی نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ تاہم سرکاری اعداد کے مطابق ابھی تک سندھ میں سب سے زیادہ 293 ہلاکتیں اور 836 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ سندھ میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے مطابق 146 کلومیٹر سے زائد سڑکیں سیلاب سے تباہ ہو چکی ہیں، 1 پل ٹوٹا ہے، 59 دکانیں سیلاب سے متاثر ہوئی ہیں۔ 35 ہزار 376 مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ مجموعی طور پر 14 جون سے اب تک سندھ میں 2281.5 کلومیٹر سڑکیں، 45 پل، 368233 مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ کے 17 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، 22 لاکھ 63 ہزار 777 افراد متاثر ہوئے ہیں اور ابھی تک حکومت اور ریسکیو ادارے ایک بھی فرد کو ریسکیو نہیں کر سکے ہیں۔ تاہم 1 لاکھ 72 ہزار 196 افراد کو ریلیف کیمپوں میں رہنے کی جگہ دی گئی ہے۔ این ڈی ایم اے کی جانب سے ابھی تک سندھ میں 15 ہزار 496 ٹینٹ، 11 ہزار 100 ترپال، 10 ہزار 648 مچھر دانیاں، 100 کمبل، 1500 ہائی جین کٹس، 1500 کچن سیٹ، 11500 فوڈ پیکیج، 500 فرسٹ ایڈ کٹس، 15 جنریٹر، 20 کیمیکل سپرے مشینیں، 2000 جیری کین، 95 ڈی واٹرنگ پمپ اور 100 لائف سیونگ جیکٹس فراہم کی گئی ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے علاوہ فلاحی تنظیموں کی جانب سے بھی کچھ ریلیف فراہم کیا گیا ہے، جو متاثرہ آبادی کیلئے نہ ہونے کے برابر ہے۔

سعید خاصخیلی پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین سندھ کے رہنما ہیں اور اس وقت سیلاب سے شدید متاثر ہونے والے سندھ کے اضلاع میں موجود ہیں۔ سندھ کی سیلابی صورتحال کے حوالے سے ان کا مختصر انٹرویو کیا گیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

سندھ میں سیلاب کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور کتنے علاقوں میں ابھی تک پانی جمع ہے، سرکاری اعداد و شمار اور زمینی صورتحال میں کوئی مطابقت ہے یا نہیں؟

سعید خاصخیلی: تقریباً تمام اضلاع ہی ان غیر معمولی اور بھیانک مون سون کی بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال سے دو چار ہیں۔ ابھی تک جو اعداد و شمار این ڈی ایم اے کی جانب سے سامنے لائے جا رہے ہیں وہ اصل صورتحال پر پردہ پوشی کے ہی مترادف ہیں۔ اس انسانی المیے سے نمٹنے کیلئے حکمرانوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں دیہات اور سیکڑوں شہر اس وقت پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کئی علاقے ایسے ہیں، جن تک زمینی رسائی ہی منقطع ہے، تمام سڑکوں پر پانی جمع ہے، اور حکمران چند ایک علاقوں سے جمع کئے گئے اعداد و شمار کو پورے سندھ اور بالعموم پورے پاکستان میں سیلاب کے نقصانات کے اعداد و شمار بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال لوگوں کے زخموں پر مرحم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کے مترادف ہے۔ تمام دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، لوگوں کے مکانات زیر آب ہیں، سڑکیں اور فصلیں زیر آب ہیں۔ لوگ لاشوں کو دفنانے کیلئے بھی خشک زمین کی تلاش کر رہے ہیں۔ جب تک پانی اترتا نہیں ہے، نقصانات کی حقیقی صورتحال کا تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا۔

سیلاب کی پیشگی اطلاع دے کر آبادیوں کو محفوظ مقامات پر کیوں منتقل نہیں کیا جا سکا؟

سعید خاصخیلی: اس میں حکمرانوں اور متعلقہ اداروں کی غفلت بھی موجود ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث موسموں کی شدت کا شاید اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکا۔ یہ تو سب کو معلوم تھا کہ بارشیں ہونی ہیں، لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ اتنی شدید بارشیں ہونگی۔ جہاں دریاؤں میں تغیانی سے سیلاب آئے ہیں وہاں مقامی آبادیوں اور جھونپڑیوں یا نشیبی علاقوں میں رہنے والی غریب آبادیوں کو نقصانات اٹھانا پڑے ہیں، ایسے علاقے سندھ میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم ان نقصانات کے ذمہ دار مقامی حکمران، وڈیرے یا جاگیردار بھی ہیں۔ البتہ سندھ کے اکثریتی اضلاع میں سیلاب شدید بارشوں کی وجہ سے بنا ہے۔ غیر متوقع بارشیں ہوئی ہیں، عمومی طور پر اتنی نہیں ہوتی ہیں۔ سالانہ اوسط سے 500 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ سندھ میں بارشیں زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے نکاسی آب کا انفراسٹرکچر ہی نہیں بنا ہوا ہے۔ صدیوں پرانے جو دریا کے قدرتی بہاؤ کے راستے تھے، ان پرصدیوں سے پانی نہیں آیا اور وہ راستے مقامی حکومتیں محفوظ بھی نہیں کر پائیں، وہاں تجاوزات ہو گئیں۔ کئی دیہات اور شہر ان قدرتی راستوں پر تعمیر ہو چکے ہیں، جو کبھی دریاؤں کا پانی گزرنے کے کام آتے تھے۔ اب جب بارشیں زیادہ ہوئی ہیں تو پانی نے پھر وہی پرانا راستہ اختیار کرتے ہوئے سمندر کی طرف جانا ہے۔ پانی کے راستوں میں بے ہنگم تعمیرات کی وجہ سے تمام دیہات اور شہر ابپانی کے نیچے ہیں۔ پانی اپنا راستہ بناتا جا رہا ہے۔ پانی کو نکلنے کا راستہ فراہم نہ کیا گیا تو بارشیں تھمنے سے فوری طور پر پانی اترنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہ پانی اترتے ہوئے بہت وقت لگائے گا۔

جن دیہاتوں اور شہروں میں پانی جمع ہے، ان میں لوگوں کو کس نوعیت کی مشکلات اور مصائب کا سامنا ہے؟

سعید خاصخیلی: اس کیفیت میں سب سے پہلی مشکل تو پانی میں دھنسے دیہاتوں اور شہروں سے خشک مقامات تک پہنچنے کی ہے۔ لاکھوں خاندان کھلے آسمان تلے سرکاری مدد کے منتظر ہیں، خیمے نہیں ہیں، خیمے لگانے کیلئے خشک جگہ نہیں ہے، زمینی راستے منقطع ہونے کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا، ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ جس وجہ سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے، لوگ انتہائی مشکل حالات میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس صورتحال سے نکلنے کیلئے صرف بارشوں کے رکنے اور پانی اترنے کے انتظار کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔

حکومت کی طرف سے امداد اور بحالی کیلئے کوئی اقدامات کئے جا رہے ہیں یا نہیں؟ اگر کئے جا رہے ہیں تو کس حد تک؟

سعید خاصخیلی: ریلیف کیمپ، سرکاری امداد اور ریسکیو آپریشن جو کسی بھی آفت کے دوران فوری اقدامات ہوتے ہیں وہ بھی ابھی تک کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ ابھی تک کوئی سرکاری عملہ یا ریسکیو ادارہ سیلاب زدہ علاقوں میں نظر تک نہیں آیا۔ البتہ وزیر اعلیٰ سندھ اور وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے خالی ہاتھ مخصوص علاقوں کے دورے کئے ہیں۔

فوری طور پر سیلاب متاثرین کو کس طرح کی امداد درکار ہے؟

سعید خاصخیلی: فوری طور پر تو پانی کے فطری راستوں کو بحال کر کے اس کے اخراج کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف زمینی راستے بحال ہونگے، بلکہ مکانات کی اراضی سے پانی کے اخراج کے بعد دوبارہ آبادکاری کا راستہ ہموار ہو سکے۔ اگر حکومت پانی کو سمندر تک پہنچانے میں ناکام رہی تو سندھ میں آئندہ سال قحط کی صورتحال جنم لے سکتی ہے۔ تاہم ابھی تک ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جا سکا ہے، جس سے سیلاب متاثرین کی تھوڑی بہت بھی مشکلات آسان ہو سکیں۔ محتاط اندازے کے مطابق سیلاب متاثرین کی تعداد کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ سیلاب متاثرین کو کسی نویت کی بھی امداد دیئے جانے کے برعکس تاجروں کو انہی سیلاب متاثرین کو لوٹنے کی کھلی اجازت دے دی گئی ہے۔ کھانے پینے کی اشیا اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کر کے لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ جس قدر قلت بڑھتی جا رہی ہے، اسی قدر لوٹ مار کا سلسلہ بھی مزید تیز ہو رہا ہے۔ فوری طور پر اشیائے خوردونوش، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے، متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔

غیر سرکاری تنظیموں، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی کوئی ریلیف مہم چل رہی ہے یا نہیں؟ اگر چل رہی ہے تو کس حد تک سود مند ہے؟

سعید خاصخیلی: غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے بھی کوئی خاص ہلچل نظر نہیں آ رہی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ اب بیرونی امداد بند ہو چکی ہے۔ تاہم اگر کوئی غیر سرکاری تنظیم یا تنظیمیں ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کریں بھی تو متاثرین کی تعداد اور نقصانات اس قدر زیادہ ہیں کہ اس طرح سے ایک فیصد متاثرین تک بھی مدد نہیں پہنچائی جا سکتی۔ لاکھوں خاندانوں کی بحالی، صحت کی سہولیات اور غذائی ضروریات کو پورا کرنے جیسے مسائل صرف ریاست کی بھرپور اور ہر اؤل مداخلت سے ہی حل کئے جا سکتے ہیں۔ ماضی میں جب بھی قدرتی آفات آئی ہیں، ملک بھر میں ریلیف کی مہمات شروع کی جاتی رہی ہیں، سیاسی جماعتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں۔ تاہم رواں سال گزشتہ دو ماہ سے مسلسل سیلابی صورتحال بھیانک ہوتی جا رہی ہے اور لگ ایسے رہا ہے جیسے پورے پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے مسائل کی معلومات بھی عوام تک اب پہنچنا شروع ہوئی ہے۔ اس میں میڈیا کابھی ایک منفی کردار رہا ہے اور ریاست یا حکمران طبقات کی طرف سے بھی غفلت اور لاپرواہی اس میں ایک اہم عنصر ہے۔ ایک طرف سیلاب کی تباہی اور بربادی جا ری تھی، جبکہ دوسری جانب میڈیا کے ذریعے عوام کو نان ایشوز میں الجھانے کی مہم بھی جاری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ، دو ماہ بعد جب آدھا پاکستان ڈوب گیا ہے تو لوگوں کو سیلاب کے نقصانات سے آگاہی مل رہی ہے۔ اس میں بھی آپ دیکھ لیں کہ ابھی تک حکومت کے پاس نقصانات کے اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔ اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو آدھا پاکستان اس وقت تک سیلاب سے بے خبر ہوتا جب تک باقی کا آدھاڈوب چکا ہوتا۔

حکومت کی جانب سے 25 ہزار نقد امدادی رقوم کا جو اعلان کیا گیا ہے، وہ کتنے لوگوں کو مل رہی ہیں اور اس سے کچھ مسائل حل بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں؟

سعید خاصخیلی: حکومت نے 25 ہزار امداد کا اعلان کیا ہے، جو رجسٹریشن کے ایک لمبے عمل کے بعد دیا جائے گا۔ اتنی قلیل رقم سے تو ایک دیوار تک نہیں تعمیر ہو سکتی۔ یہ فنڈ بھی بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سے دیا جائے گا اور اس میں سیلاب سے متاثرہ سرکاریملازمین کی تنخواہوں میں سے ہی دو دن کی تنخواہ کاٹ کر حصہ ڈالا جائیگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ امدادی رقم اور اس کا طریقہ کار عوام کے دکھوں اور تکالیف کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔ 25 ہزار روپے میں آج کے دور میں کیا تعمیر ہو سکتا ہے۔ اس رقم سے تو 5 یا 7 لوگوں کا ایک خاندان محض ایک ہفتہ سیر ہونے کیلئے خوراک بھی حاصل نہیں کر سکتا۔

آپ کے خیال میں بائیں بازو کی تنظیمیں اور سیاسی کارکنان کو اس صورتحال میں کس طرح سے رسپانس کرنا چاہیے؟

سعید خاصخیلی: ہر سیاسی کارکن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں اپنے لوگوں کے ساتھ جڑا رہے۔ مصیبت میں پھنسے افراد کی جن جن ممکنہ ذرائع اور وسائل سے مددہو سکے ان کو بروئے کار لایا جانا چاہیے تاکہ اس اذیت اور تکلیف میں کچھ نہ کچھ کمی کرنے میں ان کا حوصلہ بنا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں کو مظلوم اور مصیبت زدہ عوام کی سیاسی آواز بننا چاہیے، تاکہ انہیں حکمرانوں اور بیوروکریسی کے آگے گڑ گڑانے کی بجائے حقوق حاصل کرنے کا شعور اور آگاہی دینی چاہیے۔ سب سے بڑھ کر اس نظام کا بھیانک چہرہ، جو ایسے ہنگامی حالات میں مزید واضح ہو جاتا ہے، عوام کے سامنے آشکار کرنا چاہیے تاکہ اس نظام سے چھٹکارے کی جدوجہد پر لوگوں کو آمادہ کیا جا سکے۔

حکومت رکے ہوئے پانی کو نکالنے اور تعمیر نو و بحالی کیلئے کس نوعیت کے اقدامات فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے؟

سعید خاصخیلی: اس وقت سندھ کے 23 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے، لیکن ان علاقوں میں بجلی، گیس اور دیگر یوٹیلٹی بل معاف کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا، نہ ہی کسی طرح کی ریلیف ابھی تک پہنچ پائی ہے۔ تمام بلات فوری معاف کئے جانے چاہئیں۔ طلبہ کی کم از کم ایک سال کی فیسیں معاف ہونی چاہئیں، تعلیمی وظائف کا اعلان کیا جانا چاہیے۔ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو کیمپ بنائے جائیں، ادویات اور خوراک کی فراہمی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں، لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے، زمینی راستے بحال کئے جائیں، میڈیکل کیمپس بنائے جائیں اور ڈاکٹروں کو بڑی تعداد میں سیلاب زدہ علاقوں میں تعینات کیا جائے۔ 25 ہزار امداد والا تماشا بند کرتے ہوئے بے گھر لوگوں کو سرکاری سطح پر مکانات تعمیر کر کے دیئے جائیں۔ جن کسانوں کی زمینیں برباد ہوئی ہیں، ان کے تمام قرضے معاف کئے جائیں، تباہ ہونے والی فصلوں کے معاوضہ جات ادا کئے جائیں اور آنے والی فصلوں کیلئے کھاد اور بیچ وغیرہ مفت یا رعایتی نرخوں پر فراہم کرنے کیلئے ترجیحی اقدامات اٹھائے جائیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بعد مون سون پیٹرن میں غیر معمولی طور پر تبدیلیاں آنے والے سالوں میں اس سے بھی زیادہ خوفناک اور تباہ کن آفتوں کا سبب بنے گی۔ اس لئے لازمی ہے کہ اب نکاسی آب کا نظام سائنسی بنیادوں پر قائم کیا جائے، ورنہ ایسی بارشیں ہر چند سال بعد سیلابی صورتحالکا موجوب بنتی رہیں گی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے یہ حکمران سیلاب یا کسی بھی نو ع کی آفات اور انسانی سانحات میں متاثر ہونے والے انسانوں کی بحالی اور تعمیر نو کیلئے اقدامات کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں۔ ان حکمرانوں کیلئے ہر قدرتی آفت اور سانحہ لوٹ مار اور منافعے نچوڑنے کا ایک راستہ اور ایک امکان لے کر آتاہے۔ پانی کو چینلائز کرنے کیلئے بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جو اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اس بوسیدہ ریاستی ڈھانچے میں ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ نظام اب اس وقت تک بربادیاں پھیلاتا رہے گا، جب تک اسے جڑوں سے اکھاڑ پھینکا نہیں جاتا۔ محنت کشوں کو نہ صرف ان آفات اور سانحات سے نبرد آزما ہونا ہوگا بلکہ ان سانحات کے موجب اس نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کو تیز کرنا ہو گا۔ ایک منصوبہ بند معیشت کی بنیاد رکھتے ہوئے ہی ان آفتوں سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔