دنیا

مراکش: ’ورلڈ کپ میں جیت سے عوام خوش لیکن حکمرانوں سے نفرت ختم نہیں ہوئی‘

ایرک توساں، جواد مستقبل

(بلجئیم سے تعلق رکھنے والے معروف مارکسی معیشت دان اور مفکر ایرک توساں نے مراکش میں ’اٹیک‘ سے وابستہ کارکن جواد مستقبل سے مراکش کی فٹ بال ورلڈ کپ میں فتوحات کے حوالے سے، اس کے سیاسی پہلووں پر بات کی۔ جواد مستقبل کی اس گفتگو کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے)

اتوار 4 دسمبر 2022ء کو موراکو کے رباط شہر میں ایک قومی مارچ کا اہتمام کیا گیا۔ اس مارچ میں تقریباً 3000 افراد نے شرکت کی اور اس مارچ کا نعرہ تھا، ’ہم سب مہنگائی، ظلم اور جبر کے خلاف ہیں‘۔

اس مارچ کا اہتمام نیشنل سوشل فرنٹ نے کر رکھا تھا۔ اس فرنٹ میں کئی سیاسی، ٹریڈ یونین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شامل ہیں۔ مارچ کے شرکا نے قیمتوں میں اضافے کی لہر اور تمام اختلافی آوازوں کے خلاف حکومت کے جارحانہ اقدامات میں اضافے کی مذمت کی۔

کورونا وبا کے بعد پہلا احتجاج

مارچ 2020ء کورونا وبائی مرض کے پھیلاؤ کے بعد سے یہ پہلا قومی مارچ تھا۔ وبائی مرض کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکام نے ہر قسم کے اجتماعی اظہار پرپابندی عائد کر دی تھی۔ مارچ کے شرکا نے قوت خرید پر حالیہ حملوں اور ارب پتی سربراہ حکومت عزیز اخنوچ کے خلاف نعرے لگائے۔ شرکا مارچ کی جانب سے اٹھائے گئے پلے کارڈوں پر ’اخنوچ آؤٹ‘ کے نعرے درج تھے۔

آبادی کی اکثریت کے حالات زندگی کی تباہی کی ساختی وجوہات ان نیو لبرل معاشی پالیسیوں سے منسلک ہیں، جو ملک پر کئی دہائیوں سے حکومت کرنے والوں کی جانب سے لاگو کی گئی ہیں۔ لبرلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کی پالیسیاں ایک مقامی اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتی ہیں، جو شاہی ’محل‘ کے گرد گھومتی ہے۔ یہ اشرافیہ اکثر مغربی ملٹی نیشنلز کے ساتھ مل کر علاقوں (پانی، جنگلات، زمین، بارودی سرنگیں وغیرہ) یا سب سے زیادہ منافع بخش عوامی اداروں پر یا یہاں تک کہ اسٹریٹجک اور اہم شعبوں، جیسے پانی کی تقسیم، توانائی، تعلیم یا صحت پر اجارہ داری قائم کرتی ہے۔

یہ ساختی عوامل بنیادی طور پر اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ یہ عوامی خدمات کے بجٹ میں مسلسل کمی اور خوراک اور توانائی پر ہمارا انحصار بڑھا کر معاشی حالات سے نمٹنے کی ریاست کی صلاحیت کو بھی محدود کر دیتے ہیں۔ یہ مصنوعات کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے سلسلے میں ہماری کمزوری کو بڑھاتا ہے، جو ہمارے لوگوں اور ہماری معیشت کیلئے ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ خشک سالی کے اثرات بھی شامل ہیں، جو عالمی ماحولیاتی بحران اور گلوبل وارمنگ کے سلسلہ میں گزشتہ 20 سالوں میں زیادہ شدید اور متواتر ہو چکے ہیں۔

بحرانوں اور عدم مساوات پر حکومت کا جواب صرف جبر میں اضا فہ

آکسفیم کی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق موراکومیں سماجی عدم مساوات بھی خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ ریاست کو ان متعدد بڑھتے ہوئے بحرانوں سے نمٹنے کیلئے جبر ہی واحد رد عمل معلوم ہوتا ہے۔ حکومت دہشت گردی کا ماحول پیداکرنے میں کامیاب ہو گئی ہے، جہاں ایک سادہ فیس بک پوسٹ، یا یہاں تک کہ ’لائیک‘ بٹن پر کلک کرنے پر لوگوں کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے اور انہیں سزا سنائی جاتی ہے۔

ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی فتح کے حوالے سے حکومت نے پہلے ہی اپنی میڈیا مشین لانچ کردی تھی، تاکہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے اورنام نہاد قومی اتحاد کو فروغ دیا جا سکے اور عوام کی نیندیں اڑ جائیں۔ بدقسمتی سے آج لوگوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں متعدد ناکامیوں اور پریشانیوں کے پیش نظر فتح کے ایک خیالی احساس کی بھی ضرورت ہے۔

تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ خوشی وقتی رہے گی اور اگر فٹ بال کی فتح لوگوں کو ان کے خوفناک حالات زندگی کو چند دنوں کیلئے بھولنے میں مدد فراہم کرتی بھی ہے تو بھی محنت کش طبقے کی بے اطمینانی اور حقارت (الحکرۃ) کا احساس واپس آجائیگا۔ جس چیزکا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے وہ یہ ہے کہ اس بے اطمینانی کا اظہار حکمران طبقات کے حملے کے تشدد کے برابر اجتماعی تحریکوں میں کب ہو گا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts