خبریں/تبصرے

راؤ انوار سمیت نقیب اللہ محسود قتل کیس میں ملوث تمام 18 افراد کو بری کر دیا گیا

لاہور (جدوجہد رپورٹ) کراچی کی مقامی عدالت نے ریٹائرڈ پولیس آفیسر راؤ انوار سمیت دیگر تمام 17 افراد، جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار شامل ہیں، کو 27 سالہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے الزام میں بری کر دیا ہے۔

نقیب اللہ محسود کو 2018ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے اس وقت کہا تھا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف ایک چھاپے کے دوران نقیب اللہ محسود مارا گیا تھا۔

نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد ملک بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی و سماجی کارکنوں کی جانب سے مذمت کی گئی تھی، جبکہ قبائلی علاقوں کے محسود قبائل نے ہزاروں کی تعداد میں احتجاج شروع کر دیا تھا۔ اسلام آباد کی طرف مارچ کیا گیا اور احتجاجی دھرنا دیا گیا تھا، محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے شروع ہونے والی تحریک نے پشتون تحفظ موومنٹ میں تبدیل ہونے کے بعد پورے پشتون علاقوں میں دہشت گردی اور ریاستی مظالم کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کی۔

نقیب اللہ محسود کے قتل کے وقت کراچی میں پولیس آفیسر راؤ انوار اور دیگر کو احتجاج کے بعد گرفتار کیا تھا تھا اور 2019ء میں ٹرائل شروع ہوا تھا۔ حکومتی تحقیقات میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ نقیب اللہ محسود کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

’اے پی‘ کے مطابق نقیب اللہ محسودکے خاندان کے وکیل جبران ناصر نے کہا کہ کراچی کی مقامی عدالت نے راؤ انوار اور دیگر کو ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے بری کیا ہے۔ پراسکیوشن ان کے خلاف لگائے گئے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خاندان سے مشاورت کے بعد عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرینگے۔

نقیب اللہ محسود کی فیملی نے دعویٰ کیا ہے کہ نقیب اللہ کو قتل سے کئی ہفتے قبل گرفتار کیا گیا تھا اور مبینہ چھاپہ مار کارروائی ایک جعلی انکاؤنٹر تھا، جس میں ایک منظم سازش کے تحت نقیب اللہ محسود کو قتل کیا گیا۔

عدالتی فیصلے کے بعد راؤ انوار نے کہا کہ انصاف ہو گیا ہے اور وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں دوبارہ ملازمت پر بحال کیا جائے کیونکہ انہیں معطل کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔

تاہم دوسری طرف پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے احتجاج کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے بھی نظام انصاف پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts