لاہور (جدوجہد رپورٹ) مصر میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس (COP27) میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے شدید موسمی واقعات کا شکار بننے والے غریب ملکوں کے نقصانات سے نمٹنے میں مدد کرنے کیلئے ایک فنڈ قائم کرنے کا ایک حتمی معاہدہ اپنایا گیا ہے۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق رات بھر جاری رہنے والے کشیدہ مذاکرات کے بعد اتوار کی صبح مجموعی معاہدے کا ایک مسودہ جاری کیا گیا۔ اس دستاویز کو اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کیلئے حتمی، وسیع معاہدے کے طورپر آگے بڑھانے کیلئے ایک مکمل اجلاس بھی بلایا گیا۔ مکمل اجلاس نے’Loss and Damages Fund‘ قائم کرنے کی منظوری دی تاکہ ترقی پذیر ملکوں کو طوفان اور سیلاب جیسے موسمی واقعات کے فوری اخراجات برداشت کرنے میں مدد ملے۔
تاہم فنڈ کے حوالے سے بہت سے متنازعہ معاملات کو آئندہ سال ہونے والی بات چیت میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ایک عبوری کمیٹی نومبر 2023ء میں ’COP28‘ میں ملکوں کیلئے سفارشات پیش کرے گی۔ ان سفارشات میں فنڈنگ کے ذرائع کی نشاندہی اور توسیع کا احاطہ کیا جائے گا۔ یہ مشکل مرحلہ بھی ابھی طے کیا جائے گا کہ کن ملکوں کو اس فنڈ میں ادائیگی کرنی چاہیے۔
اس فنڈ کے قیام کے فیصلے کو غریب ملکوں کیلئے ایک بڑی جیت قرار دیا جا رہا ہے، جنہوں نے طویل عرصہ سے مالی معاضے کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ وہ اکثر موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہوتے ہیں۔
ترقی پذیر ملکوں کی طرف سے اس طرح کے فنڈ کیلئے مطالبات نے دو ہفتے تک جاری رہنے والی سربراہی کانفرنس پر غلبہ حاصل کر لیا تھا، جس کی وجہ سے بات چیت جمعہ کو طے شدہ اختتام سے آگے گزر گئی۔ یہ مطالبات موسمیاتی کانفرنس کے اندر موجود نمائندگان سے زیادہ مصر سمیت دنیا بھر میں موسمیاتی کارکنان کے احتجاجی مظاہروں کے دوران کئے جا رہے تھے۔
معاہدے کے مطابق یہ فنڈ ابتدائی طور پر ترقی یافتہ ملکوں اور دیگر نجی اور عوامی ذرائع جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تعاون سے حاصل کیا جائے گا۔ اگرچہ چین جیسی معیشتوں کو ابتدائی طور پر حصہ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہو گی، لیکن یہ آپشن موجود ہے اور آنے والے سالوں میں اس پربات چیت کی جائیگی۔
یاد رہے کہ ’COP27‘ کے موقع پر کانفرنس کے انٹری گیٹ پر اس مطالبہ کے حصول کیلئے سماجی تحریکوں کے کارکنان مسلسل احتجاج کرتے رہے ہیں۔ ایشیا یورپ پیپلز فورم کے ایشیا سیکشن کے کوآرڈی نیٹر اور پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق بھی انہی سماجی تحریکوں میں سے ایک ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیبٹ اینڈ ڈویلپمنٹ کی جانب سے اس کانفرنس میں ایک آبزرور کے طور پر شریک تھے۔
وہ مسلسل ان احتجاجی مظاہروں میں نہ صرف شرکت کرتے رہے بلکہ ان کی تقاریر کو سوشل میڈیا پر بے حد پذیرائی ملنے کے علاوہ عالمی میڈیا نے بھی ان کے انٹرویوز شائع کئے۔
انکا کہنا تھا کہ ’مجھے سکیورٹی کی جانب سے وارننگ بھی دی گئی کہ میں ملکوں اور اداروں کا نام لئے بغیر تقاریر کروں۔ تاہم میں نے اس وارننگ کی پرواہ کئے بغیر امریکی سامراج، یورپی یونین، برطانوی سامراج، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا نام لے کر ان پر تنقید کی۔ تاہم آج بے حد اطمینان ہے کہ کم از کم ہمارے مطالبہ تسلیم ہو گیا ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’یہ دنیا بھر کی سماجی تحریکوں کی جانب سے ایک مشترکہ کوشش تھی، جو 30 سال سے اس کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ہم بھی انہی سماجی تحریکوں میں سے ایک کی نمائندگی کر رہے تھے۔‘
واضح رہے کہ ترقی یافتہ دنیا نے ابھی تک اپنے 2009ء کے وعدے پر بھی عمل نہیں کیا ہے، جس کے تحت موسمیاتی امداد میں سالانہ 100 ارب ڈالر خرچ کرنے تھے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ماحولیاتی صحت اور انصاف کے پروفیسر ساکوبی ولسن نے کہا کہ ’بہت سے طریقوں سے ہم معاوضے کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ یہ استعمال کرنے کیلئے ایک مناسب اصطلاح ہے کیونکہ امیر ملکوں نے فوسل فیول کے فوائد حاصل کئے ہیں، جبکہ غریب ممالک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا شکار ہیں۔‘