لیون ٹراٹسکی
ترجمہ: فاروق سلہریا
لیون ٹراٹسکی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ولادیمیر لینن کے ہمراہ انقلاب روس کی قیادت کرنے والے وہ دوسرے اہم ترین رہنما تھے۔ انقلاب کے بعد وہ سرخ فوج کے سربراہ رہے۔ ٹراٹسکی نے بے شمار ثقافتی و سیاسی سوالات پر سوشلسٹ نظریہ دان کے طور پر لکھا۔ ان کے دوست انہیں ’قلم‘ کہہ کر پکارتے کیونکہ وہ لکھنے پر ملکہ رکھتے تھے۔ ٹراٹسکی کا شمار بیسویں صدی کے بہترین دماغوں اور نظریہ سازوں میں ہوتا ہے۔ ان کا زیر نظر طویل مضمون دراصل میکس آڈلر کے ایک کتابچے پر تبصرہ تھا۔ کتابچہ اور ٹراٹسکی کا تبصرہ، دونوں 1910ء میں شائع ہوئے۔ میکس آڈلر آسٹرین سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان اخبار کے مدیر تھے۔ ان کا کتابچہ ویانا سے شائع ہوا۔ ٹراٹسکی کا تبصرہ سینٹ پیٹرز برگ کے ایک اخبار نے روسی زبان میں شائع کیا۔ مندرجہ ذیل ترجمہ انگریزی زبان سے کیا گیا ہے۔ انگریزی ترجمے میں شامل مترجم برائن پیرس کی وضاحتوں کو سرخ رنگ میں ہائی لائٹ کیا گیا ہے اور یہ مضمون تین اقساط میں شائع کیا جائے گا: مدیر
دس سال قبل، حتیٰ کہ چھ سات سال پہلے تک، روس میں عمرانیات کے موضوعی دبستان (سبجیکٹو اسکول آف سوشیالوجی) کے لوگ با آسانی آسٹرین فلسفی میکس آڈلر کے تازہ کتابچے کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے تھے (میکس آڈلر آسٹریائی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان اخبار ’Arbeiterzeitung‘ کے مدیر تھے)۔
پچھلے پانچ چھ سال کے اندر البتہ ہم عمرانیات کے معروضی مکتبہ فکر کی بھٹی سے ایسے کندن بن کر نکلے ہیں اور اس کے اسباق زخموں کی صورت ہمارے بدن پر ایسے کندہ ہیں کہ دانشور طبقے کی اعلی ترین تخلیق، حتیٰ کہ میکس آڈلر کے ”مارکسی“ قلم سے برآمد ہونے والا کوئی تجزیہ بھی اب روسی موضوعیت کے کسی کام آنے والا نہیں۔ اس کے برعکس، جو حشر روس کے موضوعی دبستان کا ہوا ہے وہ میکس آڈلر کے الزامات اور دعوؤں کا بہترین جواب ہے۔
میکس آڈلر کے مذکورہ کتابچے کا موضوع ہے ”سوشلزم اوردانشور طبقہ“۔ آڈلر کی نظر میں یہ موضوع محض تھیوریٹیکل تجزئے کا متقاضی نہیں بلکہ یہ ضمیر کا بھی مسئلہ ہے۔ وہ دانشوروں کو قائل کرنا چاہتے ہیں۔ یقین محکم سے بھر پور یہ کتابچہ دراصل ان کی اس تقریر کا متن ہے جو انہوں نے سوشلسٹ طالب علموں کے ایک جلسے میں کی۔ تبلیغ کی نیت سے لکھے گئے اس مختصر سے کتابچے میں ایسے خیالات پر زور دیا گیا ہے جو کسی طور پر بھی منفرد نہیں کہلا سکتے۔ آڈلر ہر قیمت پر اپنے نظریات کے لئے دانشور طبقے کی ہمدردی اور سیاسی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یوں سیاسی خواہشات سماجی تجزئے پر غالب آ جاتی ہیں۔ اس کتابچے کا جو لہجہ اور اس میں جو کمزوریاں ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے۔
دانشور طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے؟ آڈلر نے دانشور طبقے کی تعریف اخلاقی بنیاد کی بجائے سماجی بنیاد پر کی ہے: دانشور طبقہ کسی تاریخی عہد کی بنیاد پر تشکیل نہیں پاتا بلکہ یہ طبقہ معاشرے کی وہ پرت ہے جو کسی بھی طرح ”ذہنی مشقت“ والے پیشے سے وابستہ ہے۔
”ذہنی“ اور ”جسمانی“ مشقت میں خط تقسیم کھینچنا کتنا ہی مشکل کام کیوں نہ سہی، دانشور طبقے کے عمومی سماجی خطوط (فیچرز) کافی حد تک واضح ہیں اور ہمیں مزید تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ گو آڈلر کے نزدیک دانشور ایک بین الطبقاتی گروہ ہیں مگر دانشور بورژوا معاشرے کے فریم ورک میں پایا جانے والا ایک طبقہ ہیں، خیر، بات گھوم پھر کر وہیں آ جائے گی۔
آڈلر کی نظر میں سوال یہ ہے: اس طبقے کی روح پر کس کا یا کس چیز کا حق ہے؟ اس طبقے کے سماجی کردار کے پیش نظر، اپنی ماہیت کے اعتبار سے، کون سا نظریہ اس طبقے پر فرض ہے؟
آڈلر کا جواب ہے: اجتماعیت والا نظریہ۔
یورپی دانشور، باوجودیکہ اجتماعیت کے ساتھ ان کا کوئی براہ راست تضاد نہیں بنتا، محنت کشوں کی جدوجہد سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ دانشوروں میں محنت کشوں کی جدوجہد بارے کوئی دلچسپی نہیں پائی جاتی۔ آڈلر بھی اس صورت حال سے نا واقف نہیں مگر آڈلر کی نظر میں ایسا ہونا نہیں چاہئے کیونکہ اس لا تعلقی اور عدم دلچسپی کی کوئی معروضی بنیادیں موجود نہیں۔ آڈلر بھرپور طریقے سے ایسے مارکس وادیوں کی مخالفت کرتے ہیں جن کی نظر میں ایسے عمومی حالات ناپید ہیں جن کے نتیجے میں دانشور طبقہ بڑے پیمانے پر سوشلزم کی طرف راغب ہو جائے۔
وہ اپنے دیباچے میں رقم طراز ہیں: ”ایسے عناصر موجود ہیں…اور یہ عناصر معاشی نہیں بلکہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں…جو دانشوروں کے پرولتاری حالات ِزندگی کے علاوہ بھی اہم ہیں اور ان کے ایک بڑے حصے کو مزدوروں کی سوشلسٹ تحریک کی جانب لانے کا موجب بن سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دانشور طبقے کو اس تحریک کی ماہیت سے بھی آگاہ کیا جائے اور دانشوروں کی سماجی حیثیت کی آگاہی بھی انہیں دی جائے“۔
وہ عناصر ہیں کون سے؟ آڈلر اس کا جواب یوں دیتے ہیں: ”دانشوروں کے روحانی مفادات ہوتے ہیں اور سب سے اہم یہ بات کہ ان مفادات کی تکمیل کا موقع پانا دانشورانہ زندگی کا بنیادی جزو ہے یعنی ان کا نظریاتی مفاد اور ان کا معاشی مفاد برابر حیثیت رکھتے ہیں۔ پس اگر آپ معاشی بنیاد کے علاوہ بھی کوئی وجہ تلاش کرنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد پر دانشور طبقہ سوشلسٹ سیاست کا حصہ بن سکتا ہے تو اصولی طور پر ایسا کرنا ممکن ہے۔ نہ صرف سوشلزم کا ثقافتی پہلو بلکہ ذہنی مشقت کے لئے درکار حالات کی وجہ سے بھی دانشور طبقہ سوشلزم کی جانب آ سکتا ہے(ص 7)۔
ساری تحریک کی طبقاتی نیچر سے ماورا (آخر یہ تحریک ایک راستہ ہی تو ہے)، اس تحریک کی سیاسی و جماعتی شکل سے ماورا (آخر پارٹی مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہی تو ہے)!۔ سوشلزم اپنے جوہر کے اعتبار سے، بطور ایک عالمگیر نظریہ،یہی تو چاہتا ہے کہ ذہنی مشقت کو ہر شکل میں ہر طرح کے سماجی و تاریخی بندشوں اور زنجیروں سے آزادی مل جائے۔
آڈلر کی نظر میں یہ ہے وہ نقطہ جو ایک ایسے پل کا کام دے گا جسے پار کر کے دانشور طبقہ سوشل ڈیموکریٹک کیمپ تک پہنچ جائے گا(جس عہد میں ٹراٹسکی نے یہ مضمون لکھا سوشل ڈیموکریسی سے مراد سوشلسٹ سیاسی تحریک تھی۔ سوشل ڈیموکریسی سے مراد وہ لوگ نہیں تھے جنہوں نے پہلی عالمی جنگ میں مزدور طبقے سے غداری کی)۔
مندرجہ بالا نقطہ نظر کو ثابت کرنے کے لئے آڈلر نے یہ کتابچہ شائع کیا ہے۔ اس تحریر کی فاش غلطی جس کی طرف نظر فوراً جاتی ہے وہ ہے اس کا غیر تاریخی کردار۔
جس سماجی بنیادپر، آڈلر کے بقول، دانشور طبقے کو اجتماعیت والے کیمپ کا حصہ بن جانا چاہئے، وہ سماجی بنیاد تو ایک لمبے عرصے سے موجود ہے۔ اس کے باوجود کسی یورپی ملک میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ دانشور طبقہ بڑے پیمانے پر سوشل ڈیموکریسی کی طرف مائل ہو گیا ہو۔ یہ حقیقت آڈلر کو بھی اتنے ہی اچھے سے دکھائی دے رہی ہے جتنا واضح طور پر ہم دیکھ رہے ہیں لیکن آڈلر کا خیال ہے کہ محنت کش طبقے سے دانشور طبقے کی لاتعلقی اس کارن ہے کہ دانشور طبقے کو سوشلزم کی سمجھ نہیں آتی۔ ایک طرح سے تو یہ بات درست ہے لیکن آڈلر کی بات اگر درست ہے تو پھر اس بات کی وضاحت کیسے کی جائے کہ ان دانشوروں کو سوشلزم کی تو سمجھ نہیں آتی مگر دیگر انتہائی گھمبیر مسائل کو سمجھ لیتے ہیں؟
گویا یہ بات واضح ہے کہ وہ منطق کے معاملے میں ایسے نالائق نہیں۔ اصل مسئلہ ہے ان کی طبقاتی نفسیات میں موجود غیر منطقی عناصر۔ خود آڈلرنے بھی کتابچے میں ایک باب بعنوان ”ادراک کی بورژوا حدود“…جو اس کتابچے کا بہترین باب ہے…اس بات کا اقرار کیا ہے۔
آڈلر کا مگر خیال ہے، آڈلر کو امید ہے، آڈلر کو یقین ہے…اور اس موقع پر مبلغ آڈلر نظریہ دان آڈلر پر غالب آ جاتا ہے…کہ یورپی سوشل ڈیموکریسی ذہنی مشقت کرنے والوں کی ذہنیت میں موجود غیر منطقی عناصر پر قابو پا سکتی ہے بشرطیکہ سوشل ڈیموکریسی دانشور طبقے کے ساتھ اپنے تعلق کی منطق از سر نو تر تیب دے۔
دانشور طبقے کو سوشلزم اس لئے سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ روزمرہ زندگی میں انہیں معمول کا سوشلزم انہیں دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ایک اور سیاسی جماعت دکھائی دیتا ہے۔ اگر دانشوروں کو سوشلزم کا حقیقی چہرہ روشناس کرایا جاسکے اور یہ ثابت کیا جا سکے کہ سوشلزم ایک عالمگیر ثقافتی تحریک ہے تو پھر طے ہے کہ سوشلزم ان کی امیدوں کا مرکز و محور بن جائے گا۔ کم از کم آڈلر کا یہی خیال ہے۔
ہم نے ابھی تک اس بات کا جائزہ نہیں لیا کہ کیا دانشور طبقے کے لئے خالصتاً ثقافتی ضروریات (تکنیک کی ترقی، سائنس، آرٹ) ان کے خاندان، سکول، کلیسا اور ریاست کے دئے ہوئے طبقاتی سبق یا ان کے مادی مفادات سے زیادہ طاقت ور ہیں؟
اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض بھی کر لیں کہ دانشور طبقہ دراصل ثقافتی پادریوں کا ایک ایسا ادارہ ہے جسے ہنوز یہ سمجھ نہیں آیا کہ ان کے ثقافتی مفادات کی تکمیل کے لئے بورژوا معاشرے کی سوشلسٹ کایا پلٹ لازمی ہے تو پھر یہ بھر پور سوال پیدا ہوتا ہے: کیا سوشل ڈیموکریسی اخلاقی اور نظریاتی سطح پر دانشور طبقے کو کوئی ایسی چیز پیش کر رہی ہے جو ان تمام چیزوں سے زیادہ پر کشش ہو جو آج تک سوشل ڈیومکریسی نے پیش کی ہیں؟
اجتماعیت کی جدوجہد نقارہ بن کر دنیا بھر میں گونج رہی ہے۔ اس دوران کروڑوں مزدوروں نے ٹریڈ یونین، کو آپریٹو، تعلیمی، سیاسی یا کسی دیگر محنت کش تنظیم کی رکنیت حاصل کی ہے۔ ایک پورے طبقے نے زندگی کی پستیوں سے نکل کر مقدس سیاست کے ایوانوں میں قدم رکھا ہے۔ ان ایوانوں کو ابھی تک صاحب جائداد طبقے کی جاگیر ہی تصور کیا جاتا تھا۔ آئے روز سوشلسٹ پریس…جرائد، سیاسی اخبارات، ٹریڈ یونین کے ترجمان…ہر طرح کی چھوٹی بڑی بورژوا اقدار کا جائزہ لے رہا ہے۔ سماجی و ثقافتی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں (شادی، خاندان، پرورش اور تربیت، سکول، کلیسا، فوج، حب الوطنی، سماجی ہائی جین، جسم فروشی) جس پر سوشلزم نے بورژوا معاشرے کے جواب میں ایک متبادل نظریہ نہ دیا ہے۔ سوشلزم مہذب دنیا کی ہر زبان میں بات کر رہا ہے۔ سوشلسٹ تحریک کی صفوں میں مختلف سوچ اور مزاج رکھنے والے لوگ شامل ہیں جس کا ماضی سماجی تعلقات اور عادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں…مگر دانشور طبقے کو اس کے باوجود ”سوشلزم کی سمجھ نہیں آئی“، اس سب کے باوجود وہ کچھ نہیں کر پا رہے اور انہیں اس عالمگیر تحریک کی ثقافتی و تاریخی اہمیت سمجھ نہیں آ رہی تو کیا ہمیں یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ ان کی اس خوفناک نا سمجھی کی وجوہات بہت گہری ہیں اور اس مسئلے سے ادبی و تھیوریٹیکل طریقے سے نپٹنا سرے سے بے کار کوشش ہے؟
مندرجہ ذیل بات کو تاریخ کے آئینے میں پرکھیں تو صورت حال اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ دانشوروں کی بڑی تعداد سوشلسٹ تحریک کا حصہ اس وقت بنی جب پارٹی نئی نئی بنی تھی، ابھی اپنے بچپن کے دور سے گزر رہی تھی۔ یہ بات یورپ کے ہر ملک کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اس پہلی لہر کے نتیجے میں ’انٹرنیشنل‘ کو بلا کے ذہین نظریہ دان اور سیاست دان میسر آئے۔ جوں جوں سوشل ڈیموکریسی ترقی کرتی گئی، جوں جوں مزدور بڑی تعداد میں اس کے جھنڈے تلے جمع ہوئے توں توں نئے دانشورں کی آمد کم ہوتی گئی (نہ صرف حجم بلکہ تعداد کے لحاظ سے بھی کمی واقع ہوئی)۔
(جرمن سوشل ڈیموکریٹک اخبار) ’Leipzeiger Volkszeitung‘ ایک عرصے تک اشتہار دیتا رہا کہ ادارتی شعبے میں ایک کارکن کی ضرورت ہے جس کے پاس یونیورسٹی ڈگری بھی ہو…مگر بے سود۔ گویا ایک نتیجہ جو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اخذ کر نے پر مجبور ہیں اور یہ نتیجہ آڈلر کے اخذ کردہ نتیجے سے یکسر مختلف ہے، وہ یہ ہے کہ: سوشلزم نے جتنی فیصلہ کن شکل میں اپنا اصل ماخذ بیان کیا ہے، اتنی آسانی سے ہر کسی کو سمجھ آ گئی ہے کہ تاریخ میں سوشلزم کا نصب العین کیا ہے اور اتنے ہی فیصلہ کن انداز میں دانشور طبقہ سوشلزم سے برانگیختہ ہوا ہے۔
گو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دانشور لوگ سوشلزم سے ہی خوف کھاتے ہیں بہر حال یہ بات طے ہے کہ یورپ کے سرمایہ دار ممالک میں کچھ ایسی دور رس سماجی تبدیلیاں آئی ہیں جو مزدوروں اور یونیورسٹی حضرات کے مابین دوستی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہیں مگر بیک وقت ان تبدیلیوں کی وجہ سے مزدور سوشلسٹ تحریک میں شامل ہو ئے ہیں۔
یہ کون سے تبدیلیاں ہیں؟ پرولتاریہ کے ذہین ترین افراد، گروہ اور دھڑے یا تو سوشل ڈیموکریسی کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں یا ہو رہے ہیں۔ صنعت اور ٹرانسپورٹ کی ترقی و ارتکاز اس عمل کو مزید تیز کر رہا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے دانشوروں کا تو ایک بالکل مختلف عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں کی سرمایہ دارانہ ترقی اس طبقے کے بہترین دماغوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی ہے۔ ایسی با صلاحیت ترین دانشورانہ قوتیں جن میں تخیلقاتی صلاحیتیں تھیں، وہ سرمایہ دارانہ صنعت،ٹرسٹوں، ریلوے کمپنیوں اور بینکوں میں کھپ گئی ہیں کیونکہ وہاں انہیں تنظیمی کام کرنے کے لئے زبردست تنخواہیں ملتی ہیں۔ اب تو دوسرے درجے کے لوگ ہی سرکاری نوکری اور ریاستی دفتروں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ اور تو اور، طرح طرح کے رجحان رکھنے والے مدیر بھی یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ قابل ”لوگ“ ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے نیم پرولتاری دانشور طبقے کا جس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے…یہ طبقہ مادی عدم تحفظ کا شکار رہتا ہے اور اس عدم تحفظ سے اسے کبھی نجات نہیں ملتی…یہ طبقہ ثقافت کے عظیم شعبے میں ثانوی نوعیت کا اور اضافی کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی نظر میں وہ عظیم ثقافتی مشاغل جن کا ذکر آڈلر کرتا ہے اتنے پر کشش نہیں کہ وہ سوشلسٹ تحریک کے ساتھ سیاسی ہمدردی پیدا کر لیں۔
اس پر مستزاد یہ صورت حال کہ کسی یورپی دانشور کا اجتماعیت کے کیمپ میں جانا نا ممکن نہ سہی مگر یہ کہ پرولتاری جماعتوں مین وہ اثر و رسوخ کی حامل کسی پوزیشن پر جگہ نہیں پا سکتا۔ یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک مزدور سوشلزم کی جانب اجتماعی طور پر، اپنے طبقے کے ہمراہ آتا ہے اور اپنے طبقے سے مفر اس کے لئے ممکن نہیں۔ اس کے برعکس ایک دانشور سوشلزم کی طرف اپنے طبقاتی رشتے توڑ کر آتا ہے، ایک شخصیت کی حیثیت میں لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ بطور فرد اپنے اثر و رسوخ کا اظہار کرے۔
یہ ہے وہ نقطہ جہاں اسے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رکاوٹیں بڑی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک تحریک کے آغاز پر ہر دانشور جو اس تحریک کا حصہ بنا، چاہے وہ اوسط درجے کا دانشور ہی کیوں نہ تھا، اسے مزدور تحریک میں نمایاں جگہ ملی۔ آج اگر کوئی نیا شخص مغربی یورپ کے ممالک میں اس طرف آنا چاہے تو اسے نظر آئے گا کہ مزدور جمہوریت پر مبنی ایک زبردست ڈھانچہ پہلے سے موجود ہے۔ ہزاروں مزدور رہنما ہیں جو اپنے طبقے سے نکل کر آگے آئے ہیں۔ ان مزدور رہنماوں پر مبنی آہنی ڈھانچے کے کندھوں پر وہ آزمودہ کار رہنما براجمان ہیں جو اپنی زندگی میں ہی تاریخی اہمیت حاصل کر چکے ہیں۔ قیادت میں جگہ کوئی ایسا شخص ہی پا سکتا ہے جس کے پاس غیر معمولی صلاحیت ہو…مگر ایسا شخص جان جوکھوں میں ڈال کر جگہ بنانے کی بجائے آسان راستے کا انتخاب کرے گا: صنعت کے شعبے میں جائے گا یا سرکاری نوکری کرے گا لہذا دانشوروں اور سوشلزم کے درمیان، ایک رکاوٹ کے طور پر، سوشل ڈیموکریسی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی حائل ہے۔ اس وجہ سے سوشلزم سے ہمدردی رکھنے والے دانشوروں کے اندر بھی عدم اطمینان پیدا ہوتا ہے۔
یہ تنظیمی ڈھانچہ دانشوروں سے تنظیم (ڈسپلن) کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس ڈھانچے کا تقاضہ ہوتا ہے کہ خود پر قابو رکھو…دانشور لوگ کبھی ”موقع پرستی“ کا شکار ہونے لگتے ہیں اور کبھی انتہا کی ”ترقی پسندی“ کا۔ ایسے موقعوں پر تنظیم انہیں روکتی ہے…نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ایسے جھگڑالو تماشائی بن کر رہ جاتے ہیں جن کی ہمدردیاں انارکزم اور نیشنل لبرلزم کے مابین جھولتی ہیں۔
(میونخ سے شائع ہونے والا ایک فکاہیہ اخبار) ’Simplicissimus‘ ان کا سب سے بڑا نظریاتی ترجمان ہے۔ مختلف شکلوں اور مختلف پیمانے پر تمام یورپی ممالک میں مندرجہ بالا صورت حال دکھائی دے گی۔
کسی بھی دوسرے گروہ کی نسبت یہ دانشوراس قدر سنکی واقع ہوئے ہیں کہ کوئی بھی کشف، سوشلزم کی ثقافتی اہمیت، ان کی روح کو چھو نہیں سکتے۔ فقط منفرد نوع کے ”نظریہ دان“…یہ اصطلاح اچھے انداز میں بھی استعمال کی جا رہی اور برے انداز میں بھی…سوشلسٹ تھیوری سے متاثر ہو کر سوشلزم کی جانب آ سکتے ہیں۔ اس کی مثال اینٹن مینجر یا اٹلانٹیکس ہو سکتے ہیں (’Anton Menger‘ ایک آسٹریائی قانون دان تھا، ’Atlanticus‘ لٹویا نژازجرمن ماہر معیشت تھا جسے عرف عام میں ’Karl Ballod‘ پکارا جاتا تھا)۔
ان کے نزدیک بھی سوشلزم ایک نقطہ آغاز، قانون کا تقاضہ…(اینٹن مینجر) یا تکنیکی ضرورت (اٹلانٹیکس)…ہی ثابت ہو تا ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی اس حد تک نہیں جاتے جس حد تک سوشل ڈیموکریٹک تحریک پہنچی ہے۔ ان کے لئے سوشلزم سے اندرونی طور پر منسلک طبقاتی جدوجہد ایک ایسی کتاب بنی رہتی ہے جس پر سات مہریں ثبت ہوں۔