قیصر عباس
جدید دور میں کم وبیش تمام گوریلا تحریکوں نے اپنے ملکوں پر قابض بیرونی فوجوں کو شکست دے کر ان کی لوٹ کھسوٹ سے نجات حاصل کی۔ چاہے وہ برطانوی فوجوں کے خلاف امریکی انقلاب ہو، فرانس کے خلاف الجزائر کی جدوجہد ِآزادی ہو یا افغانستان میں امریکی تسلط کے خلاف گوریلا جنگ، باغی گروہوں نے ہر جگہ کامیابیاں حاصل کیں۔
گزشتہ دنوں امریکی دانشور ولیم پوک کی تصنیف ’Violent Politics: A History of Insurgency, Terrorism and Guerrilla War, from the American Revolution to Iraq (HarperCollins, 2007)‘ پڑھنے کا موقع ملا جس میں انہوں نے جدید دور کی گوریلا جنگوں کا تفصیلی جائزہ لے کر ثابت کیا ہے کہ بیرونی طاقتیں بہت کم گوریلاجنگوں میں کامیاب ہوئی ہیں۔
ولیم پوک (William R. Polk,1929-2020)خا رجہ پالیسی اورمشرق وسطیٰ کی سیاسیات کے ماہر تھے، ہارورڈ اور یونیورسٹی آف شکاگو میں عربی زبان اور مشرق وسطیٰ کے موضوعات پر تحقیق و تدریس میں مصروف رہے اور کئی کتابیں بھی تصنیف کیں۔ اس تصنیف میں انہوں نے ویت نام، الجزائر، یوگوسلاویہ، یونان، آئرلینڈ، کینیا، عراق اور افغانستان سمیت دنیا کی گیارہ گوریلا جنگوں کا تجزیہ کیا ہے۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جو گوریلا باغیوں کی تشکیل میں اہم کردار اداکرتے ہیں؟ مجموعی طور پر سیاست، انتظامی اہلیت اور جنگ، یہ تین عوامل گوریلا تحریکوں کی تشکیل کے اہم اجزا ہیں۔ ملکی سیاست، بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی کے نتیجے میں بیرونی افواج ملکوں پر قبضہ کرتی ہیں۔ مقامی رد عمل کے طور پر باغی گروہ تشکیل پاتے ہیں جو متحد ہوکر انتظامی امور کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں اور بیرونی فوجوں کا عمل دخل بتدریج کم ہو جاتا ہے۔
مصنف کے نزدیک گوریلا جنگیں کئی مرحلوں میں اپنا مشن مکمل کرتی ہیں۔ پہلے مرحلے میں چند لوگ جمع ہو کر محدود وسائل کے ساتھ قابض فوج کے خلاف چھوٹے پیمانے پر کاروائی کرتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں لوگوں کی بڑی تعداد باغیوں میں شامل ہو کر بڑے پیمانے پرگوریلا کاروائیاں کرتی ہے۔ اگلے مرحلے میں باغی تحریکیں متبادل انتظامی ادارے قائم کرکے اپنا اثر اور طاقت مزید مستحکم کرتے ہیں۔ اس مرحلے میں بینک، مقامی انتظامی ڈھانچے اور مالیاتی اداروں کی تشکیل باغیوں کی مالی اور سیاسی طاقت کو مضبوط بناکر قابض فوجیوں کا عمل دخل محدود کر دیا جاتا ہے۔ آخری مرحلے میں گوریلا کاروائیوں کے ذریعے قابض فوجوں کو شکست دی جاتی ہے اور انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تنظیم کے رہنما ملک میں اپنی حکومت بنا کر آزاد ریاست کی بنیاد رکھتے ہیں۔
بیرونی طاقت کے خلاف گوریلا جنگجوؤں کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں اور انہیں منظم کرکے سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی وراثتوں کا تحفظ کرتے ہیں۔ ماؤزے تنگ نے 1937ء کہا تھا کہ:
”سیاسی حکمت عملی کے بغیرکوئی گوریلا جنگ کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ سیاسی حکمت عملی لوگوں کی خواہشات کی ترجمانی نہیں کرتی تو کسی صورت ان کی ہمدردیاں، اشتراک اور تعاون بھی حاصل نہیں کر سکتی۔“
دیکھا گیا ہے کہ سامراجی طاقتیں اقتصادی یا نظریاتی حکمت عملی کے تحت چھوٹے ملکوں پر قبضہ کر لیتی ہیں لیکن کچھ ہی عرصہ بعدوہ مقامی گروہوں کے نشانے پر ہوتی ہیں اور اس دلدل میں پھنس کر اپنی شکست کے اور قریب ہوجاتی ہیں۔ آج دنیا کے ایک سو ساٹھ ملکوں میں سے ایک سو ملکوں میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ مصنف کے نزدیک امریکہ نے 2007ء تک بیرونی فوجی کاروائیوں میں پانج سو بلین ڈالر صرف کیے۔ ان اخراجات کا تخمینہ سات بلین ماہانہ اور دس ملین فی گھنٹہ لگایا جاتا ہے جس میں بیس فی صد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوا۔ عراق اور افغانستان میں امریکی قبضوں کے بعد ان اخراجات میں کئی گنا اضافہ بھی دیکھا گیا۔
مالی بوجھ کے علاوہ انسانی جانیں بڑی تعداد میں سامراجی جنگوں کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہیں۔ عراق کی جنگ میں ایک اندازے کے مطابق تین ہزار پانچ سو سے زیادہ امریکی ہلاک اور پچیس ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ اس کے مقابلے میں 601,027 عراقی ہلاک اور لاتعداد زخمی ہوئے۔
تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے۔ بیرونی جنگوں میں بے انتہا مالی اور جانی نقصان سامراجیوں کی اندرونی شکست و ریخت کا باعث بھی بنتا ہے۔ تاریخی طور پر دنیا کی کئی سلطنتوں نے اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود پر بیرونی فتوحات کو ترجیح دی لیکن اس دھن میں خود اپنی تباہی کے نزدیک پہنچ گئے۔
جرمن فلسفی ہیگل نے کہا تھا کہ لوگوں اور حکومتوں نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھانہ اس سے اخذ کیے گیے اصولوں پر عمل کیا۔ اکیسویں صدی میں روس کا یوکرین پر حملہ ہو یا امریکہ کا افغانستان پربیس سالہ قبضہ، عصر حاضر کی طاقتور ریاستیں اگر اپنی تاریخی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ان سے سبق سیکھیں تو ایک پر امن اور خوش حال دنیاکا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔