فاروق سلہریا
برازیل کے ایمازون جنگلات اس وقت عالمی سیاست اور خبروں کا بڑا موضوع بنے ہوئے ہیں مگر مین اسٹریم انٹرنیشنل میڈیا اس جانب توجہ نہیں دے رہا کہ اگست کے آخری ہفتے میں افریقہ کے دو اہم ممالک: کانگو اور انگولامیں بھی جنگل میں آگ کے دس ہزار سے زائد واقعات صرف دو دن کے اندر رونما ہوئے ہیں۔ ٹیلی سور چینل کے مطابق، انگولا میں 6902، کانگو میں 3395، اور برازیل میں 2127 واقعات ہوئے۔ یوں دو دن میں جنگلوں میں آگ کے 12424 واقعات ریکارڈ کئے گئے۔
ماہرین کے مطابق برازیل اور افریقہ، دونوں جگہوں پر جنگل میں آگ لگنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کسان فصلوں کی کٹائی کے بعد کھیتوں میں آگ لگاتے ہیں۔ یہ طریقہ کار پاکستان میں بھی استعمال ہوتا ہے اور زرعی ماہرین ہی نہیں، ماہرینِ ماحولیات بھی اس طریقہ کار کو انتہائی غلط تصور کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ماحول کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ زمین کی زرخیزی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومتوں کو کسانوں کو تربیت اور متبادل فراہم کرنے کے لئے مدد دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے خطرناک طریقہ کار کی بنیادی وجہ نیو لبرل پالیسیوں کے ہاتھوں زراعت کی عالمی تباہی ہے۔
ادہر، عالمی سطح پر دنیا کی زیادہ توجہ برازیل پر ہے کیونکہ ایما زون کے رین فاریسٹ کو دنیا کے پھیپھڑے سمجھا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر آکسیجن کا20 فیصد ان جنگلات سے فضا میں پہنچتا ہے۔ اس سال برازیل کے جنگل میں آگ لگنے کے واقعات پچھلے سال کی نسبت 83 فیصد زیادہ ہوئے ہیں جن کی تعداد 73000 ہے۔
برازیل میں اس ماحولیاتی تباہی ایک سب سے بڑی وجہ برازیل کی دائیں بازو کی حکومت ہے۔ برازیل کے صدر بولسونارو اور ان کے حکومتی اہل کار کھلے عام یہ کہتے آ رہے ہیں کہ برازیل میں جنگلات ختم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ زراعت کو فروغ دیا جا سکے۔ زراعت سے مراد ہے برازیل کی بڑی کارپوریشنز نہ کہ عام کسان۔
پچھلے تقر یبا پندرہ سال سے برازیل میں بائیں بازو کی حکومت تھی جس نے ایمازون کی حفاظت کے لئے بے شمار اقدامات کئے تھے۔ موجودہ حکومت کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے برازیل میں جنگل کی کٹائی میں کمی آ رہی تھی۔ برازیل کی مثال بالکل واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ سرمایہ داری اور انسانیت کی بقا، جو ماحولیات پر منحصر ہے، اب مزید ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
ادہر، روزنامہ ڈان(4ستمبر) میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے حکومت پنجاب اور ڈی ایچ ای کو مزید درخت لگانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ پاکستان میں جنگل کی کٹائی کا عمل پوری دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے جاری ہے۔ ہائی کورٹ کے مطابق سالانہ 27000 ہیکٹر جنگلات پاکستان سے غائب ہو رہے ہیں جبکہ ملک کا صرف 3.3 فیصدرقبہ جنگلات پر محیط ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔