راولپنڈی (حارث قدیر) پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی نیشنل پریس کلب کے راولپنڈی کیمپ آفس میں سیاسی سرگرمیوں پر ایک غیر اعلانیہ پابندی عائد کی گئی ہے۔ طلبہ کو کسی بھی نوع کی سیاسی سرگرمی کے انعقاد کیلئے متعلقہ تھانہ سے پیشگی اجازت لینا ہوگی۔ بغیر اجازت کسی بھی سرگرمی کیلئے پریس کلب میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔
خطے کی سب سے مقبول اور نوجوانوں کی روایت سمجھی جانے والی ترقی پسند طلبہ تنظیم جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (جے کے این ایس ایف) کو پولیس اجازت کے بغیر پریس کلب میں کنونشن کے انعقاد کی اجازت نہیں دی گئی۔ چند روز قبل پریس کلب کے باہر ٹریڈ یونینوں کے ایک احتجاجی پروگرام میں شریک جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان کو گرفتار کیا گیا اور تھانہ سٹی راولپنڈی میں انہیں کچھ دیر حبس بے جا میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔
راولپنڈی کیمپ آفس کی انچارج شکیلہ جلیل نے ’جدوجہد‘ کو بتایا کہ ’کشمیری طلبہ تنظیموں اور کچھ دیگر تنظیموں پر بھی اس طرح کی پابندی لگائی گئی ہے، کیونکہ تنظیمیں لڑائی جھگڑے کرتی ہیں تو ادارے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’ماضی میں انہی لوگوں (این ایس ایف) نے پریس کلب میں ایک ایونٹ منعقد کیا اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی۔ جس کی وجہ سے پولیس اور ایجنسیاں بھی اس معاملے میں شامل ہو گئیں۔ اس معاملے کے بعد یہ طے کیا گیا ہے کہ کشمیری طلبہ تنظیمیں پریس کلب کا ہال کرائے پر لینے کیلئے سٹی تھانہ پولیس کے پاس درخواست دیکر ان سے پیشگی اجازت لیں گی۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’اجازت لینے سے ایک تو جھگڑوں وغیرہ والا معاملہ بھی نہیں ہو گا، دوسرا انہیں سکیورٹی بھی مل جائے گی۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ صرف کشمیری طلبہ تنظیموں کیلئے ہی کیوں ایسی پابندی عائد کی گئی ہے، تو انکا کہنا تھا کہ ’صرف کشمیری طلبہ تنظیموں کیلئے نہیں بلکہ ٹی ایل پی سمیت کچھ دیگر متنازعہ تنظیموں سے متعلق بھی یہ شرط عائد کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ متنازعہ شخصیات بھی ایسی ہیں، اگر انہیں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جائے تو بھی یہ اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا ہے۔‘
گرفتار ہونے والے طلبہ میں شامل جے کے این ایس ایف کے ایک عہدیدار حنان بابر کا کہنا تھا کہ ’ہم کمر توڑ مہنگائی، آٹے کی قلت اور آئی ایم ایف کی سامراجی پالیسیوں کے خلاف ٹریڈ یونینوں کے ایک مشترکہ احتجاج میں شریک ہونے گئے تھے۔ ہمارے علاوہ دیگر طلبہ تنظیمیں بھی اس احتجاج میں شریک تھیں۔ لیکن ہمیں احتجاج ختم ہونے کے بعد چن کر گرفتار کیا گیا، زدوکوب کیا گیا اور تھانے میں لے جا کر ہمیں دھمکایا بھی گیا۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’ایک اہلکار، جو اپنے آپ کو سپیشل برانچ کا اہلکار بتا رہا تھا، نے ہمیں کہا کہ یہاں کیوں احتجاج کر رہے تو اس پار (بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر) جا کر احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ تم لوگ ریاست مخالف ہو اور ملک دشمن ہو۔ تمہارے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ ہم نے بھی کہا کہ ہم زندگی یہاں گزارتے ہیں، تعلیم یہاں حاصل کرتے ہیں، کرایہ یہاں ادا کرتے ہیں، ٹیکس یہاں دیتے ہیں اور آٹا جا کر بھارت سے کیسے مانگیں؟ احتجاج ہمارا بنیادی حق ہے، آپ ہمیں احتجاج کرنے سے نہیں روک سکتے۔ انہوں نے کچھ دیر بعد ہمیں رہا کرتے ہوئے یہ کہا کہ آئندہ یہاں احتجاج نہیں کرنا ہے۔‘
گرفتار ہونے والے طلبہ میں شامل ایک اور طالبعلم رہنما عبدالوہاب کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ایک مخصوص قومیت کی وجہ سے ملک دشمن یا غدار قرار دینے کے ذمہ دار پولیس اہلکاران کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ سارے صرف پولیس اہلکار ہی تھے۔ ریاست روزگار، تعلیم اور علاج جیسی سہولیات دینے کی بجائے ان بنیادی حقوق کی مانگ کرنے والوں کے خلاف کاررائی کرنے میں مصروف ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’حکمرانوں اور ریاست کی جمہوریت بھی صرف دکھانے کی ہے، محکوم قومیتوں اور پچھڑی ہوئی پرتوں کو اظہار رائے کی آزادی بھی نہیں دی جا رہی بلکہ الٹا پولیس اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے انہیں ملک دشمن قرار دینے کا سلسلہ شروع ہے۔ یہ انتہائی قابل مذمت اقدام ہے۔‘
آر ایس ایف شمالی پنجاب کے آرگنائزر عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ’یہ پریس کلب عہدیداران پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے پر ان پابندیوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ جموں کشمیر ابھی پاکستان کے آئین کا حصہ نہیں ہے، اگر کوئی جموں کشمیر کی مکمل آزادی کی بات کرتا ہے تو اسے ملک دشمن قرار دینا حکمرانوں، ریاست اور پریس کلب عہدیداران کے جموں کشمیر کی جانب نوآبادیاتی اور توسیع پسندانہ نقطہ نظر کو عیاں کر رہا ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’نیشنل پریس کلب کے عہدیداران اگر اس طرح کا رویہ اپنائیں گے تو یہ ایک سنگین صورتحال ہے۔ نیشنل پریس کلب کے صحافیوں کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے اور جموں کشمیر کے نوجوانوں اور طالبعلموں کی سیاسی آوازوں کو دبانے کے اس اقدام کو ترک کرنا چاہیے۔‘
اس معاملے پر راولپنڈی سٹی پولیس اسٹیشن کے سٹیشن ہاؤس آفیسر اور ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ قائم نہیں ہو سکا۔