لاہور (جدوجہد رپورٹ) بھارتی قانون سازوں نے ڈیٹا پروٹیکشن کا ایک قانون پاس کیا ہے، جو یہ طے کریگا کہ ٹیک کمپنیاں کس طرح صارفین کے ڈیٹا پر کارروائی کریں گی۔ اس طرح حکومت کی طرف سے نگرانی میں اضافہ ہو گا۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق بدھ کو منظور ہونے والے قانون سے کمپنیوں کو کچھ صارفین کا ڈیٹا بیرون ملک منتقل کرنے کی اجازت ملے گی، جبکہ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ فرموں سے معلومات حاصل کر سکے اور وفاقی حکومت کے مقرر کردہ ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ کے مشورے پر مواد کو بلاک کرنے کیلئے ہدایات جاری کر سکے۔
ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل حکومت اور ریاستی اداروں کو قانون سے مستثنیٰ کرنے کے اختیارات دیتا ہے اور صارفین کو اپنے ذاتی ڈیٹا کو درست کرنے یا مٹانے کا حق بھی دیتا ہے۔ نئی قانون سازی بھارت کی جانب سے 2019ء کے پرائیویسی بل کو واپس لینے کے بعد سامنے آئی ہے، جس نے سرحد پار ڈیٹا کے بہاؤ پر سخت پابندیوں کی تجاویز کے ساتھ فیس بک اور گوگل جیسی ٹیک کمپنیوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔
نیا قانون خلاف ورزیوں اورعدم تعمیل پر 2.5 ارب روپے تک جرمانے کی تجویز کرتا ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس گروپ ایکسیس ناؤ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ رازداری کو خطرے میں ڈالتا ہے، حکومت کو ضرورت سے زیادہ چھوٹ دیتا ہے اور ایک آزاد ریگولیٹر قائم کرنے میں ناکام ہے۔ نیا قانون ذاتی ڈیٹا پر حکومت کے کنٹرول میں مزید اضافہ کرے گا اور سنسرشپ میں بھی اضافہ کرے گا۔‘
کئی اپوزیشن قانون سازوں اور ڈیجیٹل ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون سے حکومت اور اس کی ایجنسیوں کو کمپنیوں کے صارف ڈیٹا اور افراد کے ذاتی ڈیٹا تک ان کی رضامندی کے بغیر رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے ملک میں نجی ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اجازت ملے گی، جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ڈیجیٹل آزادیوں میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
ایک ڈیجیٹل رائٹس گروپ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے مطابق اس قانون میں زیادہ وسیع نگرانی کے خلاف کوئی بامعنی تحفظ شامل نہیں ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے کہا کہ یہ پریس کی آزادی کو متاثر کرتا ہے اور معلومات کے حق کے قانون کو کمزور کرتا ہے۔