عدنان فاروق
موجودہ حکومت نے بچیوں سے زیادتی کے واقعات کو روکنے کے لئے چند دن قبل خیبر پختون خواہ میں اسکول جانے والی طالبات کے لئے عبایا پہننے کا حکم جاری کر دیاہے۔
پھر کیا تھا کہ رد عمل کا ایک طوفان آ گیا۔ مذہب پسند اس کو مذہب سے جوڑنے لگے۔ مولوی حضرات (بہت سے با ریش مولوی وہ ہیں جن کے پیٹ میں داڑھیاں ہیں) کو طالبات اور عورتوں کے تمام مسائل کا حل عبایا میں دکھائی دینے لگا۔ گویا بچیوں کے پردہ کرنے سے تمام ذہنی طور پر آلودہ لوگ بھی پردہ فرما جائیں گے اور پھر نہ تو کوئی لڑکی جنسی تشدد کا نشانہ بنے گی نہ معاشرے میں ”جنسی بے راہ روی“ پھیلے گی۔
بھلا ہو اِن جہاندیدہ لوگوں کا جنہوں نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا، دلیل کے ساتھ بات کی، اصل مسئلے کو اجاگر کیا اور یہ حکم نامہ کم از کم وقتی طور پر واپس ہو گیا۔
عبایا کے وکیل یہ دلیل دے رہے تھے کے بچیوں کو پردہ میں چھپانے سے ان کو رسوا کرنے والے عناصر ان سے دور رہیں گے۔ عین جب یہ دلیل دی جا رہی تھی، قصور کی تحصیل چونیاں سے تین بچوں کے ساتھ ہولناک سلوک کی خبریں آ رہی تھیں۔ ان بچوں کو زیادتی کے بعد ہلاک کر دیا گیا۔ یہ بے چارے تینوں لڑکے تھے۔
عبایا پر وعظ کرنے والے شاید نہیں جانتے یا جاننا نہیں چاہتے کہ ماضی میں برقع پوش عورتوں سے ظلم کے واقعات ان کے اس دعویٰ کی نفی کرتے ہیں کہ لباس بچوں یا عورتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ عبایا، لباس یا برقعے سے کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں، یہ بات دنیا بھر میں تحقیق سے ثابت ہے۔
فیصلہ سازوں نے سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ بچوں کے جسم کو بیانئے کی حد تک، جنسی لذت کا سامان مہیاکرنے والا ایک روبوٹ بنا دیا۔ جن کے ذہن میں کبھی ایسا خیال بھی نہ آیا ہو، وہ بچوں سے جنسی آسودگی حاصل کرنے کا خواب دیکھنے لگ جائیں گے۔ بیانئے عمل میں بدل جاتے ہیں، ہم دیکھ چکے ہیں۔
فیصلہ کرنے والوں کی سیاسی اور سماجی بصیرت کا اندازہ اس طرح لگائیں کہ انھوں نے سکولوں میں زیرِ تعلیم آدھے بچوں [جو کے مرد ہیں] کو بالکل نظر انداز کر دیا۔
اوپر قصور کا ذکر ہوا۔ اس دوران جیو چینل پر شاہ زیب خانزادہ نے فلاحی تنظیم ”ساحل“کے حوالے سے بتایا کہ گذشتہ سال میں صوبہ خیبر پختون خواہ میں ہی، جہاں یہ پابندی لگی، لڑکوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات لڑکیوں کی نسبت زیادہ ہوئے۔
عجیب بات ہے کہ جب کبھی روزگار یا نوجوانوں کی بہتری کی قانون سازی ہوتی ہے تو اس ملک کی خواتین کو نظر انداز کر دیا جاتا، جیسے نہ تو ان عورتوں کو نوکری کی ضرورت ہے اور نہ ہی بہتری کی۔ اسی طرح جنسی تشدد کا”قانون“ بناتے وقت اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ لڑکے بھی اسی درندگی کا شکار ہوتے ہیں جس کا شکار بچیاں ہوتی ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ایسے واقعات گھر کے اندر‘رشتہ داروں کے ہاتھوں زیادہ ہوتے ہیں۔ جیسے بچوں کو بچانے کے لئے مدرسوں میں برقع نہیں پہنایا جا سکتا بالکل اسی طرح بھائیوں، کزنوں، چچاؤں اور ماموؤں کے جنسی استحصال کا شکار ہونے والی بچیوں کو اپنے گھروں میں بھی برقع نہیں پہنایا جا سکتا۔
مجھے یقین ہے کہ اب سب سزاؤں کو سخت کرنے کا شور ڈال دیں گے۔ ایک مرتبہ پھر قصور سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ابھی معصوم زینب کے قاتل کو پھانسی دیے زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور چونیاں سے ویسی ہی خبریں آ رہی ہیں۔
اصل مسئلہ عورتوں اور بچوں کے حقوق بڑھائے بغیر، تعلیم اور تربیت کے بغیراور بچوں اور عورتوں کو طاقت دئیے بغیر حل ہونے والا نہیں۔
بچوں کو سکولوں میں یہ بتایا جانا چاہئے کہ آپ نے اپنا دفاع کیسے کرنا ہے۔ افسوس کہ بچوں کو جنسی پاگل پن کا شکار بن جانے کے بعد بھی معلوم نہیں ہوتا کے ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
آخر کب تک ہم اس طرح کے حل ڈھونڈتے رہیں گے کہ دہشت گردی ہو رہی ہے تو ڈبل سواری پر پابندی لگا دو، جرم کو روکنا ہے تو لٹکا دو اور اگر ریپ کو روکنا ہے تو عورت کو برقع پہنا دو۔
یہ وہی فلسفہ ہے کہ گرمی لگ رہی ہے تو ٹنڈ کروا لو۔ کاش سر منڈوانے سے گلوبل وارمنگ رک سکتی!