خبریں/تبصرے

چھٹے مقدمہ میں بھی ضمانت کو 5 روز گزر گئے، علی وزیر رہا نہ ہو سکے

لاہور (جدوجہد رپورٹ) جنوبی وزیرستان سے منتخب ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کے خلاف بغاوت، غداری اور اداروں کے خلاف نفرتیں پھیلانے کے الزامات میں درج چھٹے مقدمہ میں بھی پشاورہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت منظور ہوئے 5 روز گزر چکے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے پولیس کو صوبے میں درج کسی بھی اور مقدمہ میں گرفتار کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ تاہم علی وزیر کو تاحال رہا نہیں کیا جا سکا ہے۔

علی وزیر کو جیل میں دو سال دو ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران ان کے خلاف ایک کے بعد ایک مقدمہ اوپن کیا جاتا رہا ہے۔ ایک ہی نوعیت کے الزامات پر دو سال دو ماہ کے دوران 6 مختلف مقدمات میں علی وزیر کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے۔ ان مقدمات میں سپریم کورٹ، سندھ ہائی کورٹ، کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالتوں کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواستیں منظور کی ہیں۔ زر ضمانت بھی 39 لاکھ روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ تاہم علی وزیر کی رہائی ابھی بھی ممکن نظر نہیں آ رہی ہے۔

28 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے ضلع چارسدہ میں درج بغاوت کے مقدمہ میں علی وزیر کی ضمانت منظور کر کے انہیں 5، 5 لاکھ کے دو مچلکے جمع کرنے کی شرط پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ 4 ماہ قبل 5 ویں مقدمہ میں درخواست ضمانت منظور ہونے کے بعد علی وزیر کی گرفتار ی چارسدہ کے پرنگ پولیس اسٹیشن میں درج مقدمہ میں ظاہر کی گئی تھی۔ مذکورہ مقدمہ 2 مارچ 2020ء کو درج کیا گیا تھا، جبکہ یہ مقدمہ درج ہونے کے اڑھائی سال بعد ظاہر کر کے علی وزیر کی گرفتاری کو طوالت دینے کی کوشش کی گئی۔

دریں اثنا ’ڈان‘ کے مطابق جسٹس عتیق شاہ اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل ایک دوسرے بنچ نے پولیس کو علی وزیر کے خلاف صوبے میں درج کسی بھی مقدمہ میں انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے درخواست کی اگلی سماعت 13 فروری مقرر کرتے ہوئے اس بارے میں صوبائی سیکرٹری داخلہ اور پولیس سے جواب بھی طلب کر لیا ہے۔

درخواست میں علی وزیر نے بنچ سے درخواست کی تھی کہ وہ مختلف اضلاع میں ان کے خلاف درج کئے گئے تقریباً 11 مقدمات کے ساتھ ساتھ حکومت اور پولیس کی طرف سے ظاہر نہ کئے گئے مقدمات کو منسوخ کرنے کا حکم دے۔

دونوں مقدمات میں درخواست گزار کی جانب سے سینئر وکیل شیر افضل خان مروت پیش ہوئے تھے۔

علی وزیر کو 16 دسمبر 2020ء کو پشاور میں مقامی پولیس نے سندھ پولیس کی درخواست پر گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا تھا۔ پولیس نے کراچی میں یکے بعد دیگرے 4 مقدمات میں رکن اسمبلی کی گرفتار ی کا دعویٰ کیا۔ تاہم دو سال کے دوران علی وزیر کو کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ایک مقدمہ میں بری کر دیا، جبکہ دیگر تین مقدمات میں سے ایک میں سپریم کورٹ، ایک میں سندھ ہائی کورٹ اور ایک سے انسداد دہشت گردی عدالت نے ضمانت منظور کر رکھی ہے۔ اس کے بعد علی وزیر کو خیبرپختونخوا کے مختلف تھانوں میں درج مقدمات میں گرفتار ظاہر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہاں سے بھی دو مقدمات میں پشاورہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے صوبہ بھر میں کسی بھی مقدمہ میں علی وزیر کی گرفتاری سے بھی پولیس کو روکنے کا حکم دے دیا ہے۔ یوں 39 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے، 5 ایک ہی نوعیت کے مقدمات میں مختلف عدالتوں سے ضمانت منظور ہونے اور ایک مقدمہ سے بری ہونے کے باوجود علی وزیر رہا ہونے کے منتظر ہیں۔

علی وزیر کے خلاف مقدمات ختم کرنے کیلئے دائر درخواست میں ان کے وکیل شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے استدلال کیا کہ ان مقدمات میں درخواست گزار کے خلاف الزامات لگ بھگ ایک جیسے ہی ہیں، جن میں بغاوت، ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا اور قومی اداروں میں نفرت پھیلانا شامل ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پولیس نے ان کے موکل کی رہائی کو روکنے کیلئے مختلف مقدمات میں گرفتاری ظاہر کی۔

انہوں نے شکایت کی کہ صوبائی حکومت اور پولیس نے علی وزیر کے خلاف صوبے میں درج مقدمات کی درست تعداد ظاہر نہیں کی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ایک ہی فرد کے خلاف ایک جیسے مقدمات پر الگ الگ مقدمات درج نہیں کئے جا سکتے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ زیر بحث مقدمات میں علی وزیر کی گرفتار ظاہر کرنے سے پولیس کو روکا جائے اور ساتھ ہی ان مقدمات میں بھی گرفتاری ظاہر کرنے سے روکا جائے جن کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts