تاریخ

چے گویرا بطور وزیر سائنس

ہیلن یافے

مندجہ ذیل تحریر ہیلن یافے کے طویل مضمون سے ایک اقتباس ہے۔ یہ مضمون اکیڈیمک جریدے ’گلوبلائزیشنز‘ میں شائع ہوا۔ ترجمہ: فاروق سلہریا

انقلاب کیوبا کے ایک سال بعد، جنوری 1960ء میں کیوبن اکیڈمی آف سائنسز سے خطاب کرتے ہوئے فیدل کاسترو نے اعلان کیا: ”کیوبا کا مستقبل درحقیقت اہل سائنس کا مستقبل ہو گا“۔

اُن دنوں کیوبا میں شرح تعلیم کی بری حالت تھی لہٰذا کیوبا میں سائنسی تحقیق کی حالت بھی پتلی تھی۔ ایسے میں کاسترو کے بیان کو ایک خواب ہی قرار دیا جا سکتا تھا۔ کاسترو کا کہنا تھا کہ انقلاب کو سوچنے والے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی ذہانت کو ’اچھائی‘کے لئے، ’انصاف‘ کے حق میں، قوم کے مفاد میں استعمال کریں۔ اس بیان کے بعد کئی منصوبے شروع کئے گئے اور نئے قواعد جاری کئے گئے، کئی ادارے بنائے گئے۔ 1961ء میں ناخواندگی ختم کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ 1962ء میں یونیورسٹی ریفارم لا منظور کیا گیا۔ 1965ء میں قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق قائم کیا گیا۔

نئے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنائی گئیں۔ نئے اساتذہ کو تربیت دی گئی۔ سوشلسٹ ممالک، لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک اور دیگر جگہوں سے ہزاروں ماہر تعلیم، مشیر اور ٹیکنیشن کیوبا پہنچے۔ ہزارہا کیوبن طالب علم بیرون ملک تعلیم کے لئے گئے۔

قومی ترقی کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کو زیر ِاستعمال لانے کی سب سے زیادہ وکالت چے گویرا کر رہے تھے جو 1961ء تا 1965ء کیوبا کے وزیر صنعت تھے۔ چے نے سوشلزم کی جانب پیش رفت کے لئے معاشی مینجمنٹ کے حوالے سے،کیوبن حالات سے مطابقت رکھنے والے، ایک مخصوص نظام کو متعارف کرایا جسے بجٹری فنانس سسٹم کا نام دیا گیا۔

چے گویرا نے جن عملی پالیسیوں کو متعارف کرایا اس کے تین ماخذ تھے: سرمایہ داری کا مارکسی تجزیہ، سوشلسٹ پولیٹیکل اکانومی بارے مباحث میں شمولیت اور سرمایہ دار کارپوریشنز کے تکنیکی اور انتظامی کامیابیوں کا مطالعہ۔

چے کے نزدیک سوشلزم شعور اور تکنیک پر مبنی مظہر کا نام ہے۔ چے کا خیال تھا جدید ٹیکنالوجی بشمول الیکٹرانکس، آٹو میشن اور کمپیوٹنگ کی مدد سے پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ اس جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد تکنیکی تخلیق اور انتظامی کنٹرول ہوں گے۔ پیداوار میں اضافے کے لئے مزدوروں سے یہ اپیل نہیں کی جائے گی کہ یہ ان کے اپنے مفاد میں ہے، نہ ان کو کوئی فائدوں کا لالچ دے کر پیداوار بڑھائی جائے گی، نہ ہی ان کے استحصال میں اضافہ کر کے پیداوار بڑھائی جائے گی۔ چے کا خیال تھا کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے کیوبا ترقی کے مدارج اس طرح طے کرے گا کہ اسے بعض مدارج چھلانگ لگا کر گزرنا ہوں گے۔ چے کا کہنا تھا:

”ہم اُن ممالک کے نقش قدم پر نہیں چل سکتے جنہوں نے سرمایہ داری کے راستے پر چل کر ترقی کی…(یعنی) پہلے طاقتور مکینیکل انڈسری کا سست رو عمل شروع ہوا، اس کے بعد میٹلرجی کی جدید شکل سامنے آئی جس کے بعد کیمیکل اور آٹومیشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہمیں بعض مراحل چھلانگ لگا کر پاٹنے ہوں گے۔ اور…ہمیشہ کوشش کرو کہ بغیر کسی خوف کے دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی کا ستعمال کیا جائے“۔

چے گویرا کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں منافع کے حصول نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے صنعتی ترقی کو جنم دیا، یوں مسلسل پیداواری قوتوں کو انقلابی تبدیلی سے روشناس کرایا۔

سوشلسٹ حکومت کو ایسا طریقہ کار ڈھونڈنا ہو گا کہ پیداوار میں اضافے کے لئے سائنس اور تکنیک کو بروئے کار تو لایا جائے مگر سر مایہ دارانہ طریقہ کار بروئے کا رنہ لانا پڑے کیونکہ اس طرح کیوبا کا سوشلزم کی جانب سفر رکاوٹوں کا شکار ہو جائے گا۔ پیداوار میں فوری اضافہ تو پیداوار میں منصوبہ بندی، دولت کی تقسیم ا ور مزدوروں کو مراعات دے کر کیا جا سکتا ہے۔ ہاں البتہ مسلسل بنیادوں پر معاشی ترقی کے لئے تحقیق اور ایجادلازمی ہے۔

چے کے نزدیک سوال یہ تھا کہ اس مقصد کا حصول ایک ایسے ملک میں کیسے ممکن ہے جو پس ماندہ ہے، جو آمریت اور سامراج کے چنگل سے ایک متشدد انقلاب کے ذریعے ابھی ابھی نکلا ہے، جس پر پابندیاں عائد ہیں، جس پر حملے جاری ہیں اور جو ابھی سوشلزم کی جانب محو ِسفر ہے؟

اس چیلنج سے نپٹنے کے لئے چے نے وزارت ِصنعت میں ایک خصوصی محکمہ قائم کیا تا کہ تحقیق اور ترقی کو ایک ادارہ جاتی شکل دی جا سکے۔

Helen Yaffe
+ posts

ہیلن یافے یونیورسٹی آف گلاسگو میں لیکچرر ہیں۔ ان کی کتاب ’وی آر کیوبا: ہاﺅ اے ریولوشنری پیپل ہیو سروائیوڈ ان اے پوسٹ سویٹ ورلڈ‘ یئل بکس نے شائع کی ہے۔