لاہور (جدوجہد رپورٹ) پنجاب کابینہ کی فنانس کمیٹی نے نئے انتظامی ڈویژن گجرات کے قیام کے شیڈول کی منظوری دے دی ہے۔ اس نئے ڈویژن کیلئے مختلف محکموں میں 832 آسامیاں تخلیق کی جا رہی ہیں۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف نے گزشتہ عام انتخابات میں جنوبی پنجاب پر مشتمل سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدے کو متعدد بار دہرایا جاتا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومتوں پر سب سے بڑی تنقید یہی کی جاتی رہی کہ وہ وسطی پنجاب کو ہی پنجاب تصور کرتے ہوئے پنجاب کے دیگر حصوں بالخصوص جنوبی پنجاب کو یکسر نظر انداز کرتے آئے ہیں۔ تاہم اب تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے سرائیکی صوبے جتنی آسامیوں اور اخراجات کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب کے آبائی ضلع کو دیگر اضلاع سے ملا کر ڈویژن کا درجہ دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
’ڈان‘ کے مطابق سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ گجرات ڈویژن کے کمشنر اور ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) کی آئندہ 10 روز میں تعیناتی کا امکان ہے اور مقامی حکام اپنے دفاتر کھولنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ابتدائی طور پر ڈویژنل کمپلیکس کی تعمیر تک کمشنر، آر پی او اور دیگر اہم عہدوں کے دفاتر عارضی بنیادوں پر قائم کئے جائیں گے۔ مثال کے طور پر ذرائع کے مطابق چیئرمین ضلع کونسل گجرات کے دفتر کو کمشنر اور ان کے عملے کے استعمال کی سفارش کی گئی ہے، جبکہ آر پی او اور ان کا عملہ ضلعی پولیس آف کی پرانی یا نئی عمارت استعمال کر سکتا ہے۔ آر پی او کیلئے عمارت کرائے پر لینے کا آپشن بھی زیر بحث ہے۔
آر پی او کیلئے 117 اور کمشنر آفس کیلئے 96 آسامیاں تخلیق کی گئی ہیں، جبکہ محکمہ زراعت کیلئے 75 اور فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے ڈویژنل سطح کے قیام کیلئے 69 آسامیاں مانگی گئی ہیں۔
بورڈ آف ریونیو نے گوجرانوالہ ڈویژن کی تقسیم کے بعد 17 اگست کو گجرات ڈویژن کے قیام کی منظوری دی تھی۔ پنجاب کا سب سے بڑا ڈویژنل ہیڈکوارٹر 6 اضلاع پر مشتمل ہے۔ گجرات اب پنجاب کا 10 واں انتظامی ڈویژن ہو گا، جس میں تین اضلاع گجرات، منڈی بہاؤ الدین اور حافظ آباد شامل ہونگے۔
کنجاہ کے قریب گاؤں مچیانہ میں کم از کم 73 ایکٹر سرکاری اراضی پہلے ہی ڈویژنل ہیڈکوارٹر کے قیام کیلئے مختص کی جا چکی ہے، جبکہ مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے 25 سے 50 ایکڑ اراضی حاصل کی جا سکتی ہے۔
لینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ زمین اسی علاقے میں حاصل کی جا سکتی ہے، جہاں اس مقصد کیلئے پہلے ہی سرکاری اراضی کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔
’ڈان‘ کو معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین اور گجرات کو ملانے والی 52 کلومیٹر طویل سڑک کو چوڑا اور کارپٹنگ کرنے کی منظوری دی ہے، کیونکہ دستیاب سڑک کا انفراسٹرکچر خستہ حال ہے۔
دوسری جانب پنجاب حکومت حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے کچھ اراکان اسمبلی کے اپنے ضلع کو گوجرانوالہ سے الگ کر کے گجرات ڈویژن میں شامل کرنے کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حافظ آباد کے قانون سازوں کو ان کے متعلقہ حلقوں کیلئے کچھ مزید ترقیاتی سکیمیں اور سہولیات دینے کی پیشکش کی جا رہی ہے۔