فاروق سلہریا
پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر تو یہ بحث کوئی معنی نہیں رکھتی کہ سوشلسٹوں کو سرمایہ دار حکومت میں شامل ہونا چاہئے یا نہیں۔ ہاں بھٹو دور میں یہ بحث ضرور موجود تھی۔ دنیا کے دیگر ممالک میں، جہاں بایاں بازو نسبتاً بڑا وجود رکھتا ہے، یہ بحث گاہے بگاہے جنم ضرور لیتی ہے۔
گذشتہ اتوار کے روز ہونے والے سویڈن کے عام انتخابات سے پہلے بھی اس حوالے سے ایک دلچسپ مضمون مارکس وادی سویڈش جریدے ’انٹرناشنالن‘ (انٹر نیشنل) میں شائع ہوا۔ مضمون نگار شیل اوستبیری (Kjell Ostberg)، جو سٹاک ہولم کی ساوتھ ٹاور یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور معروف مارکسی دانشور ہیں، نے سویڈن کی لیفٹ پارٹی کو مشورہ دیا کہ وہ وزارتوں کے چکر میں پڑنے کی بجائے ایکسٹرا پارلیمانی سیاست پر بھی توجہ دے۔
جیسا کہ گذشتہ چند دنوں میں ’جدوجہد‘ میں ہم نے بار بار رپورٹ کیا کہ ان انتخابات میں لیفٹ پارٹی کو ایک طرح سے لیفٹ بلاک سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی پر سنٹر پارٹی کا دباؤ تھا کہ وہ لیفٹ پارٹی کے بغیر حکومت بنائے۔ ادہر لیفٹ پارٹی کا مطالبہ تھا کہ انہیں کابینہ میں جگہ دی جائے ورنہ وہ، اکثریت حاصل ہونے کی شکل میں، لیفٹ بلاک کو ووٹ نہیں دیں گے۔ تین نشستوں کے فرق سے لیفٹ بلاک الیکشن ہار گیا ہے اس لئے اب یہ بحث کسی حد تک بے معنی ہو گئی ہے۔
شیل اوستبیری کے مضمون میں البتہ پیش کی گئی دلچسپ تفصیلات اور مباحث دنیا بھر کے سوشلسٹوں کے لئے ضرور اہم ہیں۔ شیل کا دعویٰ ہے کہ 1899ء میں فرانسیسی سوشلسٹ الیگزینڈر میلروں (Alexandre Millerand) لبرل حکومت کی کابینہ میں شامل ہوئے تو تاریخ میں پہلی بار کوئی سوشلسٹ وزارت کے منصب پر فائز ہوا۔ عالمی مزدور تحریک میں اس کے خلاف زبردست ردعمل سامنے آیا۔ کچھ سال بعد یوں ہوا کہ کامریڈ میلروں ریلوے مزدوروں کی ایک بڑی ہڑتال تڑوانے کے لئے حکومتی کوششوں کی قیادت کر رہے تھے۔
اس تجربے کے بعد کئی بار، مختلف ملکوں میں، سوشل ڈیموکریٹس اور بائیں بازو کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ کیا سرمایہ دارانہ حکومت کی کابینہ میں بطور سوشلسٹ وزارت قبول کی جائے یا نہیں۔ مزدور تحریک ان دنوں جمہوری پارلیمان اور ہر فرد کے لئے ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی تھی۔ یاد رہے یورپ میں مزدوروں کی اکثریت اور خواتین کو ووٹ کا حق بیسویں صدی کے شروع میں بھی نہیں تھا۔ مزدور تحریک کا خیال تھا کہ سرمایہ دار حکومتوں میں شمولیت سے مزدور تحریک کی آزادانہ حیثیت متاثر ہو گی۔ اپنے حقوق مزدوروں کو خود لڑ کر حاصل کرنا ہوں گے۔
فرانس کے علاوہ شیل اوستبیری خود سویڈن کی مثال دیتے ہیں جہاں لگ بھگ سو سال پہلے جب ’ووٹ کا حق سب کے لئے‘ کا جھنڈا اٹھا کر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے عام ہڑتال کی اپیل کی تو سویڈن بند ہو گیا۔ ہڑتال نہ صر ف بہت کامیاب رہی بلکہ مزدوروں کا مطالبہ تھا کہ مزید ہڑتالیں کی جائیں۔ ادہر پارٹی کے رہنما یالمر برانتنگ (Hjalmar Branting) جو حکمران لبرل پارٹی کے ساتھ تعاون کر رہے تھے، پیچھے ہٹ گئے۔ یالمر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دو رستے ہیں، عام ہڑتال یا پارلیمنٹ، ہم بیک وقت دو راستوں پر نہیں چل سکتے۔
ان کہا کہنا تھا کہ اگر ہڑتال کی گئی تو لبرل پارٹی کے ساتھ تعاون ممکن نہیں رہے گا۔ بعد ازاں جب سوشل ڈیموکریٹس لبرل پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہونے لگے تو لبرل پارٹی کی دو شرائط تھیں۔ اؤل: سوشل ڈیموکریٹس دفاعی بجٹ میں کمی کا مطالبہ چھوڑ دیں۔ دوم: پارٹی اپنے سوشلسٹ منشور کو زیادہ سنجیدگی سے لینا چھوڑ دے۔
پروفیسر شیل، جو خود بھی لیفٹ پارٹی کے رکن ہیں، کا کہنا ہے کہ مندرجہ ذیل مثالوں کا مطلب یہ نہیں کہ بائیں بازو کو اقتدار میں دلچسپی نہیں رکھنی چاہئے یا بائیں بازو کے لئے یہ بات اہم نہیں کہ حکومت کس جماعت کی بن رہی ہے۔ ان کے بقول، اس کے برعکس بائیں بازو کے لئے یہ سوال بہت اہم ہیں لیکن فیصلہ اس بنیاد پر ہونا چاہئے کہ کہیں حکومت میں شمولیت یا حکومت ملنے کے بعد مزدور طبقے کے مفادات پر حملے تو نہیں کرنے پڑیں گے۔
پاکستانی تجربہ: بھٹو حکومت کے سوشلسٹ وزیر
بھٹو حکومت کا فرانس یا سویڈن کی لبرل حکومت کے ساتھ موازنہ تو مناسب نہ ہو گا۔ یہ کلاسیکل معنوں میں سرمایہ دارانہ حکومت نہ تھی۔ پیپلز پارٹی اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا کر انتخابات جیتی تھی۔ اس کی کامیابی میں لیفٹ کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ کسان تحریک، ٹریڈ یونین، طلبہ تحریک اور دانشور طبقے کا ایک حصہ جو سوشلسٹ نظریات سے متاثر تھا، بھٹو صاحب کے ساتھ مل گیا۔ اہم ترین ناموں میں معراج محمد خان اور بابائے سوشلزم شیخ رشید تھے۔ بھٹو حکومت کو ہم ایک بونا پارٹسٹ حکومت کہہ سکتے ہیں۔
گو معراج محمد خان، جنہیں ایک وقت کے بھٹو کا جانشین کہا اور سمجھا جاتا تھا، عام انتخابات میں تو نہیں اترے لیکن بھٹو صاحب نے انہیں اپنی کابینہ میں جگہ دی۔ ادہر جب کراچی میں لانڈھی کے مزدوروں پر گولی چلی تو معراج محمد خان نے وزارت سے استعفیٰ دیا اور کابینہ سے باہر آ گئے اور پیپلز پارٹی سے نکل کر اپنی سیاسی جماعت قومی محاذ آزادی کی بنیاد رکھی۔
شیخ رشید بھی وفاقی وزیر بنے۔ انہیں صحت کا قلم دان دیا گیا۔ انہوں نے جنریک ڈرگ سکیم متعارف کرائی جو پبلک انٹرسٹ کے حوالے سے ایک یادگار قدم تھا۔ بھٹو دور میں وہ فیڈرل لینڈ کمیشن کے چیئرمین بھی رہے۔ اس کمیشن کے ذمے زرعی اصلاحات پر عمل درآمد کرانا تھا مگر شیخ رشید کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے رہے اور بھٹو دور کے اختتام پر اس کمیشن کی کارکردگی بہت قابل قدر قرار نہیں دی جا سکتی۔ قومیائی گئی زمین کا بہت کم حصہ (تقریباً دس فیصد) کسانوں میں تقسیم کیا جا سکا۔ بے نظیر بھٹو نے جب پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی تو شیخ رشید کو دھیرے دھیرے کونے میں لگا دیا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے پارٹی کا علیحدہ دھڑا بنانے کا فیصلہ کیا مگر ایسا کر نہ سکے (افسوس ایک وقت میں جو نام پورے پاکستان میں سوشلزم کی پہچان تھا، اب اگر یہ نام لیا جائے تو راولپنڈی کے ایک بدزبان، بد تہذیب سیاستدان کا چہرا ذہن میں آتا ہے۔ بائیں بازو کے حلقوں سے باہر، نوجوان طبقے میں شائد ہی بابائے سوشلزم بارے کسی کو علم ہو)۔
بھٹو کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن بھی سوشلسٹ سمجھے جاتے تھے۔ بھٹو سے اختلافات کے باعث وہ بھی خاموشی سے ایک طرف ہو گئے۔
فیض صاحب بھی بطور مشیر ثقافت بھٹو حکومت میں شامل رہے۔
ان لوگوں کی بھٹو کابینہ میں شمولیت درست تھی یا غلط، یہ ایک لمبی بحث ہے۔ ان دنوں کہ جب پاکستانی پارلیمنٹ کا واحد سوشلسٹ رکن علی وزیر مسلسل جیل میں ہے، کابینہ میں سوشلسٹ وزیر بارے بحث بالکل بے معنی بات لگتی ہے لیکن بطور سوشلسٹ ہمیں اپنی تاریخ کے ہر موڑ کا اچھی طرح ادراک ہونا چاہئے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔