ہیلن یافے
ساٹھ سال ہو چلے، کیوبا ہر طرح کی پیش گوئیاں غلط ثابت کرتا آیا ہے اور ہر تجزئے کی تردید کرتا آیا ہے۔ کیوبا تضادات سے بھر پور ملک ہے: غربت کے باوجود انسانی فلاح (ہیومن ڈویلپمنٹ) کے معیار پر پرکھا جائے تو دنیا کے امیر ملکوں سے بھی آگے۔ اسی طرح کیوبا دنیا بھر میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد دینے والا ایک بڑا ملک ہے۔
ایک تضاد یہ بھی ہے کہ کیوبا کی معیشت کمزور ہے، اس معیشت کا دوسروں پر انحصار ہے مگر اسی معیشت نے نہ صرف بحرانوں کا مقابلہ کیا ہے بلکہ امریکہ نے جو ناطقہ باقاعدہ طور پر بند کر رکھا ہے، کیوبن معیشت نے اس کا بھی مقابلہ کیا ہے۔ مزید تضادات: کیوبا عہد رفتہ کی یادگار ہے مگر تخیل سے مالا مال، سرکاری طور پر پابندیوں کا شکار ہے مگر دنیا بھر میں اس کے کروڑوں حامی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ زیادہ تر ’پائیدار ترقی کے اہداف‘ (Sustainable Development Goals) کیوبا نے 2015ءمیں حاصل کر لئے تھے مگر اسکے باوجود کیوبا کو ترقی کا ایک ماڈل نہیں سمجھا جاتا۔ ان تضادات کو سمجھنا ضروری ہے۔
ہائر انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل ریلیشنز کی ڈائریکٹر ازابیل الاندے نے ہوانا میں ہونے والی ایک ملاقات میں مجھے بتایا: ”کیوبا ایک پہیلی ہے“۔ انہوں نے کہا ”آپ کو یہ پہیلی بوجھنی ہو گی“۔
تاریخ دانوں کو سالگرہ کے موقع اچھے لگتے ہیں۔ کسی واقعے کی سالگرہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنا وقت بیت چکا اور یوں منظر نامہ تشکیل دینے میں آسانی ہوتی ہے۔ 2019ءمیں انقلاب کیوبا کی 60 ویں سالگرہ تھی جب انقلابی فوج نے باتیستا آمریت سے اقتدار چھینا تھا۔ 2019ءمیں فیدل کاسترو کے اس بیان کو دئےے ہوئے بھی تیس سال گزر گئے کہ اگر سوویت روس ٹوٹ بھی گیا تو انقلابِ کیوبا بچا رہے گا۔
کاسترو نے یہ بیان 26 جولائی 1989ءکو دیا۔ سوویت روس ٹوٹنے میں ابھی 18 ماہ اور دیوار برلن گرنے میں ابھی 4 ماہ باقی تھے۔ انقلاب کیوبا کے پہلے تیس سال تک یہ کہا جاتا رہا کہ سوویت امداد کی وجہ سے کیوبن انقلاب بچا ہوا تھا۔ اگر کیوبن انقلاب سوویت یونین کی موجودگی میں تیس سال بچا رہا تو اب تیس سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو چلا ہے کہ کیوبن انقلاب سوویت امداد کے بغیر زندہ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟
انقلاب ِکیوبا عمر میں ملک کے موجودہ صدر، میگوئل دائس کنیل، سے بھی بڑا ہے۔ یاد رہے صدر میگوئل انقلابِ کیوبا سے مستفید ہونے والے لوگوں کی ایک روشن مثال ہیں۔ ان کے والدین میں سے ایک سکول ٹیچر دوسرا مکینک تھا۔ 1960ءمیں صدر میگوئل وسطی کیوبا کے چھوٹے سے شہر پلاسیتاس میں پیدا ہوئے۔ یہ شہر 1861ءمیں ہسپانوی نوآبادکاروں نے بسایا تھا۔
اپریل 2018ءمیں نیشنل اسمبلی آف پیپلز پاور نے راہول کاسترو کی جگہ میگوئل کو صدر منتخب کر لیا۔ یہ فیصلہ سو فیصد متفقہ نہیں تھا۔ میگوئل کے صدر بننے سے تاریخ کی یہ بہت بڑی پہیلی تو بوجھ لی گئی کہ کاسترو برادران کے بعد انقلاب کیوبا کا خاتمہ ہو جائے گا کہ نہیں۔
سالہا سال تک کیوبا کے ماہرین یہ تصور کرتے رہے کہ انقلاب ِکیوبا کا انحصار فیدل کاسترو کی صحت اور نفسیاتی حالت پر منحصر ہے۔ پھر یوں ہوا کہ کاسترو بیمار پڑ گئے، مستعفی ہوئے، وفات پا گئے مگر کیوبا کا انقلاب جاری رہا۔ ان کی جگہ راہول کاسترو نے لے لی۔
راہول کاسترو کو ’کاسترو کا بھائی‘ کہہ کر پکارا جاتا گویا ان کی گورنس کو سمجھنے کا یہی ایک طریقہ تھا۔ انہیں ’اصلاح پسند‘ قرار دیا جاتا رہا گویا سرمایہ داری کی جانب پر امن سفر شروع ہو چکا۔ راہول نے اقتدار سنبھالا، اصلاحات کیں، مستعفی ہوئے اور سوشلسٹ نظام ابھی بھی قائم ہے۔
اگر کاسترو برادران کے بعد بھی کیوبن انقلاب، بعد از سویت روس عہد میں، زندہ ہے تو پھر وہ کون سے محرکات ہیں جنہوں نے اس انقلاب کو دوام بخشا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم لوگ انقلاب کی خامیاں گنوانے میں ہی مصروف رہے اور اس کی خوبیاں دیکھ ہی نہیں پائے۔
انقلابی عوام
میری کتاب ”وی آر کیوبا: ہاﺅ اے ریولوشنری پیپل ہیو سروائیوڈ ان اے پوسٹ سویٹ ورلڈ“(We Are Cuba: How a Revolutionary People Have Survived a Post-Soviet World) اس چیز کا جائزہ لیتی ہے کہ کس طرح اَسی کی دہائی کے اوخر میں، جب کیوبا تنہائی اور بحران کا شکار تھے، لئے گئے فیصلوں نے اکیسویں دی کے کیوبا کی سمت متعین کی۔
ان فیصلوں کی روشنی میں ملک کے ترقیاتی منصوبے بنائے گئے۔ اسی طرح میڈیکل سائنس ، توانائی، ماحولیات، ثقافت اور تعلیم کے حوالے سے ترجیحات طے کی گئیں۔
دوسرےلوگ اس ترقی پر باقاعدہ ’نظر رکھے‘ ہوئے تھے۔ نیو یارک کینسر سنٹر میں چیئر آف امینیالوجی ڈاکٹر کیلون لی (Kelvin Lee) کا کہنا تھا کہ بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے میں کیوبا کی کامیابیاں ’غیر متوقع اور دلچسپ ہیں‘۔ یاد رہے، نیو یارک کینسر سنٹر کیوبا کی امینیو تھراپی کا جائزہ لے رہا تھا۔
اس کتاب میں صرف حکومتی پالیسیوں کی بات نہیں کی گئی۔ یہ جائزہ بھی لیا گیا ہے کہ کن حالات اور مشکلات میں فیصلہ سازی کی گئی۔ یہ جائزہ بھی لیا گیا ہے کہ اس فیصلہ سازی کا نصب العین کیا تھا، ایجنڈا کیا تھا اور اس کی تحریک کہاں سے مل رہی تھی۔
اس کتاب میں ایک ایسے بنیادی عنصر کی سامنے لایا گیا ہے جس کا کیوبا بارے کی گئی کمنٹری میں زیادہ تذکرہ نہیں کیا جاتا ہے یعنی: فیصلہ سازی میں لوگوں کی شمولیت۔ کیوبن شہری نہ صرف پالیسی سازی اور اصلاحات پر تنقید کرتے ہیں، ان میں تبدیلیاں اور ترمیمیں بھی لے کر آتے ہیں۔ یہ سب عوامی نمائندگی کے چینلز، پبلک فورمز، قومی جرگوں اور ریفرنڈم کے ذریعے سر انجام پاتا ہے۔ یوں انقلابی عوام کی آواز اپنا اظہار کرتی ہے۔
سوشلسٹ کیوبا میں ’حکومت‘ کے نمائندوں تک ’عوام‘ کی تنظیموں کے ذریعے با آسانی رسائی حاصل ہے۔ کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب انقلابی عوام سے ملنے والی حمایت کی وجہ سے بچا ہے۔ اگر اس نقطے پر توجہ نہ دی جائے تو حکومت کے جائز ہونے وار طاقت کے توازن بارے غلط دعوے اور مسخ شدہ تجزئےے ہی کئے جا سکتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ فیدل کاسترو کی ان تھک قیادت اور بعد ازاں راہول کاسترو کے غالب اثرات سے انکار کیا جا رہا ہے مگر جیسا کہ تاریخ دان ہال کیپلک کا کہنا ہے کہ کسی گڑ بڑ سے نپٹنے کے لئے نہ تو کبھی فوجی دستے بلائے گئے نہ پولیس کے خاص دستے۔ کاسترو برادرز نے جو منصوبے بھی شروع کئے ان کا انحصار دونوں کی اس صلاحیت پر منحصر تھا کہ وہ ان منصوبوں کے لئے لوگوں کی حمایت بھی حاصل کرتے۔
اس لئے مسلسل اس بات کی ضرورت رہتی کہ لوگوں سے مکالمہ کیا جائے، انہیں باتیں واضح کی جائیں، قائل کیا جائے اور یوں مفاہمت کے ذریعے لوگوں کو متحرک کیا جاتا۔
کتاب کے ذیلی عنوان میں جن انقلابی لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے مراد کمیونسٹ کارکن، پارٹی اہل کار یا ریاستی بیوروکریٹ نہیں۔ اس سے مراد ہے ’عام لوگ ‘اور ان کی برادریاں جنہوں نے معاشی بحران کے ’سپیشل پیریڈ‘ کے دوران مشکلات کے باوجود جینے کے مختلف ڈھب نکال لئے۔
کتاب میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو شہروں میں رہتے تھے لیکن انہوں نے فارمنگ شروع کر دی تاکہ اپنے اور اپنے پڑوسیوں کے لئے خوراک مہیا کر سکیں۔ ان ”لاتعلق“ نوجوانوں کا ذکر ہے جو ”افکار کی لڑائی“ میں شہری فوج بن کر سامنے آئے۔ ان ماہرین ماحولیات کا ذکر ہے جنہوں نے پائیدار ترقی اور ماحول دوست توانائی کے حصول کو یقینی بنایا، ان ڈاکٹروں نرسوں کا ذکر ہے جو اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر دور دراز کے ملکوں میں مصائب اور غربت کا شکار لوگوں کی مدد کرنے پہنچے، ان میڈیکل سائنسدانوں کا ذکر ہے جنہوں نے دن رات کی محنت سے وہ دوائیاں بنائیں جو کیوبا امریکی پابندیوں کی وجہ سے یا عالمی منڈی میں مہنگی ہونے کی وجہ سے درآمد نہیں کر سکتا تھا، ان سوشل سائنٹسٹوں کا ذکر ہے جو یہ وارننگ دے رہے تھے کہ کیوبا میں کارکردگی کا فقدان ہے اور ان لاکھوں کیوبن شہریوں کا ذکر ہے جو بار بار ان پالیسیوں پر بحث کے لئے سیاسی عمل میں حصہ لیتے رہے جن کے نتیجے میں ان کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب ہونے تھے۔
”انقلابی لوگوں“ سے مراد وہ ناراض لوگ بھی ہیں جو حکومت کے ناقدہیں، جو ریاستی وسائل ”چوری“ کرتے ہیں، غیر قانونی مزدوری کرتے ہیں، سیاحوں سے ہونے والی آمدن پر گزارہ کرتے ہیں، ان میں بے روزگار نوجوان بھی شامل ہیں۔ کتاب میں ثابت کیا گیا ہے کہ ایسے گروہ تجدید ِسوشلزم کے منصوبوں میں شامل کئے جا سکتے ہیں اور کئے جاتے رہے ہیں۔
میرا مقصد تھاکیوبا بارے ایسی کتاب لکھی جائے جو ”اصلی کیوبا“ کی تصویر کشی کرے۔ کیوبا بارے اکثر تحریریں سنکی پن اور ہتک آمیز روئےے پر مبنی ہوتی ہیں۔
میں مندرجہ ذیل پیش رفتیں سامنے لانا چاہتی تھی: 1990ءکی دہائی سے کیوبا کی میڈیکل انٹرنیشنل ازم میں اضافہ، 2000ءسے افکار کی جنگ جس میں ثقافت اور تعلیم پر زور دیا گیا، 2005 ءسے شروع ہونے والا توانائی کا انقلاب جس کا مقصد ماحول دوست توانائی اور توانائی کا بہتر استعمال تھا اور کیوبا کے بائیو ٹیکنالوجی شعبے کی ترقی۔
ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مختلف مراحل میں جو اقدامات اٹھائے گئے ان کی سیاسی معیشت کیا تھی۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل منصوبوں کا ذکر کیا گیا ہے: 1980ءکی دہائی کے اواخر میں متعارف کرائی گئی ”اصلاحات“، نوے کی دہائی کا معاشی بحران جسے ”سپیشل پیریڈ“ کہا جاتا ہے، راہول کاسترو کے دور میں 2008ءسے شروع ہونے والی اصلاحات، اس کے علاوہ موجودہ دور میں ہونے والی بحثیں کہ معاشی کارکردگی کو کیسے بہتر بنانا ہے اور سماجی انصاف میں کیسے اضافہ کرنا ہے۔
آج کے دن تو ترقی کا سوشلسٹ راستہ ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے اس لئے اس کے مستقبل بارے پیش گوئی کرنا مشکل ہے مگر تاریخ کا جائزہ لیں تو ان اندرونی و بیرونی عناصر کا تعین کیا جا سکتا ہے جو مستقبل پر اثر انداز ہوں گے۔
کیوبا گزارہ کیسے کرتا ہے؟
سیاسی نمائندے، سائنسی اداروں کے سربراہ، نوجوانوں کے رہنما یا دیگر لوگ جن کا اس کتاب میں ذکر ملتا ہے، صدر میگوئل کی طرح وہ بھی عام گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں سے جب بھی میں کیوبا جاتی ہوں تو کئی بار سابق وزرا، سفارت کاروں، سیاسی رہنماﺅں، دانشوروں اور دیگر پیشہ ور افراد کے گھر آنا جانا ہوتا ہے۔ ان کے گھر وں میں بھی کسی قسم کے تعیشات کی نشانیاں نہیں ملتیں۔ وہ بھی اپنے پڑوسیوں کی طرح سادہ سی زندگی گزارتے ہیں۔ ریاستی ملازمین جن سے اس کتاب کے لئے انٹرویو کئے گئے کیوبن معیار کے مطابق بھی کم تنخواہ لیتے ہیں حالانکہ ان کی تعلیمی قابلیت اور ذمہ داریاں کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔
ازابیل الاندے نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ انقلاب سے قبل ان کے خاندان کی خواہش تھی کہ وہ بڑی ہو کر امریکی فرم ”کیوبن الیکٹرک کمپنی“ میں کام کریں۔ ہوا یہ کہ انقلاب کے بعد وہ یونیورسٹی گئیں، اعلیٰ تعلیم حاصل کی، سفیر بنیں اور آج وہ ایک ایسے ادارے کی سربراہ ہیں جہاں سفارت کاروں کو تربیت دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے: ”میں کروڑ پتی تو نہیں مگر میں نے زندگی میں جو کچھ حاصل کیا کیا یہ انقلاب سے پہلے ممکن تھا؟ نہیں۔ یہ صرف انقلاب کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا۔“
اسی طرح خورگے پیریز اویلا کی کہانی ہے۔ وہ ایک بس ڈرائیور کی اولاد ہیں۔ وہ آئی پی کے جیسے ٹراپیکل بیماریوں عالمی شہرت یافتہ ہسپتال کے سربراہ ہیں۔ یہ وہ عام لوگ یں جنہیں کیوبن انقلاب نے موقع دیا کہ وہ غیر معمولی کامیابیاں حاصل کریں۔
اس کتاب میں میرے اپنے مشاہدات بھی شامل ہیں۔ میں نوے کی دہائی میں پہلی دفعہ کیوبا گئی تو میری عمر انیس سال سے بھی کم تھی۔ اب تک کئی بار جا چکی ہوں۔ جب پہلی بار گئی تو سپیشل پیریڈ چل رہا تھا اور مجھے یاد ہے لوگ انفرادی اور اجتماعی سطح پر کس مشکل سے گزارہ کر رہے تھے۔ اس تجربے نے میری زندگی بدل دی۔ بعد ازاں کئی بار کیوبا آئی۔ کبھی عالمی میلوں میں شرکت کے لئے، کبھی سالیڈیرٹی برگیڈز کا حصہ بن کر، تحقیق اور فیلڈ ورک کے لئے، سیمینار میں شرکت کے لئے تو کبھی کسی تحقیقی دورے پر۔
2015ءمیں جب ہوانا اور امریکہ میں سفارتی تعلقات بحال ہوئے تو کیوبا راک بینڈز، پاپ سٹارز، سیاست دانوں، فلمسازوں اور فیشن اندسٹری کی پسندیدہ منزل بن گیا۔ مارچ 2016 ءمیں صدر اوبامہ نے کیوبا کا دورہ کیا۔ اس کے فوری بعد برطانوی وزیر خارجہ آئے۔ پھر فرانسیسی صدر اور دیگر یورپی وزرا بھی آئے۔ اس دوران روس، چین اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے سربراہان یہاں آ چکے تھے۔ امریکی پابندیوں کے لگائے زخم کچھ مندمل ہوئے۔ وہ یوں کہ اوبامہ انتظامیہ نے کچھ امریکی کمپنیوں کو تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے لائسنس جاری کئے۔
اندریں حالات، 2008ءسے ملک کے اندر بھی اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ کسانوں کو نجی سطح پر بیس لاکھ ہیکٹر ریاستی زمین الاٹ کی گئی ہے۔ 2011ءمیں ”گائڈ لائن فار اپ ڈیٹنگ دی اکنامک اینڈ سوشل ماڈل“، جس میں 2016ءمیں ترمیم کی گئی، کے نتیجے میں معیشت میں ریاست کنٹرول کم کیا گیا اسی طرح ریاستی سرمایہ کاری میں کمی کی گئی۔
”میریل سپیشل ڈویلپمنٹ زون“ اور” فارن انویسٹ منٹ لا 2014ئ“ کا مقصد ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار ہو سکے۔ ہزاروں سرکاری ملازمین کو کوآپریٹوز اور نجی شعبے میں بھیجا گیا۔ تارکین وطن سے حاصل ہونے والی رقوم میں اضافہ کیا گیا۔ تیس سال میں پہلی بار کیوبن شہریوں کو یہ حق ملا کہ وہ اپنا گھر یا گاڑی اوپن مارکیٹ میں بیچ سکتے ہیں۔
ان اقدامات بارے بعض غیر ملکی مبصرین کا کہنا ہے کہ کیوبا، چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے، سرمایہ داری کی بحالی کی طرف جا رہا ہے۔ ان مبصرین نے ہی اوبامہ انتظامیہ کو بہانہ فراہم کیا کہ کیوبا سے تعلقات معمول پر لائے جبکہ مغربی پالیسی ساز، اکیڈیمکس اور تجزیہ نگار یہ اندازے لگا رہے تھے کہ کیوبا مشرقی یورپ کی طرح سرمایہ داری کی طرف واپس جائے گا یا چین کی طرح ریاستی ڈھانچے کی زیر نگرانی بتدریج معاشی لبرلائزیشن کے ذریعے۔
ادھر کیوبن حکومت کا کہنا ہے کہ سوشلسٹ نظام کو بچانے کے لئے یہ اقدامات ضروری ہیں۔ سچ کیا ہے؟
ٹرمپ کے آتے ہی تعلقات کی بحالی تو ریت کے گھروندے کی طرح بہہ گئی۔ مارچ 2020ءتک ٹرمپ انتظامیہ کیوبا کے خلاف 191 اقدامات اٹھا چکی تھی، یہ اقدامات کیوبن انقلاب کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ اسی دوران کرونا وبا کے دوران کیوبا نے جو کردار ادا کیا اس کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کے انقلابی لوگوں کی تعریف کی گئی۔ کرونا کے علاج میں ایک کیوبن دوائی کا کامیاب استعمال ہو رہا ہے جبکہ کیوبن ڈاکٹرز درجنوں ملکوں میں پہنچے ہیں۔
ایک چھوٹا سا کیربئین جزیرہ، صدیوں سے کلونیل ازم اور سامراجیت کی وجہ سے پس ماندگی کا شکار، ساٹھ سال سے امریکی پابندیوں اور بائیکاٹ کا نشانہ، ان تمام مشکلات کے باوجود پوری دنیا کو کیا کچھ فراہم کر رہا ہے؟ میری کتاب ایسے ہی سوالوں کا جواب دیتی ہے۔