یاسمین افغان
افغانستان کے صوبے ہلمند میں واقع گرشک کالا قلعے کو دسویں صدی میں عزنوی عہد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعے نے نہ صرف وقت کی بے رحمی کا مضبوطی سے سامنا کیا بلکہ خانہ جنگی اور اس کے بعد 1996-2001ء تک قائم رہنے والی طالبان حکومت کو بھی برداشت کیا۔ لیکن حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس تاریخی عمارت کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ طالبان یہاں ایک مدرسہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ گرشک کالا کا شمار ہلمند صوبے کے 80 تاریخی مقامات میں ہوتا ہے۔
کابل کے مکروریان علاقے کے ایک 65 سالہ رہائشی کا مجھ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ”جب میرے بیٹے نے مجھے ویڈیو دکھائی تو میری آنکھوں میں صرف آنسو تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک انتہائی کربناک مرحلہ ہے۔“
اس کی بیوی جو سرکاری سکول میں ٹیچر تھی کا کہنا تھا ”میں جانتی تھی کہ جلد یا بدیر وہ ہمارے تاریخی مقامات پر حملہ کریں گے۔ یہی کام تو ان کو آتا ہے۔“
حنیف (فرضی نام) کابل کے بارہویں ڈسٹرکٹ میں طالب علم ہیں، ان کا کہنا تھا ”افغان عوام کو اپنی تاریخ پر فخر ہے اور اسی لیے وہ (طالبان) اسے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ وہ ہم سے ہمارا غرور چھین لینا چاہتے ہیں۔“ ان کی دوست، ظالامائی (فرضی نام) کا کہنا تھا ”میرا خون کھول رہا ہے، یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ہم اپنی تاریخ کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کر سکتے۔“
کابل کے علاقے دشت برچی کے ایک رہائشی کا کہنا تھا ”میں نے یہ ویڈیو دیکھی تو مجھے بامیان میں بدھا کے توڑے جانے والے مجسموں کا خیال آیا۔ یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ یونیسکو بھی اس المناک واقع پر خاموش ہے اور ہمارے تاریخی مقامات کی حفاظت کیلئے کوئی اقدام نہیں کر رہا۔“ اسی گھر کے ایک اور باشندے نے کپکپاتی آواز میں کہا ”جب آپ کسی قوم کی تاریخ پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اس قوم کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ یہ مقامات پہلے ہی خطرے میں تھے اور اب ایک ایک کر کے انہیں تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔“
افغانیوں کی ایک بڑی تعداد نے ٹویٹر اور فیس بک کے ذریعے بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
عصمت اللہ تبان، جو کہ ایک مصنف اور معیشت دان ہیں نے ٹویٹر پر لکھا ”آثارِ قدیمہ کی تباہی بہت تکلیف دہ بات ہے۔“
عزیر رحمن نے لکھا ”طالبان تخریبی ذہنیت کے حامل جنگلی لوگ ہیں۔ انکی نظر میں ہمارے ثقافتی ورثے سے اسلام کو خطرہ ہے۔ انکو ثقافتی ورثے کی قدر و قیمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔“
بریشانہ سادات نے فیس بک پر لکھا ”خدا تمہیں غارت کرے، تمہیں اور کوئی جگہ نہیں ملی مدرسہ بنانے کے لئے۔“
اجمیر رحمانو نے فیس بک پر لکھا ”وہ اور بھی جگہوں کو نشانہ بنائیں گے، یہ تو صرف شروعات ہے۔“
مقامی میڈیا نے طالبان کی اس تباہ کاری پر زیادہ تر خاموشی کا ہی اظہار کیا ہے، کیونکہ وہ بھی اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ انہیں طالبان کے خلاف بات کرنے پر سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق طالبان نے گرشک فورٹ پر اپنی کاروائی کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد آنے والے عوامی ردعمل کے دباؤ میں اپنی کاروائی روک دی ہے۔
طالبان نے بدھا کے مجسمے 2001ء میں اس وقت کے طالبان لیڈرملا عمر کے حکم پر تباہ کئے تھے۔