طارق علی
عزیز دوست!
یاد ہے آپ نومبر 2001ء میں ایک بڑے جنگ مخالف جلسے کے بعد (میرا خیال ہے گلاسگو میں) میرے پاس آئے اور آپ کا سوال تھا آیا کہ میں خدا پر ایمان رکھتا ہوں؟ میں نہ تو آپ کو لگنے والا وہ دھچکا بھولا ہوں جو میرے ’نہ‘ کہنے پر آپ کو لگا تھا نہ ہی آپ کے دوست کا جملہ (ہمارے والدین نے ہمیں آپ کے بارے میں خبردار کیا تھا) اور نہ ہی غصے سے بھرے سوالات کی بوچھاڑ جو آپ دونوں نے مجھ پر کی۔
ان سوالوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا اور یہ چھوٹی سی کتاب نہ صرف آپ بلکہ آپ جیسے دیگر تمام لوگوں کے سوالوں کا جواب ہے جو یورپ اور شمالی امریکہ میں رہتے ہیں۔ اس میں جابجا تاریخ سے مڈبھیڑ ہوتی ہے تاہم میرے خیال میں یہ کتاب کافی ثابت ہو گی۔ جب آپ سے بات ہوئی تھی تو میں نے آپ سے کہا تھا کہ مذہب اور مذہب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے والوں پر میں لوگوں کے سامنے تنقید کر کے زمانہ شناسی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہوں۔ استحصال اور جوڑ توڑ کرنے والوں نے مذہب کے نام پر پارسا بن کر ہمیشہ اپنے خود غرضانہ مقاصد کو پورا کیا ہے۔ سچ ہے کہ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔
یقینا دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے مخلص مذہبی لوگ موجود ہیں جنہوں نے غریبوں کے حقوق کیلئے سچ مچ لڑائی لڑی مگر عموماً ان کا منظم مذہب سے تضاد پیدا ہو گیا۔ کیتھولک چرچ نے ایسے مزدور کسان پادریوں کو نشانہ بنایا جنہوں نے جبر کے خلاف مزاحمت کی۔ ایرانی آیت الاﺅں نے سماجی ترقی پسندی کی تبلیغ کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نپٹا۔
اگر میں واقعی اس بات پر یقین رکھتا کہ ریڈیکل اسلام انسانیت کیلئے راہ نجات ہے تو میں سرعام اس کا اظہار کرتا چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہوتا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے بہت سے دوست ’اسامہ‘ کا نعرہ لگا کر خوش ہوتے ہیں اور گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعہ پر انہوں نے خوشی سے بغلیں بجائیں تھیں۔ وہ اکیلے نہیں تھے۔ میں ارجنٹینا کے ان طالب علموں کو جانتا ہوں جو اسامہ پر اپنے استاد کی تنقید کے خلاف کمرہ جماعت چھوڑ کر باہر چلے گئے۔ میں ایک ایسے روسی کم سن نوجوان کو جانتا ہوں جس نے یک لفظی پیغام…. مبارک…. اپنے ان روسی دوستوں کو ای میل کیا جن کے والدین نیو یارک کے مضافات میں رہائش اختیار کر چکے تھے۔ اس کے دوستوں نے جواب دیا: ’شکریہ۔ اٹ واز گریٹ‘۔ مجھے یاد ہے ہم نے فٹ بال میچ دیکھنے والے یونانی مجمعوں بارے بات کی تھی جنہوں نے حکومت کی طرف سے سوگ منانے کیلئے دو منٹ کی خاموشی اختیار کرنے سے انکار کر دیا اُلٹا اس دوران انہوں نے امریکہ مخالف نعرے لگانے شروع کر دیئے۔
لیکن یہ تمام باتیں گیارہ ستمبر کا جواز مہیا نہیں کرتیں۔ اس پرائی خوشی کے پیچھے طاقت نہیں بدترین کمزوری پوشیدہ ہے۔ امریکی حکومت کے ہاتھوں جو تکلیفیں ہند چینی لوگوں نے اُٹھائی ہیں، وہ کسی مسلم ملک نے نہیں جھیلیں۔ ان پر پندرہ سال بم برسائے گئے اور ان کے لاکھوں لوگ مارے گئے۔ کیا انہوں نے کبھی امریکہ پر بم حملے بارے سوچا تھا؟ نہ ہی کبھی کیوبا، چلی یا برازیل والوں نے یہ سوچا۔ ثانی الذکر دو ممالک نے امریکہ کی مسلط کردہ آمریتوں کے خلاف جدوجہد کی اور آخر کار کامیاب رہے۔ آج لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں اور جب امریکہ پر حملہ ہوتا ہے تو وہ خوشیاں مناتے ہیں۔ وہ یہ سوال نہیں اُٹھاتے کہ اس قسم کے اقدام سے حاصل کیا ہوگا، اس کے نتائج و عواقب کیا برآمدہوں گے اور اس سے فائدہ کون اُٹھائے گا۔ اس واقعہ کی طرح ان کا ردعمل بھی خالصتاً علامتی ہے۔
میرے خیال میں اسامہ اور اسامہ کا گروہ سیاسی لحاظ سے ایک بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ یہ ایک بڑا تماشا تھا اور بس۔ امریکہ نے جنگ کے ذریعے اس کا جواب دے کر اس واقعہ کی اہمیت اور بڑھا دی ہے لیکن میرے خیال سے اس کے باوجود مستقبل میں یہ گمنامی کے اندھیروں میں کھو جائے گا۔ یہ اس صدی کی تاریخ کے حاشیئے میں لکھا جائے گا۔ بس۔ سیاسی، معاشی اور فوجی لحاظ سے یہ محض سوئی چبھونے کے مترادف تھا۔
اسلامی بنیاد پرست پیش کیا کرتے ہیں؟ ایسے ماضی کی طرف جانے والا راستہ جو، ساتویں صدی کے لوگوں کی خوشی قسمتی، کہ کبھی موجود ہی نہیں رہا۔ اگر تو ’امارات افغانستان‘ وہ نمونہ ہے جو وہ ساری دنیا پر نافذ کرنا چاہتے ہیں تو مسلم دنیا کی اکثریت ہتھیار اُٹھا کر ان کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو گی۔ یہ مت سوچئے کہ اسامہ یا ملا عمر اسلام کے مستقبل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس ثقافت کے لئے تباہ کُن ہو گا جو ہم دونوں کے بیچ سانجھی ہے۔
کیا آپ ویسے حالات میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ کی بہن، ماں یا وہ عورت جس سے آپ محبت کرتے ہیں عوام کی نگاہوں سے چھپا دی جائے اور اگر کبھی باہر نکلے تو لاش کی طرح مستور ہو کر نکلے۔ میں آپ کے ساتھ دیانتداری کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں افغانستان میں ہونے والی آخری جنگ کے خلاف تھا۔ میں بڑی طاقتوں کے اس حق کو نہیں مانتا کہ وہ جب اور جہاں چاہیں ایسی حکومت بدل دیں جو ان کے مفادات سے میل نہ کھاتی ہو لیکن میری آنکھوں سے اس لمحے طالبان کیلئے بھی کوئی آنسو نہیں ٹپکا جب وہ داڑھیاں مونڈ کر گھروں کو بھاگ رہے تھے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو گرفتار ہو گئے ہیں ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جائے یا انہیں ان بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے جو جینیوا کنونشن میں مہیا کئے گئے ہیں لیکن کیا ہے کہ، اور اس کتاب میں ایک جگہ میں نے اس بابت بحث بھی کی ہے، آج ایمپائر کی بنیاد پرستی کا کوئی توڑ نہیں۔ وہ چاہیں تو ہر کنونشن اور ہر قانون کو فراموش کر دیں۔
افغانستان میں غیر قانونی جنگ کے بعد پکڑے جانے والے قیدیوں سے بُرے سلوک کی وجہ دنیا کے سامنے اپنی طاقت جتانا ہے—— لہٰذا کیوبا کا غرور توڑنے کیلئے یہ گندا کام اس کی زمین پر کیا جا رہا ہے—— اور شیر کی دُم مروڑنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو خبردار کرنا ہے کہ اس کی سزا بہت کڑی ہو گی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سرد جنگ کے دوران سی آئی اے اور اس کے مقامی رنگروٹ لاطینی امریکہ کے اکثر حصوں میں سیاسی قیدیوں پر تشدد اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا کرتے تھے۔ سی آئی اے کے فیلڈ افسر فلپ ایگی نے یہ سب دیکھا تو وہ ان سے علیحدہ ہو گیا اور اس نے ان سائڈ دی کمپنی کے نام سے کتاب لکھ کر لاطینی امریکہ میں ان کے کرتوت بے نقاب کئے۔ ویت نام جنگ کے دوران امریکہ نے جینیوا کنونشن کے اکثر اصولوں کی خلاف ورزی کی۔ انہوں نے قیدیوں پر تشدد کیا اور انہیں مار ڈالا، خواتین کی عزتیں لوٹیں، قیدیوں کو ہیلی کاپٹر سے نیچے پھینکا تاکہ وہ زمین پر گر کر مر جائیں یا سمندر میں ڈوب جائیں اور یہ سب کچھ یقینا آزادی کے نام پر کیا۔ مغرب میں چونکہ کئی لوگ ’انسانی مداخلت‘ نامی حماقت پر یقین کر لیتے ہیں لہٰذا ان حرکتوں پر انہیں شدید دھچکا لگتا ہے مگر ایمپائر نے گزشتہ صدی میں جو جرائم کئے ہیں ان کے مقابلے پر تو یہ کچھ بھی نہیں۔
گیارہ ستمبر کے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں میں اپنے کئی لوگوں سے ملا ہوں۔ ایک سوال ہمیشہ دہرایا جاتا ہے: ’کیا آپ سمجھتے ہیں ہم مسلمان اس قدر ہوشیار ہیں کہ یہ کام کر ڈالیں؟‘ میرا جواب ہمیشہ ’ہاں‘ میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد میں یہ سوال پوچھتا ہوں کہ آپ کے خیال میں یہ کام کس کا ہو سکتا ہے اور جواب ہمیشہ ہوتا ہے ’اسرائیل‘۔ کیوں؟ ’ہمیں بدنام کرنے اور ہمارے ملکوں پر امریکہ سے حملہ کرانے کیلئے۔ ‘ میں دھیمے سے ان کی خوش کُن غلط فہمیوں کا پردہ چاک کرتا ہوں لیکن ساری گفتگو مجھے غمگین کر دیتی ہے۔ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد بے حسی کا شکار کیوں ہے؟ وہ خود پر ترس کھانے کی عادت میں اس قدر کیوں مبتلا ہیں؟ ان کے آسمان پر ہمیشہ گھٹائیں کیوں ڈیرہ ڈالے رہتی ہیں؟ ہمیشہ کسی دوسرے پر الزام کیوں دھرا جاتا ہے؟ کبھی کبھی جب ہم بات کر رہے ہوتے ہیں تو مجھے یوں لگتا ہے گویا ایک بھی مسلمان ملک ایسا نہیں جس پر انہیں فخر محسوس ہوتا ہو۔ جنوبی ایشیا سے آنے والوں کے ساتھ سعودی عرب یا خلیجی ریاستوں کی نسبت برطانیہ میں کہیں بہتر سلوک ہوتا ہے۔ یہاں تو کچھ نہ کچھ ہونا چاہئے۔
عرب دنیا تبدیلی کیلئے تڑپ رہی ہے۔ سالہا سال سے عراقی، شامی، سعودی، مصری، اردنی اور فلسطینی لوگوں سے جب بھی گفتگو ہوئی وہی سوال اور وہی مسائل زیر بحث آئے۔ ہمارا دم گھٹ رہا ہے۔ ہم سانس کیوں نہیں لے سکتے؟ ہماری معیشت، ہماری سیاست، ہمارے دانشور اور سب سے بڑھ کر ہمارا مذہب، ہر چیز جمود کا شکار دکھائی دیتی ہے، فلسطین روز مصیبت سے گزرتا ہے۔ مغرب کچھ نہیں کرتا۔ ہماری حکومتیں مردہ ہیں۔ ہمارے سیاستدان بدعنوان ہیں۔ ہمارے لوگوں سے تغافل برتا جاتا ہے۔ اگر کچھ لوگ اسلامی بنیاد پرستوں کی بات پر کان دھرتے ہیں تو اس میں حیرت کیسی؟ کیا کوئی متبادل بھی موجود ہے؟ امریکہ؟ امریکہ تو جمہوریت نہیں چاہتا حتیٰ کہ ننھے منے قطر میں بھی نہیں اور وجہ سیدھی سی ہے۔ اگر ہم اپنی حکومت خود منتخب کریں گے تو عین ممکن ہے وہ امریکہ سے اپنے فوجی اڈے بند کرنے کیلئے کہے۔ امریکہ کرے گا؟ وہ تو الجزیرہ ٹیلی ویژن سے خفا ہیں کیونکہ اس کی ترجیحات ان سے مختلف ہیں۔ جب الجزیرہ عرب اشرافیہ کی بدعنوانیوں کے پردے چاک کر رہا تھا تو ٹھیک تھا۔ ٹومی فرائڈ مین نے تو نیویارک ٹائمز میں ایک پورا کالم الجزیرہ کی تعریف میں لکھ مارا تھا۔ فرائڈ مین کی نظر میں یہ عرب دنیا میں آمدِ جمہوریت کی علامت تھا۔ مگر اب نہیں۔ کیونکہ جمہوریت کا مطلب ہے مختلف سوچ کا حق رکھنا اور الجزیرہ نے افغان جنگ کی وہ تصاویر دکھادیں جو امریکی نیٹ ورک نہیں دکھا رہے تھے لہٰذا بُش اور بلیئر نے الجزیرہ پر دباﺅ ڈالا کہ وہ یہ غیر دوستانہ نشریات بند کر دے۔ مغرب کے نزدیک جمہوریت کا مطلب ہے کہ عین ان کی سوچ کے مطابق سوچو۔ کیا یہ ہوتی ہے جمہوریت؟
اگر ہمیں اپنی حکومتیں منتخب کرنے کا موقع مل جائے تو ممکن ہے لوگ ایک دو ملکوں میں اسلامی بنیاد پرستوں کو منتخب کر لیں۔ کیا مغرب ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے گا؟ کیا فرانس نے الجزائر کی فوج کو اس کے حال پر چھوڑا؟ نہیں۔ ان کی ضد تھی کہ 1990ء اور 1991ء کے انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے۔ فرانسیسی دانشور اسلامک سالویشن فرنٹ (ایف آئی ایس) کو ’اسلامو فاشسٹ‘ قرار دے رہے تھے اور وہ یہ بات بھول جاتے تھے کہ انہوں نے الیکشن جیتا ہے۔ اگر انہیں حکومت بنانے دی جاتی تو ان میں پہلے سے موجود اختلافات اُبھر کر سامنے آجاتے۔ فوج یہ تنبیہ کر سکتی تھی کہ آئین میں دیئے گئے شہری حقوق سے چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایک بار جب ایف آئی ایس کے اصل رہنماﺅں کا صفایا کر دیا گیا تو لمپن عناصر آگے آگئے اور انہوں نے حشر برپا کر دیا۔ کیا ہم انہیں خانہ جنگی کا ذمہ دار ٹھہرائیں یا پیرس اور دارالحکومت الجزائر میں بیٹھے ان افراد کو جنہوں نے انہیں ان کی انتخابی فتح سے محروم کر دیا؟ الجزائر میں ہونے والے قتل عام وحشت ناک ہیں۔ کیا محض اسلامی بنیاد پرست اس کے ذمہ دار ہیں؟ الجزائر کے دس میل جنوب میں واقع بن طلحہ میں 22 ستمبر 1997ء کی رات کیا ہوا؟ اس قصبے کے پانچ سو مرد، خواتین اور بچوں کو کس نے ذبح کیا؟ کس نے ؟ سب باتوں سے آگاہی رکھنے والے فرانسیسی نژاد برنرڈ ہنری لیوی کو یقین ہے کہ یہ بہیمانہ حرکت اسلامی بنیاد پرستوں نے کی۔ حکومت نے لیکن مقامی آبادی کو اپنا دفاع کرنے کیلئے اسلحہ کیوں فراہم نہیں کیا۔ اس رات مقامی ملیشیا سے یہ کیوں کہا گیا کہ وہ وہاں سے چلی جائے؟ سیکیورٹی فورسز کی آنکھوں کے سامنے سب ہو رہا تھا لیکن انہوں نے مداخلت کیوں نہیں کی۔
محترم لیوی یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ الجزائر کو جمہوریہ فرانس کے مفادات کے تابع بنانا ہو گا اور کوئی اس بنیاد پرستی کی مخالفت کیوں نہیں کرتا؟ عرب کہتے ہیں انہیں معلوم ہے انہیں کیا کرنا چاہئے لیکن ہر بار مغرب مداخلت کر کے ان کے مقاصد کو کئی سال پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ لہٰذا اگر وہ مدد کرنا چاہتے ہیں تو انہیں الگ رہنا چاہئے۔
میرے عرب دوست یہ سب باتیں دہراتے ہیں اور میں اس روش سے اتفاق کرتا ہوں۔ ایران کو دیکھئے۔ افغانستان پر حملے کے دوران ایران پر نظر التفات ہوئی۔ جنگ کیلئے ایران کی ضرورت تھی لیکن مغرب کو دور سے دیکھنے دیجئے۔ سامراجی بنیاد پرست ’برائی کے محور‘ کی بات کر رہے ہیں اور ایران اس محور کا حصہ ہے۔ ایران میں مداخلت تباہ کُن ثابت ہو گی۔ ایک نئی نسل نے ملاﺅں کا جبر دیکھا ہے۔ اس نے اور کچھ نہیں دیکھا۔ نوجوان مرد اور خواتین اور کچھ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہیں ایک بات البتہ ضرور جاتنے ہیں۔ وہ آیت الاﺅں کو مزید حکومت کرتے نہیں دیکھ سکتے۔ گو پچھلے کچھ سالوں سے ایران‘سعودی عرب یا مرحوم ’امارات افغانستان‘ جیسا برا نہیں تھا لیکن وہ لوگوں کیلئے اچھا بھی نہیں تھا۔
میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ دو ڈھائی سال پہلے لاس اینجلس میں میری ایک نوجوان ایرانی فلم ساز سے ملاقات ہوئی۔ ان کا نام تھا مسلم منصوری۔ وہ فلمبند کئے ہوئے ان درجنوں انٹرویوز کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جو انہوں نے اپنی ایک زیرِ تکمیل دستاویزی فلم کیلئے کئے تھے۔ انہوں نے تہران کی تین طوائفوں کو اعتماد میں لیا اور دو سال تک ان کی فلم بناتے رہے۔ کچھ حصے مجھے بھی دکھائے۔ وہ کھل کر مسلم منصوری سے بات کر رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح مذہبی تقریبات کے موقع پر انہیں زیادہ مال بنانے کا موقع ملتا ہے۔ مسلم منصوری نے مجھے جو مسودہ بھیجا مجھے اس سے فلم کا ذائقہ مل گیا۔ ایک عورت مسلم منصوری کو بتاتی ہے:
آج ہر کوئی جسم فروشی پر مجبور ہے۔ ہم ایسی عورتوں کو 10,000تمن کی خاطر مردوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ہم کچھ نہیں کر سکتیں…….. نوجوان لوگ ہم بستری کرنا چاہتے ہیں چاہے دس منٹ کیلئے ہی سہی…….. یہ بنیادی ضرورت ہے…. اس سے وہ ذرا ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ جب حکومت اس کی اجازت نہیں د یتی تو جسم فروشی پھیلتی ہے۔ ہمیں جسم فروشی بارے بات کرنے کی بھی ضرورت نہیں، حکومت نے جنس مخالف سے کھلے عام بات کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے…. کسی پارک، سینما گھر یا کسی گلی میں آپ ساتھ بیٹھے شخص سے بات تک نہیں کر سکتے۔ اگر آپ سرِ راہ کسی مرد سے بات کرلیں تو ’پاسداران اسلام‘ نہ ختم ہونے والی پوچھ گچھ شروع کر دیتاہے۔ یہ بندہ کون تھا؟ تمہارا اس سے کیا رشتہ ہے؟ تمہارے کاغذات کہاں ہیں؟ …….. آج ہمارے ملک میں کوئی بھی مطمئن نہیں! کسی کو تحفظ حاصل نہیں۔ میں نوکری کی خاطر ایک کمپنی میں گئی۔ کمپنی کے باریش مینیجرنے میرے چہرے پر نظر دوڑائی اورکہا: ’میں تمہیں نوکری دوں گا اور تنخواہ 10,000 تمن ہو گی جو کہ معمول سے زیادہ ہے۔ ‘ میں نے کہا: ’آپ کمپیوٹر میں میری مہارت کا امتحان تو لیجئے تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے مجھے کس حد تک مہارت حاصل ہے….‘ اس نے جواب دیا: ’میں تمہیں تمہاری صورت کی وجہ سے نوکری دے رہا ہوں۔ ‘ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں نے وہاں نوکری کی تو مجھے روزانہ کم از کم ایک بار اس سے ہم بستری کرنا پڑے گی۔ میں نے دل میں سوچا یہ سودا ٹھیک نہیں۔ اگر میں خود پیشہ کرنے لگوں تو اس سے زیادہ پیسے بنا لوں گی۔ جدھر جائکیلئے یہی ہو رہا ہے! میں طلاق کیلئے ایک خصوصی فیملی کورٹ گئی اور جج سے، جو ایک ملّا تھا، درخواست کی ’برائے مہربانی! میرا بچہ میری نگہبانی میں دے دیجئے۔ میں آپ کی کنیز بن کر رہوں گی……..‘ معلوم ہے اس نے کیا کہا؟ مجھے نوکر کی نہیں عورت کی ضرورت ہے۔ باقیوں سے کیا گلہ جب ایک ملّا، عدالت کا سربراہ، یہ کہہ رہا ہو؟ اس شخص کے چہرے پر پچاس کلو کی داڑھی اور بال تھے! اور وہ کہتا ہے مجھے عورت چاہئے! کہنے لگا: مجھے بہت سی چاہئیں! میں طلاق پر دستخط لینے کیلئے افسر کے پاس گئی تو وہ کہنے لگا مجھے طلاق نہیں لینی چاہئے بلکہ پھر سے شادی کر لینی چاہئے، غیر قانونی شادی۔ اس کا خیال تھا کہ خاوند کے بغیر نوکری ملنا مشکل ہو گی۔ وہ درست کہہ رہا تھا لیکن میرے پاس اسے چکانے کیلئے پیسے نہیں تھے……..
آپ ان باتوں کے ہاتھوں بوڑھے ہونے لگتے ہیں…. مایوس ہو جاتے ہیں…. آپ زبردست ذہنی دباو کا شکار ہو جاتے ہیں جو آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ شائد اس سے نجات کی کوئی راہ ہو….
مغربی ممالک میں طوائفوں کے پاس سماجی تحفظ اور حکومتی انشورنس ہوتی ہے۔ ان کا طبی معائنہ وغیرہ ہوتاہے۔ یہاں ہمیں زندہ رہنے کا حق بھی حاصل نہیں…….. آخر کیوں…. ہم بھی تو مزدور ہیں….
جسم فروشی پر مجبور، دوسری عورت نے بتایا:
میرے پاس ہر طرح کے گاہک آتے ہیں: دکاندار، طالب علم، ڈاکٹر، بوڑھے، جوان، ان پڑھ…. بنیادی طور پر جو بھی کچھ وقت کے لئے عورت خریدنے کی سکت رکھتا ہے۔ اکثر ہمارے ساتھ بہت بُرا سلوک کرتے ہیں…. چونکہ وہ ہمیں پیسے دیتے ہیں لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو چائیں کریں…. اور ہم یہ سب برداشت کر جاتی ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں کسی کو اقتصادی تحفظ حاصل نہیں۔ میں مکان کا کرایہ ادا نہیں کر سکتی…. آپ ہی بتائکیلئے میں کیا کروں؟ آج رات میں جسم نہ بیچوں تو کل میری جیب خالی ہو گی…. ایسا معاشرہ جہاں نوکری ہو نہ تحفظ اور نہ حقوق وہاں انسان کیا کرے؟ آپ باہر نکلو تو ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے کہ پاسداران اسلام کسی بہانے آپ کو پکڑ لیں گے، حجاب سے بالوں کا جھلکنا، معمولی سی لپ سٹک‘ کسی بھی وجہ سے گرفتاری ہو سکتی ہے……..
اگر میں کسی ایسے معاشرے میں رہ رہی ہوتی جہاں میں کام کر کے اپنا خرچہ خود اُٹھا سکتی تو کبھی جسم نہ بیچتی۔ اس صورت مجھے جسمانی ضرورت ضرورمحسوس ہوتی جس کیلئے میں کسی کا انتخاب کرتی…. میں اپنی خواہش کے مطابق زندگی گزارتی…. مزے سے…. مگر اس صورت حال میں تو حکومت نے مردوں کو گاہک اور میرے جیسے لوگوں کو دکاندار بنا کر رکھ دیا ہے….
مسلم منصوری کو فکر لاحق تھی کہ کوئی امریکی نیٹ ورک یہ فلم خریدنے پر تیار نہیں تھا۔ وہ خاتمی حکومت کو غیر مستحکم نہیں کرنا چاہتے تھے! مسلم منصوری بذات خود انقلاب کی پیداوار ہے۔ انقلاب نہ آیا ہوتا تو وہ آج فلم ساز نہ ہوتے۔ مسلم منصوری کا تعلق ایک انتہائی غریب خاندان سے ہے۔ والد موذّن تھے اور مسلم منصوری کی پرورش زبردست مذہبی ماحول میں ہوئی۔ مسلم منصوری کو آج مذہب سے ایسی شدید نفرت ہے کہ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ مسلم منصوری نے عراق کے خلاف جنگ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ گرفتاری ہوئی۔ اس تجربے نے مسلم منصوری کو بدل کر رکھ دیا:
یہ 1978-9ء کی بات ہے جب میں نے سنگسار کی ایک معروف سڑک پر اخبار کا چھوٹا سا ٹھیلا لگایا۔ ہر ہفتے مختلف سیاسی گروہوں کے اخبار اور کتابیں میرے پاس آتے اور میں انہیں فروخت کرتا۔ کچھ عرصہ گزرا تو سیاست میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کیلئے میرا ٹھیلا ایک اڈہ بن گیا۔
ایک رات ’حزب اﷲ‘ کہلانے والے اسلامی محافظوں نے میرے ٹھیلے پر حملہ کیا اور اس جگہ کو نذر آتش کر دیا۔ میں نے جلی ہوئی کتابیں اکٹھی کیں اور ہفتہ بھر ٹھیلے کے سامنے کتابیں لگا کر بیٹھتا رہا۔ مجھے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔
جیل کا تجربہ میرے لکیلئے سخت مگر اچھا ثابت ہوا۔ جیل میں مجھے محسوس ہوا کہ میں دانشورانہ بلوغت تک پہنچ رہا ہوں۔ میں مزاحمت کر رہا تھا اور اپنی طاقت کے احساس پر خوش تھا۔ مجھے لگا میں ملاﺅں کی بدعنوان دنیا سے بچ نکلا ہوں اور اس کی قیمت جیل کی صور ت ادا کر رہا ہوں۔ مجھے اس پر فخر تھا۔ ایک سال کی قید بعد انہوں نے مجھے اس شرط پر رہا کرنے پر رضا مندی ظاہر کی اگر میں جمعے کی نماز اور دیگر مذہبی رسومات میں شرکت کا وعدہ کروں اور اس سلسلے میں ان کے کاغذات پر دستخط کردوں۔ میں نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ مجھے ایک سال مزید قید رکھا گیا۔
جیل سے رہا ہوا تو میری جنم بھومی مجھے بڑی محدود لگنے لگی۔ میرا وہاں دم گھٹنے لگا۔ میں تہران چلا آیا۔ دن کو کام کرتا اور رات کو فری یونیورسٹی میں پڑھنے لگا۔
فری یونیورسٹی پرائیوٹ یونیورسٹی ہے جہاں ٹیوشن فیس بہت زیادہ ہے۔
اسی کی دہائی کے اوائل میں مجھے سینما سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میری سوچیں اور میرے اندر جاری کشمکش سینما یا کسی طویل مدت منصوبے بارے غور کی فرصت ہی نہ دیتے تھے۔ میں سوچتا رہتا تھا کہ میں ایران کے حالات مطابق خود کو کبھی بھی نہیں ڈھال پاﺅں گا۔ سارا سیاسی اور سماجی ماحول مجھے بُری طرح پریشان کرتا تھا۔
جنگ ختم ہوئی (1989ء) تو حکومت نے قانون بنایا کہ تمام لوگ پرانے برتھ سرٹیفکیٹ کی جگہ نیا حاصل کریں۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر برتھ سرٹیفکیٹ بنوانے گیا تو جعلی کاغذات سے نجات حاصل کرنی پڑے گی۔ انہیں پتہ چل جاتا کہ میں فوج میں بھرتی ہوا تھا مگر جنگ پرنہیں گیا تھا۔ دوسری جانب یونیورسٹی کے اخراجات بہت زیادہ تھے۔ میں نے فوج میں اپنی ذمہ داری نبھانے کا فیصلہ کیا۔ واپس آیا تو ایک نوکری کی تلاش تھی اور اتفاقاً ایک فلمی رسالہ میرے ہاتھ لگا جسے رپورٹر کی ضرورت تھی۔ میں نے یہ نوکری کر لی۔ گو میں نے غیر سرکاری فلم سازوں اور ادبی شخصیات کو انٹرویو کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے خوب اچھی طرح سے معلوم تھا کہ اگر میں نے تنقید بھی کی تو حکومت اس سے بھی یہ کہہ کر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گی کہ دیکھو ہم تنقید برداشت کرتے ہیں لہٰذا ہم جمہوری ہیں! سینما پوری طرح ریاست کے قبضے میں تھا اور فلم ساز نظام کی حدود میں جکڑے ہوئے تھے۔
اگرمیں مہرجوئی، مخمل باف یا قیارستمی ایسے فلم سازوں کا انٹرویو کرتا تو اس سے حتمی فائدہ سیاسی نظام کو پہنچتا۔ میں نے البتہ دل میں سوچا کہ حکومت کو یہ وقتی فائدہ اُٹھا لینے دو…. میں نے دل میں سوچا کہ میڈیا کے ساتھ میرا کام میرے اپنے منصوبوں کیلئے پردے کا کام دے گا اور میرے منصوبے تھے سیاسی حکومت کے پوشیدہ جرائم کو بے نقاب کرنا۔ مجھے معلوم تھا سنسرشپ کے ضابطوں کے باعث میں وہ فلمیں نہیں بنا سکوں گا جو میں بنانا چاہتا ہوں۔ میں کوئی بھی خیال پیش کرتا وہ اسلامی سنسر شپ دفتر کی منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہتا۔ مجھے معلوم تھا میرا وقت اور توانائی ضائع جائیں گے۔ لہٰذا میں نے خفیہ طور پر آٹھ دستاویزی فلمیں بنانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے 1994-98ءکے عرصے میں عکس بندی کی اور اسے ایران سے باہر سمگل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ مالی مسائل کی وجہ سے میں صرف دو فلموں کی ایڈٹنگ مکمل کر پایا ہوں۔ ایک ہے ’کلوز اپ، لانگ شاٹ‘ اور دوسری ہے ’شاملو، شاعرِ آزادی‘۔
پہلی فلم حسین سبزیان کی زندگی بارے ہے جو قیارستمی کے ڈرامہ— ڈاکو منٹری کلوز اپ کا مرکزی کردار تھا۔ ثانی الذکرایک ایسے شخص کی کہانی ہے جومخمل باف بن کر، جن سے وہ گہری مشابہت رکھتا ہے، ایک خاندان کے پاس جاتا ہے۔ وہ خاندان اسے مخمل باف سمجھ کر اس کی ایک فلم کو سپانسر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ چار دن تک اس خاندان کے ساتھ رہتا ہے لیکن آخر کار اس خاندان کو پتہ چل جاتا ہے کہ وہ ڈھونگ رچا رہا ہے۔ وہ اسے گرفتار کروا دیتے ہیں۔ قیارستمی کی فلم کے چند سال بعد میں سبزیان سے ملنے گیا۔ وہ سینما کا عاشق ہے۔ اس کے بیوی بچے تنگ آکر اسے چھوڑ گئے۔ آج کل وہ تہران کے ایک مضافاتی گاﺅں میں رہتا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ سینما سے اس کے پیار نے دکھ کے سوا اسے کچھ نہیں دیا۔ میری فلم میں وہ کہتا ہے: میرے ایسے لوگ ایسے معاشروں میں تباہ ہو جاتے ہیں جن میں ہم زندہ ہیں۔ ہم کبھی اپنا اظہار نہیں کر سکتے۔ دو طرح کی لاشیں ہوتی ہیں: ساکت اور چلتی پھرتی۔ ہم چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔
ہم ایسی بلکہ اس سے بھی بری کہانیاں ہر مسلمان ملک میں تلاش کر سکتے ہی۔ ایک اوربات کہہ کر میں بس کر دوں گا۔ منتشر مسلم قبائل …. وہ جن کے والدین مغربی ممالک کو ہجرت کر گئے…. اور ہنوز بیت الاسلام میں رہنے والے مسلمانوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔ ثانی الذکر پر اندیشہ نہیں کیونکہ مذہب ان کی شناخت کے لیے اتنی اہم حیثیت نہیں رکھتا۔ ان کا مسلمان ہونا لازمی امر تصور کیا جاتا ہے۔
یورپ اور شمالی امریکہ میں صورت حال مختلف ہے۔ یہاں سرکاری ملٹی کلچرل ازم نے دیگر تمام اشیا کی قیمت پر فرق کے اوپر زور دیا ہے۔ اس کا ابھار اور ترقی پسند سیاست کا زوال ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ”کلچر“ اور ”مذہب“ معاشی و سماجی عدم برابری کے اظہار کے لئے نرم اورخوش گوار متبادل ہیں …. گویا شمالی امریکہ اور یورپ میں اصل مسئلہ گونا گونی ہے نہ کہ نظام حکومت۔ مجھے الجزائر (فرانس)، اناطولیہ (جرمنی)، پاکستان ا ور بنگلہ دیش (برطانیہ)، ہر جگہ (امریکہ)اور سکینڈے نیویا میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں اکثر خود سے یہ سوال کرتاہوں کہ ان کی اکثریت آپ جیسی کیوں ہے؟ وہ پنجاب اور کشمیر کے ان تنو مند اور چاک و چوبند کسانوں کی نسبت کہیں زیادہ رجعت پسند بن گئے ہیں جنہیں میں خوب اچھی طرح جانتا تھا۔ برطانوی وزیر اعظم مسلکی سکولوں میں زبردست یقین رکھتے ہیں۔ امریکی صدر کی ہر تقریر اس دعا پر ختم ہوتی ہے ”خدا امریکہ کو حفظ و امان میں رکھے“۔ اسامہ کا ہر ٹی وی انٹر ویو شروع بھی حمد باری تعا لیٰ سے ہوتا ہے اور ختم بھی۔ ان تینوں کو ایسا کرنے کا حق اسی طرح حاصل ہے جس طرح مجھے روشن خیالی کی اکثر اقدار سے وابستگی کا حق حاصل ہے۔ روشن خیالی نے مذہب …. بالخصوص عیسائیت …. پر حملہ کیا اور اس کی دو وجوہات تھیں: یہ نظریاتی مغالطوں کامرکب اور منظم جبر کا نظام تھاجس کے پاس عدم روا داری اورایذا رسانی کی زبردست طاقت موجود تھی۔ میں پھر مذہب پر تنقید سے باز کیوں رہوں؟
ہم آج اس وراثت سے دامن کیوں چھڑائیں؟ کون یہ تصور کر سکتا ہے کہ مذہب آج ہولباخ او رگین کے دور کی نسبت کم درجے کا سراب ہے؟
میں کبھی بھی خصوصی مراعات کا قائل نہیں رہا لیکن یہ جانناچاہتا ہوں کہ ہر سال جب طبیعات اور کیمیا کے شعبے میں نوبل انعام دیا جاتا ہے تو انعام پانے والوں میں ایک بھی مسلمان نہیں ہوتا۔ کیا مسلمان خلیوں میں ذہانت، لیاقت یا وجدان کی کمی ہے؟ پہلے تو ایسا نہ تھا۔ آخر اس مردہ پن کی وجہ کیا ہے؟
شیریں ستم ظریقی: کیا آپ کو معلوم ہے طبیعات کے شعبے میں واحد نوبل انعام یافتہ مسلمان کو میں جانتاہوں؟ وہ ایک پاکستانی شہری تھے، پروفیسر عبد السلام۔ آہ!وہ فرقہ احمدیہ سے تعلق رکھتے تھے جسے دائرہ اسلام سے خارج کیا جا چکا ہے۔ جب انہیں نوبل انعام ملا تو وہ مسلمان تھے چند سال بعد انہیں بتایا گیا کہ قانون کی نظرمیں وہ مسلمان نہیں رہے۔ وہ دکھ بھرے لہجے میں اس بات کاذکر کیا کرتے تھے کہ اگرچہ پاکستان میں وہ مسلمان نہیں رہے البتہ بھارت، یورپ اور مشرقی افریقہ میں ہنوز مسلمان ہیں۔
میں نہیں جانتا آپ شائد میری کسی بات کا غلط مطلب نکالیں۔ نفرت کسی طور پر اسلام تک محدود نہیں۔ اورنہ ہی میں جیسا کہ اس کتاب سے ظاہر ہوتا ہے، مذہبی نظریات کے اس کردار سے غافل ہوں جو انہوں نے ماضی میں اس دنیا کو آگے لے جانے کے لیے ادا کیاہے۔ یہ عیسائیت کی متحارب تفاسیر…. پروٹسٹنٹ اصلاح پسندی اور کیتھولک رد اصلاح پسندی …. کے مابین نظریاتی جھڑپیں تھیں جن کے باعث یورپ کے اندر زبردست لاوے پھوٹے۔ یہاں آپ کومثال ملے گی کہ کس طرح وہ تیز دھار دانشو رانہ مباحث ہوئے جن کے پیچھے مذہبی جذبات کی قوت سرگرم عمل تھی، اسکے نتیجے میں خانہ جنگی ہوئی اور پھر انقلاب آیا۔ سولہویں صدی میں ہسپانوی قبضے کے خلاف ولندیزی انقلاب کی وجہ عقیدے کی درستگی کے نام پر مقدس تشبہیات پر حملہ تھا۔ سترھویں صدی میں برطانیہ اندر پیورٹن انقلاب کیوجہ سکاٹ لینڈ میں متعارف کرائی جانے والی دعائیہ کتاب تھی، جبکہ کیتھولزم کو برداشت نہ کرنے کے باعث 1688ءکا انقلاب آیا۔ دانشورانہ جوش یہیں ٹھنڈا نہیں پڑ گیا بلکہ ایک صدی بعد روشن خیالی کے نظریات نے انقلابی فرانس کے آتش دان میں آگ بھڑکا دی۔ اس دفعہ چرچ آف انگلینڈ اور ویٹی کن نے اس نئے خطرے سے نپٹنے کے لئے اتحاد کر لیا۔ آزادی اوربادشاہت کے خاتمے بارے پائے جانے والے نظریات اس قدر توانا تھے کہ انہیں مٹانا ممکن نہیں تھا۔
آپ جو سوال کررہے ہیں مجھے کسی حد تک سنائی دے رہا ہے۔ ان سب باتوں کا ہم سے کیا تعلق؟ بہت گہرا تعلق ہے میرے دوست۔ مغربی یورپ مذہبی جذبات کی آگ میں جلتا رہا لیکن اب وہ ان سے ماورا ہو رہا تھا۔ دور افق پر جدت نمودار ہو رہی تھی۔ سلطنتِ عثمانیہ کی معیشت اور ثقافت اس محرک کی نقل نہ کر سکی۔ شیعہ سنی تقسیم بہت شروع میں پیدا ہوگئی اور دونوں متحارب عقائد بن گئے۔ اس دور کے آتے آتے اسلام اندر مخالفانہ سوچ کا باقاعدہ قلع قمع کیا جاچکا تھا۔ سلطان اپنے مذہبی علما کی معیت میں ایسی ریاست اور سلطنت پر حکومت کر رہا تھا جو مٹ رہی تھی اور مر رہی تھی۔ اگر اٹھارویں صدی میں یہ صورت حال تھی تو آج یہ بات کس قدر سچ ہوگی۔ مسلمانوں کے لئے شائد اس حقیقت کو پانے کا واحد راستہ ایران کی طرح ان کے اپنے تجربات ہوںگے۔
مذہب کے ابھار کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ نیو لبرل ازم کی عالمی حکمرانی کے خلاف کوئی دوسرا متبادل موجود نہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اگر تو اسلامی بنیاد پرست حکومتیں عالمی گھس بیٹھ کے لئے اپنی سرحدیں کھولتی جائیں گی تو اس صورت میں انہیں کھلی چھٹی ہوگی وہ سماجی و سیاسی سطح پر جو چاہےں کرتی پھریں۔ امریکی ایمپائر نے پہلے بھی اسلام کو استعمال کیا ہے اور آئندہ بھی کر سکتی ہے۔ یہ ہے وہ چیلنج جو درپیش ہے۔ ہمیں اسلامی اصلاح پسندی کی زبردست ضرورت ہے جوجنوبی قدامت پسندی اور بنیاد پرستی کی پس ماندگی کو بہاکر لےجائے لیکن اس سے بھی بڑھ کریہ کہ دنیائے اسلام پر ان نئے خیالات کا دروازہ وا کر دے جو دریں حالات مغرب کے پیش کردہ نظریات کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ ہوں۔ اس کے لئے ضروری ہوگا: مسجد کی ریاست سے مکمل علیحدگی، طبقہ علماکا خاتمہ، مسلمان دانشوروں کایہ اصرار کہ وہ شریعت کی تفسیر کا حق رکھتے ہیں جو اسلامی ثقافت کی مشترکہ ملکیت ہے، آزادانہ اور منطقی انداز میں سوچنے کی آزادی اور خیالات کی آزادی۔ اگر ہم اس راستے پر نہ چلے توہماری قسمت میں یہی لکھا ہوگا کہ پرانی جنگیں لڑتے رہیں اور ایک شاندار اور بھر پور مستقبل کی بجائے حال سے ماضی کی طرف جانے والے راستے کی کھوج میں لگے رہیں۔ یہ سوچ ناقابل قبول ہے۔
میں نے اپنے قلم کو روکا نہیں اور کافی دیر سے کفر کی تبلیغ کرتا چلا جا رہا ہوں۔ میرا خیال نہیں کہ میں بدلوں گا لیکن امید ہے آپ بدل جائیں گے۔