فاروق سلہریا
مہسا امینی کی شہادت کا شعلہ آگ بن کر بھڑک اٹھا ہے۔ ایران میں تاریخی نوعیت کا ابھار دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ایران میں پنپنے والا موجودہ انقلاب آیت اللہ حضرات کی مذہبی آمریت کا تختہ الٹ دے گا یا نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ موجودہ تحریک، جسے عورت انقلاب کا نام دیا جا سکتا ہے، بارہ سال قبل ابھرنے والی ایران کی’سبز تحریک‘ سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔
سبز تحریک یا گرین موومنٹ ایرانی صدر احمدی نژاز کے بذریعہ دھاندلی دوبارہ صدر منتخب ہونے کے خلاف چلی تھی۔ اس وقت تحریک کی قیادت رجیم کے اصلاح پسند دھڑے کے پاس تھی۔ جب اصلاح پسندوں کو لگا کہ تحریک نظام کے خاتمے کی طرف جا رہی ہے تو انہوں نے تحریک سے غداری کی اور قیادت کی غداری نے اس تحریک کو شکست سے دو چار کر دیا۔
کرونا وبا کے دوران اور اس سے کچھ ماہ قبل، گذشتہ تین چار سال میں، ایران اندر دو مرتبہ بڑی تحریکیں ابھریں جنہیں زبردست تشدد اور ریاستی جبر کی مدد سے دبا دیا گیا۔
اب کی بار نہ صرف تحریک پہلے سے زیادہ وسیع ہے بلکہ اس کی قیادت بھی عام لوگ خود کر رہے ہیں۔ یہ تحریک کس قدر مقبول ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سکول کی طالبات بھی اس میں شامل ہو چکی ہیں۔ مزدور تحریک کے بعض حصے بھی چھوٹی چھوٹی ہڑتالوں کی طرف بڑھے ہیں۔ تحریک تقریباً ڈیڑھ ماہ مکمل کر چکی ہے۔ ممکن ہے، اگر یہ تحریک چند ماہ اور جاری رہے تو مذہبی آمریت کا خاتمہ ہو جائے۔ چالیس سال میں پہلی مرتبہ ایرانی ملاوں کی آمریت کو اتنے زبردست چیلنج کا سامنا ہے۔
اس تحریک کے ساتھ دنیا بھر میں اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے کے روز برلن میں ایک لاکھ لوگوں نے ایران کے عورت انقلاب سے یکجہتی اور مذہبی آمریت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اسی طرح واشنگٹن میں دسیوں ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ چند روز قبل، کینیڈا میں پچاس ہزار افراد مظاہرے میں شریک ہوئے۔
چلی کے صدر گبرئیل بورک سے لے کر ملالہ یوسف زئی تک، کئی اہم شخصیات نے اس انقلاب کی حمایت کی ہے۔ زن، زندگی، آزادی کا نعرہ ایران سے نکل کر اب عرب دنیا میں گونج رہا ہے۔ افغانستان میں اس تحریک کے اثرات سب سے نمایاں ہیں جہاں خواتین پھر طالبان آمریت کے خلاف بار بار باہر نکلی ہیں۔ اس تحریک نے طالبان کی نیندیں بھی اڑا دی ہیں اور آل سعود بھی ضرور سوچ میں پڑی ہو گی۔
دریں اثنا، سامراجی ممالک بالخصوص امریکہ منافقانہ طور پر اس تحریک کی حمایت کر رہا ہے۔ اسی طرح، سابق شاہ ایران کا خاندان خود کو آیت اللہ حضرات کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس خاندان کے ارد گرد جمع گروہ کے پاس بیشمار وسائل بھی ہیں اور انہیں سامراجی میڈیا کی حمایت بھی حاصل ہے۔
گو ایران کے لوگوں کی اکثریت امریکہ بارے کسی خوش فہمی کا شکار نہیں۔ادہر، حسب معمول حکمران ملاں اس تحریک کو امریکی کارستانی قرار دے کر تحریک کو ڈس کریڈٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ دنیا بھر کا لیفٹ اور ترقی پسند فیمن اسٹ اس تحریک کا کھل کر ساتھ دیں۔ ترقی پسندوں کی کوشش ہونی چاہئے کہ ایران کے عوام کو امریکی سامراج کی حمایت کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ایرانی عوام کو معلوم ہو کہ دنیا بھر کے لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ایران کے پڑوسی ممالک اور مسلم دنیامیں اس تحریک سے یکجہتی اور بھی اہم ہے۔ ایران میں مذہبی آمریت کے خاتمے سے پورا خطہ متاثر ہو گا۔ پوری مسلم دنیا میں ایران اور سعودی عرب مذہبی بنیاد پرستی کے دو اہم ترین سر پرست ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایران سے نفرت کرنے والے مذہبی گروہ بھی اس تحریک بارے خاموش ہیں۔ اس کی وجہ اس کا ترقی پسندانہ پہلو ہے۔ عورت دشمنی ایک ایسی چیز ہے جو پوری مسلم دنیا کے ملاوں کو متحد کر دیتی ہے چاہے ان کا فرقہ کچھ بھی ہو۔
خطے میں ہونے والی اس اہم ترین پیش رفت بارے پاکستان کا بایاں بازو اور فیمن اسٹ تحریک عمومی طور پر خاموش نظر آ رہی ہے۔ ہونا اس کے الٹ چاہئے۔ ایک کی جیت سب کی جیت اگر سوشلسٹ اصول ہے تو اس اصول کے تحت بائیں بازو اور فیمن اسٹ تحریک کو کھل کر ایران میں جاری انقلاب کی حمایت کرنی چاہئے۔
ایران کے عورت انقلاب کی حمایت کرتے وقت کسی اگر مگر سے کام لینا نا قابل قبول!
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔