فاروق سلہریا
کہندے نیں مینوں میرے ہندے سوہندے
بھین بھرا نال مِلدی کیوں ایں
اکھاں نُوٹ کے سوندی کیوں ایں
آٹا گندیاں ہِلدی کیوں ایں
گلالئی اسمعٰیل جس جرم کا ارتکاب کر چکی تھی اس کے بعد وہ کسی عقوبت خانے میں مار بھی دی جاتی تو بھی کسی حماد حسن کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوتا بلکہ ایسے کئی حماد حسن ٹوئٹر، فیس بُک یا ٹاک شوز میں بیٹھ کر گلالئی اسمعٰیل کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد ہمیں بتاتے کہ کردار سے عاری اس عورت نے خود کشی کرنے سے پہلے شراب کی کونسی بوتل پی تھی۔ کوئی بھی گلالئی اسمعٰیل یہ وضاحت نہیں دے سکتی کہ وہ آٹا گوندھتے ہوئے کیوں ہلتی ہے یا آنکھیں بند کئے کیوں سوتی ہے۔ مندرجہ بالا لازوال پنجابی قطعہ پدر شاہی سماج میں عورت کی بے بسی کا خلاصہ بیان کر دیتا ہے۔
یہ تو وہ ملک ہے جہاں ایک’Enlightened Moderate‘ فوجی آمر یہ دعویٰ بھی کر سکتا ہے کہ گاؤں کی ایک عورت جس نے کبھی پاس کا قصبہ بھی نہیں دیکھا تھا، کینیڈا جانے کے لئے پنچایت کی مدد سے ریپ کا ڈرامہ کر رہی ہے۔
کسی حماد حسن کے گلالئی اسمعٰیل کے بارے میں کیا وچار ہیں یا پرویز مشرف نے مختاراں مائی کے متعلق کیا کہا، ہمیں اس سے غرض نہیں۔ سوال یہ ہے کہ عورت، مظلوم، محکوم، مزدور اور کسان کے حق کی بات کرنے والے پدر شاہی، قومی جبر، سرمایہ دارانہ استحصال اور جاگیردارانہ طرز کے جبر ایسے سوالوں پر کہاں کھڑے ہیں؟
ایسے میں جب لبرلزم کا پرچارک جریدہ ”ہم سب“ آزادی اظہار کے نام پر حماد حسن نامی ایک مضمون نگار کا ایک ”مضمون“ شائع کرتا ہے جس میں گلالئی اسمعٰیل کے کردار پر وہی جانے پہچانے حملے کئے جاتے ہیں جو پدر شاہی، اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت اور قومیتوں کے حق کی بات کرنے والی ہر عورت یا ہر مرد پر ہوتے ہیں‘ تو بہت سے سوال اٹھتے ہیں۔
گلالئی اسمعٰیل کے بارے میں اس شرمناک مضمون کے مندرجات اس قدر قبیح ہیں کہ انہیں جدوجہد کے صفحات میں بحث کے لئے بطور حوالہ بھی یہاں درج کرنا عورت دشمنی اور فحاشی کے زمرے میں آئے گا۔
یہاں پر بات ”ہم سب“ کے اس نقطہ نظر تک محدود رکھی جائے گی جو حماد حسن کے جواب میں عدنان کاکڑ (مدیرِ جریدہ)نے لکھا یا اس نوٹ کا ذکر کیا جائے گا جوحماد حسن کے مضمون کے ساتھ چسپاں تھا۔
ویسے مضمون کے ساتھ چسپاں نوٹ زیادہ دلچسپ تھا۔ بتایا گیا ہے کہ ادارہ ”ہم سب“حماد حسن کے ساتھ کلی طور پر متفق نہیں مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ کونسے مندرجات ہیں جن کے ساتھ ”ہم سب“ متفق ہے۔ ایسا کر دیا جاتا تو ہمیں ”ہم سب“ کی لبرلزم بارے تھوڑی جانکاری ہی مل جاتی۔
عدنان کاکڑ کا جوابی مضمون پڑھا تو یہ بھی پتہ چلا کہ موصوف کا ادارہ عاصمہ جہانگیر کو اپنا آئیڈئیل قرار دیتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر اگر زندہ ہوتیں تو شایداس وقت مال روڈ پر ”ہم سب“ کے خلاف پلے کارڈ لئے کھڑی ہوتیں۔
خدا را عاصمہ جہانگیر کو بخش دیجئے۔ گلالئی اسمعٰیل تک محدود رہیں تو اچھا ہے۔ گلالئی اسمعٰیل زندہ ہے اور اپنا دفاع کر سکتی ہے۔
قصہ مختصر: ہمیں بتایا یہ گیا ہے کہ لبرلزم صحافتی معروضیت پر یقین رکھتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دونوں نقطہ نظر دے دئیے جائیں، قارئین خود فیصلہ کر لیں کہ سچ کیا ہے۔ ایسی لبرلزم اور ایسی صحافت کا تو صدقہ اتارنا چاہئے۔
گویا ایک عورت کو پاکستانی معاشرے میں سر ِعام بد کردار کہہ دیا جائے اور جواب میں اس عورت کو موقع دے دیا جائے کہ وہ اپنے بد کردار ہونے کی تردید کر دے تو لبرل صحافتی اقدار کا پالن ہو جائے گا، سچ نکھر کا سامنے آ جائے گا؟
یہ وہ ملک ہے جہاں بھٹو جیسا طاقتور سیاستدان یہ سچ ثابت نہ کر سکا کہ ملک اس نے نہیں یحییٰ خان نے توڑا۔ عین اُس ملک میں ”ہم سب“ ہمیں یہ بتانا چاہتا ہے کہ مختار اں مائی کا بیان چھاپ دو کہ اسے پنچایت کے حکم پر بدترین تشدد کا ہولناک نشانہ بنایاگیا، جواب میں پرویز مشرف کا بیان شائع کر دو کہ مختاراں مائی نے کینیڈا میں سیاسی پناہ کے لئے ڈرامہ رچایا ہے تو لبرل صحافت کے معروضی تقاضے پورے ہو گئے۔
حضور ایک طبقاتی معاشرے میں (جو تشدد کی بد ترین مجسم شکل ہوتا ہے) طاقت ور اور مجبور کا سچ برابر نہیں ہوتا۔ حماد حسن ایک فرد یاایک مضمون نگار کا نام نہیں۔ حماد حسن مطالعہ پاکستان، نسیم حجازی، نوائے وقت، ریاست، منصورہ، اکوڑہ خٹک، بنی گالہ اور خادم رضوی کا مرکب ہے۔ حماد حسن وہ مرد ہے جو اپنی بیوی کو جان سے مار دے تو پدر شاہی سماج اس کے کندھے تھپکائے گا۔ حماد حسن وہ ”غازی“ ہے جس کے جنازے میں دس لاکھ افراد شامل ہوں گے اور”خاموش لبرل اکثریت“ دل ہی دل میں سلمان تاثیر کو کافر سمجھتے ہوئے کڑاہی گوشت کھانے میں یہ کہہ کر مصروف ہو جائے گی کہ سلمان تاثیر نے بھی تو احتیاط نہیں کی۔ حماد حسن نظریاتی اسٹیبلشمنٹ ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ باچہ خان، فیض احمد فیض، فاطمہ جناح اور بے نظیر غدار اور سیکیورٹی رسک ہیں۔ حماد حسن نیب کا وہ جج اور اے آر وائی کا وہ اینکر پرسن ہے جو لوگوں کو بدعنوان ہونے یا نہ ہونے کی سند جاری کرتا ہے۔
اور گلالئی اسمعٰیل؟
گلالئی اسمعٰیل بے چاری وہ حمید شاہین ہے جو ایک ایسے”مقتول“ کو قتل کرنے کے الزام میں ضیاآمریت کے دنوں میں پھانسی چڑھا جو قتل ہی نہیں ہوا تھا۔ جیسے سرکاری ٹی وی پر ضیاالحق کا بیان اور حمید شاہین کی پھانسی گھاٹ پر آخری خواہش آزادی اظہار کے پیرائے میں برابر قرار نہیں پا سکتیں، عین اسی طرح حماد حسن کا مضمون اور اس مضمون کے کمنٹس سیکشن میں گلالئی اسمعٰیل کے پریشان حال والد پروفیسر اسمعٰیل کی وضاحتیں برابر قرار نہیں دی جا سکتیں۔
ایڈورڈ سعید کی شہرہ آفاق کتاب”اورینٹل ازم“(بعض خامیوں کے باوجود)ہمیں یہی تو بتاتی ہے کہ جب کوئی یورپی ناول نگار، صحافی، پادری، سیاح یا آرٹسٹ مشرق کی تصویرکشی کرتا ہے تو وہ ایک فرد کسی دوسرے گروہ کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوتا۔ مسجد میں بیٹھا مولوی ایک فرد نہیں، ایک ادارہ ہوتا ہے۔ برابری کی بنیاد پرمولوی اور مقتدی کے مابین بحث ممکن نہیں۔
عدنان کاکڑ کا جواب الجواب یہ کہہ کر بھی پیش کیا گیا ہے کہ اس سے مکالمہ جنم لیتا ہے۔ حضور!مندرجہ بالا نکات سے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بھیڑ اور بھیڑیے کے مابین مکالمہ نہیں بقا کی جنگ ہوتی ہے۔
حماد حسن کا مضمون شائع کر کے ”ہم سب“ نے کسی لبرل اصول کی پاسداری نہیں کی۔ اس جریدے نے فقط یہ ثابت کیا ہے کہ وہ جابر اور مجبور کی لڑائی میں کس طرف کھڑا ہے۔ حماد حسن کا ”مضمون“ تو کوئی بھی شائع کر دیتا کیونکہ یہ مضمون نہیں طاقتور گروہ کا ایک بیانیہ تھا جو پہلے سے رائج ہے۔ جس دن گلالئی اسمعٰیل کے بارے میں خبر سامنے آئی، اُسی روز گلالئی اسمعٰیل کی کردار کشی پر مشتمل بیانیہ سب سے بڑا ٹوئٹر ٹرینڈ تھا۔ ہزاروں حماد حسن گلالئی اسمعٰیل کے کردار کے ساتھ بیانئے کی صورت میں وہ کچھ کر رہے تھے جو اس کے بدن کے ساتھ نہیں کیا جا سکا کیونکہ وہ کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عفریت کے چنگل سے نکل گئی۔ جو عملاً نہیں ہو سکا، اب فیکشنل طور پر ٹوئٹر اور ”ہم سب“ کے صفحات پرکیا جا رہا ہے۔
صحافت یہ نہیں کہ گلالئی اسمعٰیل کی زبانی کلامی لینچنگ (Lynching) میں حصہ لیا جائے۔ صحافت یہ ہے کہ گلالئی اسمعٰیل کے ساتھ، ممکنہ اختلافات کے باوجود، یکجہتی کا اظہار کیا جائے۔ صحافت مجیب الرحمٰن شامی کی طرح جنرل ضیاکے قصیدے لکھنے کا نام نہیں۔ صحافت ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی اور اقبال جعفری کی طرح ”مساوات تحریک“ کے دوران ضیا آمریت کی جعلی عدالتوں کے ذریعے کوڑے کھانے کا نام ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ ہم سب ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی اور اظہر جعفری کی طرح بہادر نہیں ہیں مگر یہ آپشن تو بہر حال موجود ہوتا ہے کہ انسان مجیب الرحمٰن شامی بننے سے پرہیز کرے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔