فاروق طارق
آج کے دن اٹھارہ سال قبل گیارہ ستمبر 2001ء کو مذہبی جنونی قوتوں نے ٹوئن ٹاورز پر ہوائی جہاز ٹکرانے کا جو کامیاب حملہ کیا تھا اس بارے آج بھی بے شمار قیاس آرائیاں اور سازشی تھیوریاں پیش کی جاتی ہیں۔ مسلمان ملکوں میں تو اکثر اوقات یہ تھیوری دی گئی کہ یہ امریکہ نے خود کرایا تھا کیونکہ اس میں امریکہ کو ہی فائدہ ہوا تھا۔ اسرائیل کا نام بھی لیا گیا۔ یہ سب سازشی نظریات تھے جن کو آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔
اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ روسی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سی آئی اے کو اس واقعہ سے چند روز قبل مطلع بھی کیا تھا کہ امریکہ پر حملہ ہونے والا ہے۔ انہوں نے کئی ایسے پیغامات پکڑے تھے جس سے واضح تھا کہ کچھ پک رہا ہے مگر امریکی سامراج کا رویہ تقریباًوہی تھا جو سری لنکا کی حکومت کا تھا جس نے اس سال سری لنکا کے گرجا گھروں پر حملے سے قبل بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی تنبیہہ کو مکمل رد کر دیا تھا۔
امریکی سامراج کو شائد اتنا گھمنڈ تھا کہ ان کے نزدیک یہ ممکن ہی نہ تھا اس لئے انہوں نے کوئی حفاظتی اقدامات بھی نہیں کئے تھے۔ گیارہ ستمبر کے حملے میں تین ہزار امریکی ہلاک ہوئے۔ یہ شائد ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ طیارے ٹکرانے سے یہ بلند و بالا عمارتیں زمین بوس ہو جائیں گی اور اتنے افرادمارے جائیں گے۔
یہ بھی اب بالکل واضح ہے کہ ان حملوں کی تیاری القاعدہ نے کافی دیر سے کر رکھی تھی۔ اس کے لئے پائلٹ ڈھونڈے گئے، ان کو تربیت دلوائی گئی، امریکہ پہنچایا گیا اور انہوں نے نیو یارک اور واشنگٹن دونوں پر بیک وقت حملہ کیا۔
اس واقعہ کے فوری بعد امریکی سامراج کا پاگل پن عروج پر تھا۔
پاکستانی جرنیلوں کو بلا کر دھمکیاں دی گئیں، ان پر واضح کر دیا گیا کہ طالبان حکومت پر ممکنہ امریکی حملوں میں انہیں امریکہ کی مدد کرنی ہو گی۔ یہ ایک طرح کی ٹریجڈی کامیڈی تھی کہ 1996ء میں جس طالبان حکومت کو اقتدار میں لانے کے لئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا، اس کے خاتمے کے لئے بھی اسی کو چنا گیا۔
امریکی سامراج نے جب دسمبر 2001ء میں کابل کا رخ کیا تو طالبان لڑائی کئے بغیر ہی بھاگ گئے۔ امریکہ اب ایک طویل خانہ جنگی کا آغاز کرنے والاتھا۔ نیٹو افواج نے با آسانی کابل پر قبضہ کر لیا اور ایک کٹھ پتلی حکومت کو اقتدار سونپ دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ افغان عوام کا کوئی حصہ طالبان کی حمایت کے لئے نہیں نکلاکیونکہ لوگ ان سے تنگ تھے۔
اس وقت بائیں بازو میں یہ بحث جاری تھی کہ کیا موقف اختیار کیا جائے۔ کچھ نے تو نیٹو افواج کی مدد سے طالبان حکومت کے خاتمے کو ایک ترقی پسند قدم قرار دے کر اس کی حمایت کرنی شروع کر دی۔ ہم نے اس وقت بائیں بازو کی کچھ پرتوں کے ان اندازوں کو بھی غلط قرار دیا کہ طالبان کوئی سامراج مخالف قوت ہیں اور ان کے ساتھ مل کر امریکی سامراج کا مقابلہ کیا جائے۔ ہم نے کہا کہ طالبان ایک رجعتی بنیاد پرست رحجان رکھنے والی قوت ہے اس کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج کی بھی کھل کر مخالفت اور اس کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ ایک دشمن کو ختم کرنے کے لئے دوسرے دشمن کا ساتھ دینے کی حکمت ِعملی سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔
یہ دور نظریاتی وضاحتوں کا دور تھا۔ نظریاتی بحثیں ہر طرف جاری تھیں۔ ہم امریکی سامراج اور طالبان، دونوں کی مخالفت پر مشتمل حکمت عملی اختیار کئے ہوئے تھے۔مگر ہماری سنتا کون تھا؟ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ ہمیں تو یہ سیاسی طور پر چلا کارتوس سمجھتے تھے۔ یہ سمجھتے تھے کہ سوشلزم گیا اور سوشلسٹوں کو کوئی اہمیت ہی نہ دی جائے۔ دوسری جانب ہمارے تناظر‘ وقت اور حالات درست ثابت کر رہے تھے۔ ہم ان کی باتوں کی پرواہ کئے بغیر اپنی بات رکھتے جاتے تھے۔ ہمارا وقت خراب تھا، اور ہے۔ رجعت پرست قوتیں چھائی ہوئی تھیں اور اب بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔
طالبان اور القاعدہ کی اکثریت نے پاکستانی قبائلی علاقوں کا رخ کر لیا۔ اسامہ بن لادن بھی چھپ گیا اور خاموشی سے مستقبل بارے اپنی منصوبہ بندی میں مصروف ہو گیا۔گیار ہ ستمبر کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کا جینا دوبھر ہو گیا۔ نسل پرستی میں اضافہ ہو گیااور دائیں بازو کی سوچ مسلسل فروغ پاتی رہی۔ دہشت گردی کے اس واقعے نے یورپی و ترقی یافتہ ملکوں کو ایسا موقع فراہم کر دیا کہ انہوں نے شہری آزادیوں کو سلب کرنے کے اقدامات کئے۔
امریکی اور برطانوی سامراج نے جھوٹ بول کر دنیا بھر کے عوام کی بھرپور مخالفت کے باوجود عراق پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا اور ایک کٹھ پتلی حکومت کو اقتدار سونپ دیا۔ صدام حسین کو گرفتار کرکے پھانسی پر چڑھا دیا۔
ادھر جنرل مشرف نے بھی سامراج سے منافقانہ رویے ا ختیار کر لئے۔ ایک جانب امریکی سامراج کا ساتھ اور دوسری جانب مقامی مذہبی رجعتی قوتوں کی درپردہ مدد کی۔ پھر 2002ء کے عام انتخابات میں مشرف آمریت نے متحدہ مجلس عمل کو صوبائی سطح پر اقتدار میں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کتاب کے انتخابی نشان کو عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے لئے زبردست طور پر استعمال کیاگیا۔
پاکستان میں مذہبی جنونی قوتوں کے عوامی سطح پر فروغ کا یہی عرصہ تھا جس کے دوران پاکستانی قبائلی علاقے‘طالبان اور القاعدہ کے کنٹرول میں آگئے۔ علی وزیر جیسے ترقی پسند بھی اس لڑائی میں اپنے کئی پیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ طالبان اس قدر طاقت ور ہو گئے تھے کہ انہوں نے سوات، دیر، مالاکنڈ اوردیگر علاقوں پر بھی اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔ مولوی فضل اللہ کا ریڈیوآرڈر جاری کرتا تھا اور باقی اس پر عمل کرتے تھے۔ صوفی محمد اسلام آباد پر قبضے کے اعلانات کر رہا تھا۔
اس وقت کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں طالبان سے مذاکرات کو مسئلے کا حل بتاتی تھیں۔ طالبان اور مذہبی قوتوں سے کئی بار مذاکرات ہوئے جن کا فائدہ طالبان ہی اٹھاتے رہے۔ وہ ہر بار اپنے گرفتار افراد کو رہا کرا لیتے تھے۔ انہی قوتوں نے دسمبر 2007ء میں منصوبہ بندی کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو بھی ایک خودکش حملے میں شہید کر دیا۔
یہ مذہبی جنونی اب پاکستانی شہروں پر روزانہ خودکش حملے کرتے تھے۔ ایک عجیب خوف کی فضا چھائی تھی۔ پھر ریاست کو 2009 ء میں سوات آپریشن کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔
دو مئی 2011ء کو امریکی افواج نے پاکستان کے اندر گھس کر ایبٹ آباد میں کاکول اکیڈمی کے قریب چھپے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا اور اس کی لاش کو سمندر برد کر دیا۔ اب عمران حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ یہ کام پاکستانی حکومت کی پیشگی اطلاع اور تعاون کے بغیر ناممکن تھا۔
مذہبی جنونی قوتوں کا عروج انہی سالوں میں القاعدہ اور داعش کے عالمی سطح پر فروغ سے نظر آتا ہے۔ داعش نے تو عراق کے اکثر حصوں پر اپنی حکومت قائم کر کے دنیا بھر میں اپنی شاخوں کو پھیلا دیا تھا۔ اب یورپ میں دہشت گردی کے اسی طرح کے واقعات باقاعدگی کے ساتھ رونما ہو رہے تھے جیسے کہ پاکستان اور افغانستان میں۔ بعض افریقی ممالک میں ان جنونی قوتوں نے بربریت کی وہ مثالیں قائم کیں جن کی مثال نہیں ملتی مگر ایک بار پھر فوجی آپریشنوں کے ذریعے ان قوتوں کو کسی حد تک قابوکر لیا گیا۔
ماضی قریب میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کہا پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے مفاد میں لڑ رہا ہے، امریکی پیسوں یا سازوسامان کے لئے نہیں۔ اس پر عمران خان نے انکے بیان کی توثیق کرتے ہوئے کہا: ”سیاسی قیادت ڈری ہوئی ہے اس لئے آرمی چیف ُُکو یہ بیان دینا پڑا“۔
صورتحال یہ ہے کہ 2013ء تک تحریکِ انصاف، جماعت ِاسلامی اور جمیعت العلمائے اسلام بار بار یہ کہتے تھے کہ مذہبی جنونیت کیخلاف جنگ ہماری نہیں، ہم پرائی جنگ کیوں لڑیں، یہ امریکہ کی جنگ ہے اس میں ہم کیوں کودیں؟ وہ بار بار یہ بھی کہتے تھے کہ طالبان سے بات کرنے کی ضرورت ہے، ان سے مذاکرات کئے جائیں، میز پر بیٹھ کر معاملات طے ہو سکتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے تو 2014ء میں اسلام آباد میں اس مسئلے پر ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں عابد منٹو کے ساتھ میں بھی شریک تھا اورعاصمہ جہانگیر بھی تھیں۔ اس کانفرنس میں تمام مذہبی جما عتیں بھی شریک تھیں۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ اتنے بڑے بڑے پیٹوں والے مولانا حضرات کو قریب سے دیکھا۔ عابد منٹو اور عاصمہ جہانگیر کے سوا تمام دیگر اس بات پر زور دے رہے تھے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جائیں جبکہ ان دونوں کا موقف تھا کہ مذاکرات نہ کریں بلکہ ریاست کومذہب سے علیحدہ کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔
مذہبی جنونیت کا محض فوجی حل نہیں، یہ ا یک نظریاتی جنگ ہے۔ ہمارا موقف واضح ہے۔ مذہبی جنونیت کو روکنے کے لئے ریاست اپنا کردار تب ہی موثر انداز میں ادا کر سکتی ہے جب وہ نظریاتی طور پر ہر اس بات کے لئے تیار ہو کہ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہئے۔ وہ تمام شہریوں کے لئے برابر کا سلوک کرنے والی ہو۔ ایک غیر مسلم بھی پاکستانی شہری بھی ریاست کے کسی بھی ادارے کا سربراہ بننے کا اہل ہو۔ ریاست تمام مذہبی جہادی گروہوں سے اپنا رشتہ ناطہ توڑے اور دہشت گردی کی ہر شکل کی مخالفت کرے۔
افغانستان جہاں امریکی سامراج نے طالبان کو نکال باہر کیا تھا، وہ ایک بار پھر ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر موجود ہیں۔ ان سے مذاکرات بھی انہی امریکیوں کو کرنے پڑے اور آٹھ ستمبر کو جب امریکی صدر ٹرمپ ان سے خفیہ ملاقات کرنے والا تھا یہ مذاکرات ختم کر دئیے گئے کیونکہ طالبان نے کابل پر اسی روز حملہ کر کے ایک امریکی فوجی سمیت بارہ افرادکو ہلاک کر دیا تھا۔
یہ بات بھی واضح کرتی ہے کہ مذہبی جنونی قوتوں کو امریکی فوجی طریقے یا مذاکرات کے ذریعے نہ تو قابو کیا جا سکتا ہے اور نہ ان کی طاقت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نظریاتی جدوجہد ہے جس پر چل کر ہی ان کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔