خبریں/تبصرے

مشرق وسطیٰ میں مذہب نہیں جمہوریت زیادہ مقبول ہے؟ عرب رائے عامہ انڈکس 2022ء

رپورٹ: قیصر عباس

(واشنگٹن ڈی سی) ایک درجن سے زیادہ عرب ملکوں میں کئے گئے رائے عامہ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق جمہوریت عوام کا پسندیدہ سیاسی نظام ہے اور ان کی ایک بڑی تعدادیہ بھی سمجھتی ہے کہ مذہب سے ان کی وابستگی اتنی گہری نہیں ہے جتنی سمجھی جاتی ہے۔ سروے میں شامل لوگوں کی اکثریت (61 فیصد) کا کہنا ہے کہ وہ ”کچھ حد تک ہی مذہبی ہیں“ جب کہ 12 فی صدمذہبی نہیں ہیں اور 24 فی صدمذہبی ہیں۔

بڑے پیمانے پر کئے گیے اس سر وے کے یہ نتائج عرب اور مسلم ممالک کے شہریوں کے متعلق ان مفروضوں کی نفی کرتے ہیں جن کے مطابق صرف مذہب ہی عرب شہریوں کی زندگی کا محور ہے اور یہاں کے لوگ کٹر مذہبی ہیں۔ مذہب کی تشریح کرتے ہوئے ان لوگوں کایہ بھی کہنا ہے کہ ان کے عقیدے کا تعلق انفرادی اخلاقیات اوراقدار سے ہے نہ کہ مذہبی فریضوں سے۔

دوسری جانب عرب رائے عا مہ کا یہ یقین کہ جمہوریت ان ممالک کیلئے ایک بہترین نظام ہے، اس بات کا غماز ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے آمرانہ سیاسی نظام سے غیرمطمئن ہیں اور جمہوریت کے ذریعے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ سروے میں شامل بیشتر ملکوں میں بادشاہت، برائے نام انتخابات یا آمرانہ نظام قائم ہے اور جمہوری روایات موجود نہیں ہیں۔

یہ سروے عرب سینٹرواشنگٹن ڈی سی کے زیر اہتمام کرایا گیا تھا جس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر خلیل جھشان کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پراور عرب دنیامیں اس خطے کی رائے عامہ اور سرکاری حکمت عملی میں گہرا تضاد موجود ہے۔ امریکہ اور دوسرے ممالک کی خارجہ پالیسیوں میں عرب رائے عامہ کو شامل نہیں کیا جاتا اور خود عرب حکومتیں اپنی پالیسیوں کی تشکیل میں عوامی رائے کو اہم نہیں سمجھتیں۔ ان کے مطابق عام خیال یہ ہے کہ عرب شہری امریکہ سے نفرت کرتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ دراصل وہ امریکہ کے بارے میں ”انسیت اور نفرت“ کا ملاجلا رجحان رکھتے ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ وہ امریکی خارجہ پالیسی کے خلاف ہیں لیکن امریکہ ان کا پسندیدہ ملک ہے جہاں وہ آنا چاہتے ہیں۔

عرب سنٹرکو ایک خلیجی ریاست کی سرپرستی اور فنڈنگ سے چلا یا جاتا ہے جو ہر سال خطے کے لوگوں کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی رویوں پر سروے کراتا ہے۔ گزشتہ سال کئے گئے اس سالانہ سروے’Arab Opinoin Index‘ میں 33,300 لوگوں نے حصہ لیا جن کی رائے انفرادی انٹرویو کے ذریعے حاصل کی گئی۔ ان 14 ملکوں میں جہاں لوگوں کی رائے لی گئی الجیریا، مصر، اردن، عراق، کویت، لبنان، لبیا، موریطانیہ، مراکش، فلسطین، قطر، سعودی عرب، سوڈان اور تیونس شامل تھے۔

نتائج کے مطابق سروے کے 72 فی صد شرکا آمرانہ، مذہبی اور محدود انتخابات کے مقابلے میں جمہوریت کو ایک بہترین سیاسی نظام تصور کرتے ہیں جب کہ صرف 19 فی صد اس نظام کے خلاف ہیں اور اپنے ملک میں جمہوری نظام سے بھی غیر مطمئن ہیں۔ اس کے علاوہ خطے کے شہری اپنے ملک کے فوجی اور سیکورٹی اداروں پر اعتماد کرتے ہیں لیکن حکمرانوں، مقننہ اور عدالتوں پر اعتماد نہیں کرتے اور ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے مطابق کرپشن ان کے ملکوں میں ایک اہم مسئلہ ہے۔

اس سوال پر کہ ان کی نظر میں جمہوریت کا کیا مطلب ہے انہوں نے کہا کہ سیاسی اور شہری آزادی، مساوات، انصاف کا حصول، نظام میں ان کی شمولیت، اداروں کی طاقت، ان کے درمیان ذمہ داریوں کی تقسیم اور فرائض کی ادائیگی اس نظام کے اہم اجزا ہیں۔ ان کے علاوہ سماجی تحفظ، سیاسی اور اقتصادی استحکام کوبھی جمہوریت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

عام طورپر یہی سمجھا جا تا ہے کہ مشرق وسطیٰ کو ایران سے بے حد خطرہ ہے لاحق ہے لیکن خطے کی رائے عامہ اس سے کہیں مختلف ہے۔سروے میں شامل 80 فی صد لوگوں کے نزدیک عرب ممالک کی سالمیت کو سب سے زیادہ خطرہ اسرائیل اور امریکہ سے پھر اس کے بعد ایران سے ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خطے کے حکمران طبقے ایران کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے اسے اپنی دفاعی حکمت عملی کی بنیاد بناتے ہیں جب کہ عوام کے نزدیک اسرائیل اور امریکہ ان کی سالمیت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔

اپنے ملکوں کے مسائل سے متعلق لوگوں کی اکثریت کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک اقتصادی مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس کے بعد بے روزگاری، اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، مالی مسائل اور غربت ان کے اہم مسائل ہیں۔

2011ء کے دوران عرب ممالک میں عوامی تحریکوں یا ”عرب بہار“ پر لوگوں میں ملا جلا رجحان پایاگیا۔ ان کے مطابق ان تحریکوں کے جلد اختتام سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جن کی انہیں امید تھی اور نتیجے کے طور پر سابق حکمرانوں نے دوبارہ ان ملکوں پر قبضہ جما لیا۔ کچھ اور لوگوں کا خیال تھا کہ اگرچہ انقلاب نامکمل رہا لیکن انہیں امید ہے کہ اس کے مقاصد جلد یا بدیر ضرور حاصل ہوجائیں گے۔

سروے کے تنائج سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سیٹلائٹ ٹی وی عرب شہریوں کی معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس کے بعد ریڈیو، اخبارات، آن لائین ذرائع اور آخر میں دوستوں اور سماجی حلقے خبروں کے حصول کے اہم ذرائع ہیں۔ نتائج کے مطابق عرب ملکوں میں گزشتہ سات برسوں کے دوران انٹر نیٹ کے استعمال میں خاصا اضافہ ہواہے اور اب 64 فی صد افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔

اس سروے کے نتائج کی بنیاد پر عرب ملکوں کی رائے عامہ کے بارے میں کئی اہم سوالات جنم لے رہے ہیں۔ کیااس سروے کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ عرب ملکوں کے شہری سماجی تقریبات، شادی بیاہ اور عبادات کی حد تک مذہب کی پیروی ضرور کرتے ہیں لیکن اسے سیاسی اور معاشی پالیسیوں سے الگ دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا مستقبل قریب میں ان ملکوں میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی آنے والی ہے؟ کیا مشرق وسطیٰ میں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کے ذریعے جمہوری نظام کی امید کی جاسکتی ہے؟

ان سوالوں کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا لیکن مجموعی طورسروے کے نتائج کی بنیاد پر یہ کہنا درست ہو گا کہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلوں کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔