لال خان
1944ء کے ’بریٹن ووڈز‘ معاہدے کے بعددنیا کے مختلف ممالک خصوصاً سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں سامراجی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کاپھیلاؤ زیادہ جارحانہ ہوا ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ طاقتوں کے درمیان ہونے والے اس معاہدے میں سرمایہ کاری اور منافع خوری میں بڑھوتری کے لیے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور گیٹ (’GATT‘ جو بعد میں عالمی تجارتی تنظیم’WTO‘بنا) جیسے نئے مالیاتی اور تجارتی ادارے تشکیل دیئے گئے۔ ان اداروں کا کام غیر ترقی یافتہ اور کمزور سرمایہ دارانہ ممالک میں سامراجی لوٹ مار اور وہاں سے پیسے کی منتقلی کو آسان بنانا تھا۔ جس کے لیے قرضوں کی وارادت عمل میں لائی گئی۔ تجارتی اور مالیاتی خساروں نے ان غریب ممالک کی بدعنوان حکومتوں کو مجبورکیا کہ وہ سامراجی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مطیع ہو جائیں۔
جنوب ایشیائی بر صغیر جیسے سابقہ نوآبادیاتی ممالک کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے سامراجی اداروں کے اس غلبے کے خلاف مزاحمت کرنا ناممکن تھا۔ بھارتی حکمران طبقے نے نہرو کی قیادت میں سوویت یونین کے ساتھ تجارت کے ذریعے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن بالآخر کانگریسی حکومت کے وزیراعظم’نرسیماراؤ‘ کوہتھیار ڈالنا پڑے اور ورلڈ بینک کے سابقہ ملازم منموہن سنگھ کو وزیرخزانہ تعینات کرناپڑا۔ اُس وقت سے بھارت کی معاشی شرح نمو میں تیزی سے اضافہ تو ہوا ہے لیکن ساتھ ہی غربت میں بھی بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو ملا جبکہ بھارت میں جاپان سے بھی زیادہ اَرب پتی افراد موجود ہیں۔ دنیا کی غربت کا سب سے بڑا ارتکاز بھی بھارت میں ہے۔ تب سے ہی کانگریس اور بی جے پی سمیت تمام حکومتیں اس نیولبرل معاشی نسخے پر عمل پیرا ہیں۔ ہندو بنیادپرستی کا اقتدار میں آنا بھارتی قومی بورژوازی کی ناکامی ہے اور اس کی ترقی پسندی، جمہوریت اور سیکولرازم کے ڈھونگ کو بے نقاب کرتا ہے۔
پاکستان میں شروع شروع میں محصولات اور تجارتی کنٹرول ہوا کرتا تھا جس میں لگژری مصنوعات کی درآمد کی محدود اجازت ہوتی تھی۔ 1970ء کی دہائی کے اواخر تک یہ پالیسی چلتی رہی۔ تاہم جنرل ضیا کی وحشیانہ آمریت کے دور میں نیولبرل معاشیات کی آمد کے ساتھ ہی ریاستی کنٹرول کا یہ معاشی نسخہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ بے نظیر اور نواز شریف کی جمہوری حکومتوں کے دوران یہ عمل زیادہ تیز ہوا۔ اسی وقت سے ہی معاشی تبدیلی اور روزگار کی تخلیق کا سب سے پسندیدہ نسخہ ’براہ راست بیرونی سرمایہ کاری‘ ہے۔
یہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے سامراجی اداروں کا ایسا نسخہ ہے جس کی مغربی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل پاکستانی معاشی ماہرین غلامانہ انداز میں پیروی کرتے ہیں۔ عمران خان کی نئی حکومت کی معاشی پالیسی کا اہم ستون بھی یہی نسخہ ہے۔ اگرچہ اس حکومت کے پہلے ایک سال کے دوران بیرونی سرمایہ کاری نصف رہ گئی ہے۔
درحقیقت موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں تمام حاوی پارٹیوں کے پاس معاشی بحالی، غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے یہی ایک معاشی نسخہ ہے۔ سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے عالمی منڈی اور سامراجی اجارہ داریوں میں جکڑ ی اس معیشت کے لئے یہ حکمران سیاست دان کچھ خاص نہیں کرسکتے۔ مقامی بدعنوان حکمرانوں کے گٹھ جوڑ میں ان سامراجی کارپویشنوں کے مالکان نے ہزاروں ارب ڈالر اینٹھ لیے ہیں۔ مگرسرمایہ داری کی اساس منافع نہیں بلکہ شرح منافع ہے۔ ان کارپوریشنوں نے محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑ کر دولت کے انبار لگائے ہیں لیکن ان کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی اور انکے ماہرین قدر زائد نچوڑنے کے لیے نئے طریقہ کار گھڑ رہے ہیں۔
بالخصوص 2005ء سے سرمایہ کاری لیبر انٹینسو سے کیپیٹل انٹینسو کی طرف منتقل کی گئی ہے۔ جس سے جدید ٹیکنالوجی اور روبوٹس نے محنت کشوں کی جگہ لے لی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے روزگار تخلیق کرنے کی باتیں کتنی احمقانہ اور پرفریب ہیں۔ اسی طرح پاکستان جیسے ملکوں میں ری اسٹرکچرنگ، لبرلائزیشن، ڈی ریگولیشن اور نجکاری کی پالیسیوں کو لاگو کیاگیا۔ پچھلے دس سالوں میں لوٹ مار کی یہ پالیسی بھی ناکارہ ہوچکی ہے۔ او ای سی ڈی (OECD) کی ایک تحقیقاتی رپورٹ نے بیرونی سرمایہ کاری کی پرفریب کہانی کا خلاصہ کیا ہے کہ ’’براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کے بارے عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ روزگار، پیداوار، نئی فیکٹریوں کی تعمیر اور ٹیکنالوجی لاتی ہے۔ لیکن اب پچھلے کچھ سالوں سے یہ نہیں ہو رہا۔‘‘ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کارپوریٹ اسٹرکچر کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی کی وجہ سے اب سرمایہ کاری کو زیادہ ’محفوظ‘ شعبوں کی طرف منتقل کیا گیا ہے۔
2008ء کے کریش اور منڈیوں کے سکڑاؤ کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں پر شدید اثرات مرتب ہوئے۔ کارپوریشنیں بے تحاشہ ٹیکس چوری کررہی ہیں اور کھربوں ڈالر چھپا رہی ہیں کیونکہ بیرونی سرمایہ کاری سے ملنے والی متوقع شرح منافع کے بارے میں مالکان شکوک و شبہات اور ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ جس سے تقریباً نصف صدی سے عالمی معاشی اور مالیاتی ہیرپھیرکو منظم کرنے والے سامراجی اداروں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئی ہیں۔
آئی ایم ایف نے حال ہی میں مجرمانہ ٹیکس چوری اور بیرونی سرمایہ کاری کے نام پر کارپوریشنوں کی جانب سے کھربوں ڈالر محفوظ ٹھکانوں میں چھپانے کے بارے میں ایک تحقیقاتی دستاویز ’’مالیات اور ترقی: ٹیکس سے بچاؤ کے ٹھکانے کیسے کام کرتے ہیں‘‘ شائع کی ہے۔ اس میں لکھا ہے، ’’نئی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے عالمی سطح پر 12 ہزار اَرب ڈالر کی سرمایہ کاری کاغذی کارپوریشنوں میں کر رکھی ہے اور مالیاتی طور پر چند غیرمستحکم اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے شہریوں کی 7 ہزار اَرب ڈالر کی ذاتی دولت ٹیکس سے محفوظ ٹھکانوں (Tax Havens) میں پڑی ہوئی ہے… سمندر پار صنعت اور مالیاتی دنیا انتہائی غیرشفاف ہے۔ آف شور بینکوں، وکلا اور کمپنیوں کی جانب سے پیش کی جانے والی خدمات میں گہری رازداری کے باعث اس بات کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے کہ ٹیکس کے محفوظ ٹھکانوں میں کتنے پیسے آئے؟ کہاں سے آئے اور کہاں گئے…‘‘ یہ انکشافات ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر بیرونی سرمایہ کاری کا تقریباً 40 فیصد بالکل مصنوعی ہے، یہ کاغذی کمپنیوں پر مشتمل مالیاتی سرمایہ کاری ہے جس میں کوئی حقیقی سرگرمی نہیں ہوتی۔
بحران کی گہرائی کے ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی غلاظت بھی واضح ہو رہی ہے۔ 2008ء کے بعد سے صورتحال بدستور خراب ہے۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے جو چند قطرے گرے ہیں‘ محکوم محنت کشوں نے ان کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ 2010ء تک پاکستان میں آنے والا ہر ایک ڈالر اپنے ساتھ 14 ڈالر واپس لے جاتا تھااب یہ انخلا دوگنا ہو چکا ہے۔ اس بیرونی سرمایہ کاری سے غربت کے خاتمے اور روزگار کی فراہمی ایک سراب ہے۔ عمران خان کے معاشی ماہرین کے پاس اس معاشی دلدل سے نکلنے کے لیے حقیقتاً کوئی نسخہ نہیں ہے۔ سرمایہ داری کی حدود میں کوئی راستہ ہے بھی نہیں۔ تحریک انصاف اور دوسری پارٹیاں دراصل پاکستان کے جرائم پیشہ سرمایہ دار طبقے کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ غربت، بیروزگاری، ناخواندگی، بیماری اور انفراسٹرکچر کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ بے تحاشہ محرومی ہے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ دھوکہ دہی کے ذریعے حکومت کر رہے ہیں۔ زرخرید میڈیا اورڈیپ سٹیٹ ان کی ذاتی صفات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
روس میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد بالشویک پارٹی نے تمام قومی اور سامراجی اثاثوں اور دولت کو ضبط کر لیا تھا۔ اسکے باوجود انہیں سائبیریا سے معدنیات نکالنے اور صنعتی ترقی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت تھی۔ لیکن لینن جانتا تھا کہ کارپوریٹ اجارہ داریوں کو اپنے وجود کے لیے ان ٹھیکوں کی ضرورت تھی۔ اسی لئے انہوں نے سخت شرائط پر معاہدے کیے تاکہ مزدور ریاست کا ایک پیسہ بھی نہ لوٹا جاسکے۔ اکیسویں صدی میں ونیزویلا میں ہوگو شاویز، بولیویا میں ایوو مورالس اور رافیل کورایا نے بھی (اگرچہ ان ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل نہیں ہوئی) ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ بالشویکوں کی طرز کے معاہدے کیے۔
موجودہ رجعتی اور بحران زدہ حکومت میں پاکستانی معیشت اور سماج مزید بحران اور انتشار کی طرف بڑھیں گے۔ معیشت، ریاست اور سماج کی ایک سوشلسٹ تبدیلی کے بغیر یہ ملک بیروزگاری، بربادی اور محرومی کی اس دلدل سے نہیں نکل سکتا۔ ایسی تبدیلی کے لیے بلاشبہ فی الحال ایک مارکسی قوت افق پر نظر نہیں آرہی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سوشلسٹ انقلاب برپاکرنے والی پارٹیاں انقلابی تحریکوں کے دوران ابھر آتی ہیں۔ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں!