فاروق سلہریا
مراکش نے سپین کو شکست دے کر جب کوارٹر فائنل کے لئے جگہ بنائی تو بلا شبہ دنیا بھر میں فٹ بال شائقین کے لئے یہ اہم ترین خبر تھی۔ عام طور پر شائقین، اگر اپنا ملک نہ کھیل رہا ہو، تو کمزور ٹیم کا ساتھ دیتے ہیں۔ مراکش کی تاریخی فتح پر دنیا بھر میں عمومی جشن منایا گیا۔
راقم نے بھی اپنے مراکشی دوستوں کو مبارک کے پیغام بھیجے (گو وہاں کا سلطان بھی اس کا بھر پور سیاسی فائدہ اٹھا ریا ہے)۔
مراکش کی ٹیم نے جشن فتح مناتے ہوئے فلسطین کا جھنڈا اٹھایا۔ مراکش ٹیم کا شکریہ کہ انہوں نے فلسطین کے ساتھ ایک ایسے وقت میں اظہار یکجہتی کیا کہ جب عرب حکمران بلکہ مسلم دنیا کے سب ہی حکمران منافقانہ حد تک بھی اظہار یکجہتی کے لئے تیار نہیں۔ دنیا بھر میں بائیں بازو نے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے (یادش بخیر! سٹالن کی قیادت میں ویسے سوویت یونین نے اسرائیل کے قیام کی حمایت کی تھی جس کا طعنہ اب تک عرب لیفٹ کو ملتا ہے)۔
مراکش الیون کی جانب سے فلسطینی جھنڈا لہرانے پر عرب دنیا اور پاکستان سمیت غالباً پوری مسلم دنیا خوش دکھائی دیتی ہے۔ وائے حیرت! یہی امہ چند دن پہلے سیخ پا تھی کہ بعض یورپی ٹیمیں ہم جنس حضرات کے ساتھ اظہار یکجہتی کیوں کر رہے ہیں؟
گویا: ہم مظلوموں کے ساتھ نہیں، ہم صرف ان مظلوموں کے ساتھ ہیں جو ہمارے مخالفوں کے ظلم کا شکار ہیں۔ ہم نا انصافی کے خلاف نہیں، ہم صرف اس نا انصافی کے خلاف ہیں جو ہمارے دشمن کرتے ہیں۔ اسے احتجاج کی نرگسیت ہی کہا جا سکتا ہے۔
قطر میں فلسطین کا جھنڈا لہرانا بہادری ہے نہ مزاحمت
کیا ہی اچھا ہوتا اگر فلسطین کے ساتھ مراکش الیون فلسطین کے علاوہ مراکشی ریاست کے جبر کا شکار بربر قوم کا جھنڈا بھی لہراتے۔ ترک سلطان رجب طیب اردگان کی بربریت کا شکار کردستان کا جھنڈا بھی لہراتے۔ مراکش میں جمہوریت کے لئے قید ضمیر کے قیدیوں سے بھی اظہار یکجہتی کرتے۔ ہم یہ توقع تو نہیں رکھتے کہ وہ ہم جنس پرستوں کا پرچم بھی لہراتے لیکن کم از کم ہم جنس پرستوں کے اس جمہوری حق کو تو تسلیم کرتے کہ وہ قطر میں اپنا جھنڈا لہرا سکتے ہیں۔
قطر میں فلسطین کا جھنڈا لہرانا کوئی بہادری ہے نہ مزاحمت۔ بہادری اور یہ کوئی بڑی بات ہوتی اگر مراکش کی ٹیم عرب دنیا میں جمہوریت کا پرچم بلند کرتی اور قطر میں غلاموں جیسی زندگی گزارنے والے جنوب ایشیائی مزدوروں سے اظہار یکجہتی کرتے۔
قطر ورلڈ کپ میں منافقت امہ کی اجارہ داری نہیں ہے
ہمارا یورپی ٹیموں بارے بھی یہ کہنا ہے کہ ان کا قطر میں کہکشاں والا پرچم اٹھانا کوئی بہادری ہے نہ مزاحمت۔ اصل مزاحمت ہوتی اگر یہ ٹیمیں قطر کے خلاف جنوب ایشیائی مزدوروں کی آواز بنتے جو فٹ بال اسٹیڈیم بناتے ہوئے درجنوں کی تعداد میں ہلاک ہوئے۔ اس سے بھی اہم: یورپی ٹیموں کو چاہئے تھا کہ ہم جنس لوگوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ وہ عرب آمریتوں کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ بیچنے والے، اسرائیل کی سرپرستی کرنے والے سامراجی ممالک اور عرب سلطانوں کی سرپرستی کرنے والے مغربی حکمرانوں کے خلاف بھی علم بغاوت بلند کرتے۔
قصہ مختصر: اس فٹ بال عالمی کپ میں منافقت امہ کی اجارہ داری نہیں ہے!
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔